عالم اسلام سازشوں کی زد میں
مغرب نے اپنے آلہ کار سے خلافت جیسے ادارے کو ختم کرکے عالم اسلام کے اتحاد کو انتشار و افتراق اور خلفشار میں بدل دیا۔
KARACHI:
اسلام کی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ میں مسلمانوں پر ہزاروں قیامتیں ٹوٹیں لیکن ان سب کا منبع ومخرج ایک اور صرف ایک تھا،بارھویں صدی میں مشرق سے طوفان اٹھا اورکئی صدی جاری رہا۔
اس میں وسط ایشیاء کے پرستاران توحید کی4/5 حصہ آبادی پیوند خاک کی گئی، ابن اثیر نے کہا کہ کاش میری ماں مجھے جنم نہ دیتی کہ میں ان حالات کے لکھنے کے لیے اس دنیا میں موجود ہوتا، مغرب سے گیارہویں صدی میں بجلیاں گرنی شروع ہوئیں اور بیت المقدس میں پچھتر ہزار مسلمان مرد، عورتیں بوڑھے اور بچے تہ تیغ کیے گئے، فخریہ یہ لکھا گیا کہ ان کافر مسلمانوں کا خون ان کی مسجدوں میں ہمارے گھوڑوں کے گھٹنوں تک ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جب جنرل ایلن بی بیت المقدس پر قبضے کے بعد وہاں پہنچا تو اس نے یہ الفاظ کہے، آج صلیبی جنگوں کا اختتام ہوا ہے، جب کہ انگلستان کے وزیراعظم لائیڈ جارج نے کہاکہ ہم نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو کہ کروسیڈر(صلیبی جنگ آزما) انجام نہ دے سکے تھے۔
اسی سلسلے میں ہسٹری آف رومانس صفحہ 32 پر درج ہے کہ ''مسلمان کا گوشت کھا کر وہی تاثیر محسوس ہوئی جو سور کا گوشت کھانے کے بعد ہوتی ہے'' پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر فرانسیسی جنرل گوررو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر آیا تو اس نے اس صلیبی جنگ میں اپنی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا'' اے صلاح الدین ہم واپس آگئے ہیں۔'' پچاس کی دہائی میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا'' اسلامی دنیا ایک دیو ہے جسے جکڑ دیا گیا ہے، آئو ہم اپنی تمام تر قوت لگا دیں تاکہ یہ دوبارہ نہ اٹھ سکے''۔ ساٹھ کی دہائی میں یوجین روسٹو، جوکہ اس وقت امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پلاننگ ڈویژن کا سربراہ اور صدر جانسن کا مشیر بھی تھا نے کہا ''مشرق وسطیٰ میں مغربی دنیا کا ہدف اسلامی تہذیب کو تباہ کرنا ہے اور اسرائیل کا قیام اس منصوبہ کا ایک حصہ ہے اور یہ صلیبی جنگوں کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں۔'' 1990 کے آغاز میں صحافی ڈیوڈ ہال کا ایک مضمون تاریخ کے دھارے کی تبدیلی کے عنوان سے واشنگٹن پوسٹ اور جاپان ٹائمز میں شایع ہوا، جس میں اس نے کہاکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اولین دشمن اسلام اور اس کی تہذیب ہے۔
1990کے وسط میں ایک اور صلیبی سابق فرانسیسی وزیراعظم مائیکل ڈیبری نے ایک مضمون جولوکو تھیڈین ڈبرے نامی اخبار میں شایع ہوا میں کہا کہ'' اسلام اب یورپ کا دشمن بن چکا ہے اور سب سے پہلے وہ فرانس کا دشمن ہے اور فرانس کو جنوب یعنی اسلامی خطوں سے خطرہ لا حق ہو سکتا ہے۔'' اسی طرح جرمن میگزین ڈیرش بیگل نے اپنے 1991 کے آٹھویں شمارے میں مغربی تہذیب کو اسلام سے لاحق خطرات تھے، بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ شایع کی جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مغرب نے صلیبی جنگوں کے دوران بیت المقدس میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ہونے والی شکست کا بدلہ لے لیا ہے، مغرب نے عالم اسلام سے دو مرتبہ اس کا بدلہ لیا۔
اول، مغرب نے اپنے آلہ کار سے خلافت جیسے اہم ترین ادارے کو ختم کرکے عالم اسلام کے اتحاد کو انتشار و افتراق اور خلفشار میں بدل دیا، دوئم، اس نے اسلامی علاقوں کے عین قلب یعنی فلسطین میں یہودیوں کو ریاست قائم کرنے میں ہمدردی اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا، گویا صدیوں سے اہل مغرب کے دل اسلام و اہل اسلام کے خلاف نفرت و دشمنی سے لبریز ہیں۔ اگست1990 کے آغاز میں اپنے فوجیوں کو کویت بھیجتے وقت بش سینئر نے تقریر کی جس میں اس نے انھیں عیسائیت کی خاطر لڑنے پر ابھارا بش نے امریکا کے تمام چرچوں سے کہاکہ وہ ان افواج کے لیے دعا کریں، یہ تقریر جزیرہ نما عرب اور خلیج کے مسلمان ممالک کے خلاف ایک نئی صلیبی مہم کا آغاز تھا۔بش جونیئر نے11ستمبر کے واقعے کے بعد16 ستمبر2001 کو کہا کہ وہ افغانستان کے خلاف صلیبی حملے کی تیاری کررہا ہے اور پھر اس کے بعد میڈیا تعلیم اور غلط افکار کی ترویج اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کے تحت بڑی منظم اور خوفناک و خون ریز جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یہ جنگ بش جونئیر کے بعد براک اوبامہ کے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دعویٰ کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور تمام عالم کفر عالم اسلام کے خلاف مختلف محاذوں پر صف آرا ہے، مغرب کی نظر میں ہر راسخ العقیدہ مسلمان دہشت گرد اور مجرم ہے، مغرب کے ان معتصبانہ اقدام نے ان کے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بلند بانگ دعوئوں کے قلعی کھول دی ہے، قرآن کریم کی بے حرمتی، شیطانی تحریریں کتابیں، گستاخانہ خاکے اور کارٹونز۔ اور اب نائن الیون کی گیارہویں برسی کے موقعے پر جاری کردہ اسلام کی توہین اور شان رسالت پر مبنی گستاخانہ امریکی فلم Innocense of muslims نے دنیا بھر کے15 ارب سے زاید مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو شدید مجروح کیا، تاہم مغرب کا اسلام دشمنی پر مبنی یہ منافقانہ طرز عمل اب روز کا معمول بن کر رہ گیا ہے، مذکورہ انتہائی قابل مذہب شرمناک و گھنائونی فلم ایک اسرائیلی نژاد دشمن ملعون سام باسل نے ڈائریکٹ اور پروڈیوس کی ہے۔
جس کی سرپرستی اور تشہیر فلوریڈا (امریکی ریاست) سے تعلق رکھنے والے ملعون پادری ٹیری جونز نے کی ہے۔ یہ بد بخت شخص ماضی میں بھی قرآن پاک کو نذرآتش کرنے اور نیویارک میں گرائونڈ زیرو کے قریب مسجد کی تعمیر کی مخالفت میں پیش پیش تھا، اس لعنتی فلم کی تیاری پر پانچ ملین امریکی ڈالر لاگت آئی اور یہ ساری رقم، یہودیوں نے فراہم کی ہے، یہود و نصاریٰ ازل سے اسلام، بانی اسلام اور مسلم امہ کے دشمن ہیں اور چونکہ فرنگ کی رگ جان پنجہ یہود میں ہے لہذا یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ عصر حاضر میں بھی عالم اسلام کی نا صرف تباہی و بربادی بلکہ صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔یہ تمام معتصبانہ اقدام اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ امریکا اور یورپ سمیت پوری مغربی دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو در حقیقت اسلام اور مسلم امہ کے خلاف جنگ سمجھتی ہے۔
دشمنانان اسلام انتہائی پر فریب پرعناد ہوشیار مکار عیار اور چالباز ہیں۔ کفر والحاد کی طاقتیں ہر جگہ عالم اسلام کے خلاف متحد و منظم ہیں۔ امریکن نیشنل سیکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے تناظر میں امت مسلمہ و عالم اسلام کو مزید مسائل سے دوچار کرنے اور سیاسی معاشی اور مذہبی ہر سطح پر مزید بحران سے دو چار کرنے کے لیے جو سازشی اقدام تجویز کیے گئے ہیں اور جن پر اب بڑے منظم انداز میں عمل بھی کیا اور کرایا جا رہا ہے پیش خدمت ہے آپ بھی غور فرمائیے۔
1 مسلمانوں کو آپس کے جھگڑوں اور اختلافات میں مصروف رکھا جائے گا تاکہ وہ کوئی بڑی قوت نہ بن سکیں اور امریکی مفادات کے خلاف ان کی مزاحمت تقویت نہ پکڑ سکے۔2۔ ان ریاستوں کی حکومتیں تبدیل کروا دی جائیں گی جو نفاذ اسلام کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہی ہیں۔3 ۔موثر مشائخ اور علماء کو ذرایع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔4۔اسلام پسند عناصر(بنیاد پرستوں) کو کسی ملک میں بھی تعلیمی اداروں اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔5 ۔خلیجی ریاستوں میں مسلمانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم نہیں کیے جائیں گے بلکہ یہ افرادی قوت فلپائن، سری لنکا اور تھائی لینڈ سے حاصل کی جائے گی، ان لوگوں کے ذریعے خلیجی ریاستوں کی تہذیب و ثقافت تبدیل کر دی جائے گی، اسلامی اقدار اور اسلامی رسومات کو ختم کر دیا جائے گا۔
وہاں پاکستان اور بنگلہ دیش کے افراد کے روزگار پر مکمل پابندی لگا دی جائے گی۔6۔تمام ممالک کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں گی، ذرایع ابلاغ کے پروگراموں کو وسعت دی جائے گی۔7 ۔اسلام پسند عناصر اور اسلامی قیادت پر سختی سے نظر رکھی جائے گی۔8۔وہ ممالک جو سوڈان اور پاکستان کی طرح اسلامی نظریات اور سوچ کے حامل ہوں گے انھیں اختلافات اور مسائل میں مبتلا کر دیا جائے گا۔
آج مسلم امہ کی یہ حالت ہے کہ تمام مغربی اقوام ہمارے خلاف ہو گئی ہیں اور ہم لالچی اور ہوس زدہ ملک کے لیے مال غنیمت بن گئے ہیں اور ہمارے ممالک مختلف اقوام کی آپس کی محاذ آرائی کا میدان کارزار بن گئے ہیں۔ ایسے آزمائشی حالات میں مسلمانان عالم کی خواب غفلت سے بیداری انتہائی ضروری ہے ہمارے بے حمیتی، بے عملی اور کمزوریوں کا ادراک اور احساس کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ اور ان کے رسولﷺ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں ہماری ہمہ اقسام دنیوی مسائل و مصائب کا حل اور اخروی نجات مضمر ہے۔
اسلام کی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ میں مسلمانوں پر ہزاروں قیامتیں ٹوٹیں لیکن ان سب کا منبع ومخرج ایک اور صرف ایک تھا،بارھویں صدی میں مشرق سے طوفان اٹھا اورکئی صدی جاری رہا۔
اس میں وسط ایشیاء کے پرستاران توحید کی4/5 حصہ آبادی پیوند خاک کی گئی، ابن اثیر نے کہا کہ کاش میری ماں مجھے جنم نہ دیتی کہ میں ان حالات کے لکھنے کے لیے اس دنیا میں موجود ہوتا، مغرب سے گیارہویں صدی میں بجلیاں گرنی شروع ہوئیں اور بیت المقدس میں پچھتر ہزار مسلمان مرد، عورتیں بوڑھے اور بچے تہ تیغ کیے گئے، فخریہ یہ لکھا گیا کہ ان کافر مسلمانوں کا خون ان کی مسجدوں میں ہمارے گھوڑوں کے گھٹنوں تک ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جب جنرل ایلن بی بیت المقدس پر قبضے کے بعد وہاں پہنچا تو اس نے یہ الفاظ کہے، آج صلیبی جنگوں کا اختتام ہوا ہے، جب کہ انگلستان کے وزیراعظم لائیڈ جارج نے کہاکہ ہم نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو کہ کروسیڈر(صلیبی جنگ آزما) انجام نہ دے سکے تھے۔
اسی سلسلے میں ہسٹری آف رومانس صفحہ 32 پر درج ہے کہ ''مسلمان کا گوشت کھا کر وہی تاثیر محسوس ہوئی جو سور کا گوشت کھانے کے بعد ہوتی ہے'' پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر فرانسیسی جنرل گوررو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر آیا تو اس نے اس صلیبی جنگ میں اپنی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا'' اے صلاح الدین ہم واپس آگئے ہیں۔'' پچاس کی دہائی میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا'' اسلامی دنیا ایک دیو ہے جسے جکڑ دیا گیا ہے، آئو ہم اپنی تمام تر قوت لگا دیں تاکہ یہ دوبارہ نہ اٹھ سکے''۔ ساٹھ کی دہائی میں یوجین روسٹو، جوکہ اس وقت امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پلاننگ ڈویژن کا سربراہ اور صدر جانسن کا مشیر بھی تھا نے کہا ''مشرق وسطیٰ میں مغربی دنیا کا ہدف اسلامی تہذیب کو تباہ کرنا ہے اور اسرائیل کا قیام اس منصوبہ کا ایک حصہ ہے اور یہ صلیبی جنگوں کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں۔'' 1990 کے آغاز میں صحافی ڈیوڈ ہال کا ایک مضمون تاریخ کے دھارے کی تبدیلی کے عنوان سے واشنگٹن پوسٹ اور جاپان ٹائمز میں شایع ہوا، جس میں اس نے کہاکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اولین دشمن اسلام اور اس کی تہذیب ہے۔
1990کے وسط میں ایک اور صلیبی سابق فرانسیسی وزیراعظم مائیکل ڈیبری نے ایک مضمون جولوکو تھیڈین ڈبرے نامی اخبار میں شایع ہوا میں کہا کہ'' اسلام اب یورپ کا دشمن بن چکا ہے اور سب سے پہلے وہ فرانس کا دشمن ہے اور فرانس کو جنوب یعنی اسلامی خطوں سے خطرہ لا حق ہو سکتا ہے۔'' اسی طرح جرمن میگزین ڈیرش بیگل نے اپنے 1991 کے آٹھویں شمارے میں مغربی تہذیب کو اسلام سے لاحق خطرات تھے، بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ شایع کی جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مغرب نے صلیبی جنگوں کے دوران بیت المقدس میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ہونے والی شکست کا بدلہ لے لیا ہے، مغرب نے عالم اسلام سے دو مرتبہ اس کا بدلہ لیا۔
اول، مغرب نے اپنے آلہ کار سے خلافت جیسے اہم ترین ادارے کو ختم کرکے عالم اسلام کے اتحاد کو انتشار و افتراق اور خلفشار میں بدل دیا، دوئم، اس نے اسلامی علاقوں کے عین قلب یعنی فلسطین میں یہودیوں کو ریاست قائم کرنے میں ہمدردی اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا، گویا صدیوں سے اہل مغرب کے دل اسلام و اہل اسلام کے خلاف نفرت و دشمنی سے لبریز ہیں۔ اگست1990 کے آغاز میں اپنے فوجیوں کو کویت بھیجتے وقت بش سینئر نے تقریر کی جس میں اس نے انھیں عیسائیت کی خاطر لڑنے پر ابھارا بش نے امریکا کے تمام چرچوں سے کہاکہ وہ ان افواج کے لیے دعا کریں، یہ تقریر جزیرہ نما عرب اور خلیج کے مسلمان ممالک کے خلاف ایک نئی صلیبی مہم کا آغاز تھا۔بش جونیئر نے11ستمبر کے واقعے کے بعد16 ستمبر2001 کو کہا کہ وہ افغانستان کے خلاف صلیبی حملے کی تیاری کررہا ہے اور پھر اس کے بعد میڈیا تعلیم اور غلط افکار کی ترویج اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کے تحت بڑی منظم اور خوفناک و خون ریز جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یہ جنگ بش جونئیر کے بعد براک اوبامہ کے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دعویٰ کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور تمام عالم کفر عالم اسلام کے خلاف مختلف محاذوں پر صف آرا ہے، مغرب کی نظر میں ہر راسخ العقیدہ مسلمان دہشت گرد اور مجرم ہے، مغرب کے ان معتصبانہ اقدام نے ان کے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بلند بانگ دعوئوں کے قلعی کھول دی ہے، قرآن کریم کی بے حرمتی، شیطانی تحریریں کتابیں، گستاخانہ خاکے اور کارٹونز۔ اور اب نائن الیون کی گیارہویں برسی کے موقعے پر جاری کردہ اسلام کی توہین اور شان رسالت پر مبنی گستاخانہ امریکی فلم Innocense of muslims نے دنیا بھر کے15 ارب سے زاید مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو شدید مجروح کیا، تاہم مغرب کا اسلام دشمنی پر مبنی یہ منافقانہ طرز عمل اب روز کا معمول بن کر رہ گیا ہے، مذکورہ انتہائی قابل مذہب شرمناک و گھنائونی فلم ایک اسرائیلی نژاد دشمن ملعون سام باسل نے ڈائریکٹ اور پروڈیوس کی ہے۔
جس کی سرپرستی اور تشہیر فلوریڈا (امریکی ریاست) سے تعلق رکھنے والے ملعون پادری ٹیری جونز نے کی ہے۔ یہ بد بخت شخص ماضی میں بھی قرآن پاک کو نذرآتش کرنے اور نیویارک میں گرائونڈ زیرو کے قریب مسجد کی تعمیر کی مخالفت میں پیش پیش تھا، اس لعنتی فلم کی تیاری پر پانچ ملین امریکی ڈالر لاگت آئی اور یہ ساری رقم، یہودیوں نے فراہم کی ہے، یہود و نصاریٰ ازل سے اسلام، بانی اسلام اور مسلم امہ کے دشمن ہیں اور چونکہ فرنگ کی رگ جان پنجہ یہود میں ہے لہذا یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ عصر حاضر میں بھی عالم اسلام کی نا صرف تباہی و بربادی بلکہ صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔یہ تمام معتصبانہ اقدام اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ امریکا اور یورپ سمیت پوری مغربی دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو در حقیقت اسلام اور مسلم امہ کے خلاف جنگ سمجھتی ہے۔
دشمنانان اسلام انتہائی پر فریب پرعناد ہوشیار مکار عیار اور چالباز ہیں۔ کفر والحاد کی طاقتیں ہر جگہ عالم اسلام کے خلاف متحد و منظم ہیں۔ امریکن نیشنل سیکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے تناظر میں امت مسلمہ و عالم اسلام کو مزید مسائل سے دوچار کرنے اور سیاسی معاشی اور مذہبی ہر سطح پر مزید بحران سے دو چار کرنے کے لیے جو سازشی اقدام تجویز کیے گئے ہیں اور جن پر اب بڑے منظم انداز میں عمل بھی کیا اور کرایا جا رہا ہے پیش خدمت ہے آپ بھی غور فرمائیے۔
1 مسلمانوں کو آپس کے جھگڑوں اور اختلافات میں مصروف رکھا جائے گا تاکہ وہ کوئی بڑی قوت نہ بن سکیں اور امریکی مفادات کے خلاف ان کی مزاحمت تقویت نہ پکڑ سکے۔2۔ ان ریاستوں کی حکومتیں تبدیل کروا دی جائیں گی جو نفاذ اسلام کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہی ہیں۔3 ۔موثر مشائخ اور علماء کو ذرایع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔4۔اسلام پسند عناصر(بنیاد پرستوں) کو کسی ملک میں بھی تعلیمی اداروں اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔5 ۔خلیجی ریاستوں میں مسلمانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم نہیں کیے جائیں گے بلکہ یہ افرادی قوت فلپائن، سری لنکا اور تھائی لینڈ سے حاصل کی جائے گی، ان لوگوں کے ذریعے خلیجی ریاستوں کی تہذیب و ثقافت تبدیل کر دی جائے گی، اسلامی اقدار اور اسلامی رسومات کو ختم کر دیا جائے گا۔
وہاں پاکستان اور بنگلہ دیش کے افراد کے روزگار پر مکمل پابندی لگا دی جائے گی۔6۔تمام ممالک کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں گی، ذرایع ابلاغ کے پروگراموں کو وسعت دی جائے گی۔7 ۔اسلام پسند عناصر اور اسلامی قیادت پر سختی سے نظر رکھی جائے گی۔8۔وہ ممالک جو سوڈان اور پاکستان کی طرح اسلامی نظریات اور سوچ کے حامل ہوں گے انھیں اختلافات اور مسائل میں مبتلا کر دیا جائے گا۔
آج مسلم امہ کی یہ حالت ہے کہ تمام مغربی اقوام ہمارے خلاف ہو گئی ہیں اور ہم لالچی اور ہوس زدہ ملک کے لیے مال غنیمت بن گئے ہیں اور ہمارے ممالک مختلف اقوام کی آپس کی محاذ آرائی کا میدان کارزار بن گئے ہیں۔ ایسے آزمائشی حالات میں مسلمانان عالم کی خواب غفلت سے بیداری انتہائی ضروری ہے ہمارے بے حمیتی، بے عملی اور کمزوریوں کا ادراک اور احساس کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ اور ان کے رسولﷺ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں ہماری ہمہ اقسام دنیوی مسائل و مصائب کا حل اور اخروی نجات مضمر ہے۔