قومی سلامتی کا تناظر
این جی اوز کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے کام کے نتیجے میں سوائے روایات سے انحراف کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
بھارت نے4,349 این جی اوزکی رجسٹریشن کینسل کردی۔35 این جی اوز ما قبل اجازت کی فہرست میں شامل کردی گئیں۔32 این جی اوز کے اثاثے اور کھاتے منجمد کر دیے گئے۔
72این جی اوز کوغیر ملکی امداد وصول کرنے سے روک دیا گیا۔بھارتی راجیہ سبھا میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے وزیر رام چندرن نے مزید بتایا کہ24 این جی اوز کے خلاف CBIمیں کیس داخل ہیں نیز 10کیسز پولیس کو دیے گئے ہیں۔وزیر موصوف نے خیال ظاہر کیا کہ کچھ این جی اوزغیر ملکی امداد وصول کرکے اُس کے غلط استعمال کی مرتکب ہو رہی ہیں۔جس مقصد کے لیے رقم حاصل کی جا تی ہے وہاں خرچ ہونے کے بجائے غلط مواقعے پر استعمال ہو جاتی ہے۔ بھارت میں این جی اوز کے لیے ایک قانون بنایا گیا ہے جسے ''فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ''FCRAکہا جاتا ہے۔اِس کی رُو سے تمام این جی اوز کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی بھی غیر ملکی امداد کی وصولی سے قبلFCRAکلیرنس حاصل کریں۔این جی اوز کے خلاف بھارتی حکومت کے جارحانہ رویے کو سول سوسائٹی اور لبرل حلقوں میں پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جا رہا۔
مصر میں 29دسمبر سے این جی اوز کے خلاف شدید کارروائی جاری ہے۔بھارتی حکومت کی طرح وہاں بھی یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ این جی اوز ورکرز ملکی مفاد کے بر خلاف کسی اور ہی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ این جی اوز کو ملنے والی غیر ملکی امداد کبھی ملکی مفاد میں نہیں ہوتی۔مصر میں یہ موضوع ہمیشہ ہی سے حساس رہا ہے۔آج بھی وہاں USAIDاور اقوامِ متحدہ کی جانب سے این جی اوز کو پہنچائی جانے والی براہِ راست امدادی رقوم کو قومی آزادی کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ مصر میں400 سے زائد این جی اوز کے دفاتر بند کر دیے گئے ہیں یا اُن پر شدید پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ پانچ ملکی اور پانچ غیر ملکی این جی اوز کو تو غیر قانونی ہی قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ صرف آج ہی کا مسئلہ نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے کئی حکومتوں کو اِس حوالے سے تشویش رہی ہے۔مثال کے طور پر برازیل کو لیں۔ یہ 1997 کی بات ہے۔ ریو ڈی و کے سیکیورٹی انچارج معروف جنرل نلٹن سرکویرا نے برازیل کے مشہور روزنامے ''او گلوبو'' میں ایک مضمون لکھا۔ اِس ضمن میں آپ کے الفاظ بڑے سخت تھے۔ The permissive operations of the NGOs in the national territory truly constitute a threat to national security.یعنی آپ کے خیال میں این جی اوز کا کام قومی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔وہ جس ملک میں کام کرتے ہیں اُسی کے مفادات کے خلاف امداد دینے والوں کے آلہء کار بن جاتے ہیں۔جنرل سر کویرا سے ملتا جلتا نظریہ اِس سے قبل اسی ملک کے ایک اور جریدے ''ویجا'' نے بھی 9 فروری 1994 کوشایع کیا تھا۔ یہ ایک تفصیلی رپورٹ تھی اور حاصلِ کلام اُس کا بھی یہی تھا۔
ہمارے ملک پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق45000 مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ان کے کار کنان کی تعداد تین لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ جس میں سے دو لاکھ افراد این جی اوز کے لیے کُل وقتی کام کرنے والے ہیں۔چوں کہ اِن تنظیموں کی ایک بڑی تعداد کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہوتی لہٰذا اِن کی درست تعداد سے لے کر دیگر تمام اہم اعداد و شمار ہمیشہ پردہئِ اخفا ہی میں رہتے ہیں۔ مثلاً بھارت کے بارے میں ایک اندازہ ہے کہ وہاںکی این جی اوز کو 2009-10کے دوران 10,352.07کروڑ کی غیر ملکی امداد ملی۔ لیکن یہاں کسی کو کچھ پتا ہی نہیں ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔
خود حکومت امریکا سے دریافت کرتی رہتی ہے کہ آپ نے'' کیری لوگر بل'' کے 7.5بلین ڈالر کس کس کو دیے ہیں۔اِس سے زیادہ سادہ لوح بھی کوئی حکومت ہو گی؟ پاکستان میں اِس حوالے سے سینیٹر طارق عظیم نے ایک بِل پیش کیا ہے،Foreign Contribution Act 2012۔حیرت انگیز طور پر پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر کی رائے بھی اوپر پیش کی گئی آرا ء سے مختلف نظر نہیں آتی۔ آپ کا بھی یہی کہنا ہے کہ این جی اوز غیر ملکی امدادی رقوم کو اپنے ہی ایجنڈے کے لیے اِستعمال کرتی ہیں۔یہ ایجنڈا بسا اوقات مفادِ عامہ کے خلاف بھی ہوتا ہے۔یہ بِل ایوانِ زیریں میں پیش کر دیا جائے گا، اگر وہاںسے پاس ہوا تو جلد ہی یہ ایک پارلیمانی ایکٹ ہو گا۔سینیٹر اسحق ڈار اور الیاس بلّور بِل کو مناسب انداز میں پیش کرنے اور دیگر امور کے ذمے دار قرار پائے ہیں۔
یادِش بخیر اِس موقعے پر گزشتہ برس کی اِس رپورٹ کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا جس میں حساس اداروں نے صدر آصف علی زرداری کو ایک اہم رپورٹ پیش کی تھی۔شنید ہے کہ اگست 2011 میں ڈی ایس آرDaily Situation Report میں حساس اداروں نے پاکستان کے حساس ترین صوبے خیبر پختونخواہ میں 51غیر ملکی این جی اوزکی کار کردگی پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق صدر صاحب کو رپورٹ کی گئی تھی کہ صوبے میں کام کرنے والی 51غیر ملکی این جی اوز میں سے 19کا تعلق امریکا سے ہے، 11کا برطانیہ سے جب کہ جرمنی، فرانس،اسپین اور ڈنمارک کی علی الترتیب پانچ ،تین، دو اور تین این جی اوز مصروفِ عمل ہیں۔اسلامی مما لک میں سے سب سے زیادہ سعودی عرب کی سات این جی اوز اور ترکی کی ایک این جی او سر گرمِ عمل ہے۔مبینہ رپورٹ کے مطابق اِن تنظیموں میں 592افراد ملازم ہیں۔ 82اِن میں سے غیر ملکی ہیں۔
اِن سب ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر سہولیات شاہانہ ہیں۔پیش کی گئی فہرست میں مشاہروں سے لے کر کارکردگی تک ہر چیز پر شدید تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ واضح موقف اپنایا گیا تھا کہ اِن میں موجود کئی افرد کی دل چسپی حساس نوعیت کی معلو مات نیزجاری دہشت گردی سے نظر آتی ہے۔ اِسی روشنی میں فہرست میں موجود بہت سی این جی اوز کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔بہت سی نیک نام این جی اوز بھی ہیں۔نام گنانے کی ضرورت نہیں،تحقیق ان کی ہونی چاہیے جو واقعی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔بلاشبہ ساری این جی اوز پر سیاہی پھیرنا مقصود نہیں،تاہم ایک عرصے سے حساس اداروں میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ بھاری مشاہرے پر پاکستان میں تعینات کئی غیر ملکی مفاد عامہ کے منافی سر گرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
اِس ضمن میں آج کے اہم سیاسی معیشت دان ''لیو پینش'' کی رائے بھی ذکر کر دی جائے ۔آپ کو بجا طور پر آج کا کارل مارکس کہا جا سکتا ہے۔آپ نے 9جولائی 2001 کو لندن میں '' پیٹر گوان'' اور ''مارٹن شا'' کے ساتھ ایک اہم مذاکرے میں اِنہیں'' لبرل ریاستوں کا ہراول دستہ'' قرار دیا تھا۔
کسی بھی ادارے کو اُس سے حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے جانچا جاتا ہے۔ این جی اوز کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے کام کے نتیجے میں سوائے روایات سے انحراف کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ روایتی معاشروں میں کیا یہ ایک قابلِ قبول صورتِ حال ہو سکتی ہے؟