ایک رات کی نیند
فکروں، پریشانیوں، الجھنوں اور مسئلوں کی جو فیکٹریاں ہمارے ہاں لگی ہوئی ہیں وہ کمال کی مصنوعات پیدا کرتی ہیں۔
NEW YORK:
یہ ایک سکون کا دن تھا۔ اس دن بھی شہر میں خوں بہا تھا۔ اس دن بھی ٹریفک جیم تھا۔ اس دن سے اگلے دن بھی ہڑتال تھی۔ سورج بھی نکلا تھا۔ شام بھی تھی۔ سارا شہر مرگیا تھا پر لوگ ابھی زندہ تھے۔
لوگوں کا یہ بے سمت ریوڑ انتظار حسین کے کرداروں کی طرح کسی نامعلوم کی تلاش میں ہے۔ سارا دن جگالی کرتا ہے اور بنتا بناتا کچھ نہیں۔ چیونگم سے بھی بھلا کسی کا پیٹ بھرا ہے! ان سب کے دن اور رات الٹ چکے ہیں۔ الٰہی بھیڑ بکریوں میں یہ ناچیز قلمکار بھی شامل ہے۔ اب اس کی رات بھی تین بجے شروع ہوتی ہے اور تین ہی بجے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کچھ نہیں ہوتا۔ بازاروں میں صرف الو بولتے ہیں۔ یہ محاورے والے الو ہیں ورنہ اصلی الو تو رات کو جاگتا ہے۔ جیسے اب ہم جاگتے ہیں۔ آدھے الو بن چکے ہیں۔
ایک ادھورے خط نے پانچ برس کی نیند اڑا کر رکھ دی۔ سولی پہ نیند کس گدھے کو آتی ہے، مجھے نہیں معلوم۔ یہاں تو صورت حال یہ تھی کہ ایک ''خط'' جو دست یار میں ہے۔ پوری قوم اس کے انتظار میں ہے۔ لال حویلی والا سیاستدان ٹھیک کہتا ہے کہ دکان سے ڈیپریشن دور کرنے والی دوائوں کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ طلب بہت ہے۔ رسد کوئی نہیں۔ ہو بھی کیسے۔ ایفیڈرین کا نام لیتے ہوئے دواسازوں کی چیخ نکل جاتی ہے۔ کیا عجب بلا ہے کہ یہ جنوبی پنجاب کی ایک اور جھولی میں آگرنے والی وزارت عظمیٰ کو کھا گئی اور اس کے بعد بھی جا بے جا ڈنک مارتی پھر رہی ہے۔ جسے ڈنک مارتی ہے وہ غائب ہوجاتا ہے۔ شاید اسے سامری جادوگر نے ایجاد کیا ہے۔
ایک جادو ایئر مارشل صاحب نے بھی کیا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے بڑی تپسیا کی۔ سولہ برس تک ایک متعفن ندی میں ایک ٹانگ پہ کھڑے ہوکے انتظار کیا۔ پھر یہ ہوا کہ جادو تو ہوگیا اور اس کے نتیجے میں وقتی طور پر جرنیل بھی اور ان کے وسیلے سے بہت سے سیاست گر بھی خوار ہوئے۔ سب کی طرف انگلیاں اٹھیں لیکن ساتھ ہی ایک انگوٹھا خود ایئر مارشل کی طرف اٹھ گیا۔ لوگوں کو یاد آگیا کہ سیاست میں جرنیلی مداخلت کے خلاف صور پھونکنے والے نے ملک کے سب سے طویل مارشل لاء کو خط لکھ کے دعوت تو خود دی تھی۔ اب چاہے الفاظ کا کیسا بھی بہتر چنائو کیوں نہ کرلیا جائے، اس تہمت کی ملمع سازی نہیں کی جاسکتی۔ تاریخ تو ہزاروں برس پرانی قبریں بھی الٹ کے رکھ دیتی ہے۔ سچ نے ظاہر ہونا ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ صبح کو تو بہرحال آنا ہے۔ الو کو اندھا ہونا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایئر مارشل نے اپنی بچی کھچی اور بیمار شمار سی سیاسی وراثت جس شخص کی جھولی میں ڈالی ہے اس کی کرکٹ کیپ میں بھی ایک ایسا ہی سرخاب کا پر لگا ہے۔ وہ اس سے اگلے مارشل لاء کو سیاسی جواز مہیا کرنے کے دل کھولے کے جتن کرتا رہا ہے۔ آمر کے ریفرنڈم پہ دل و جاں سے واری ہوجانے والی سوچ کس اعلیٰ پایے کی ہوگی اور وہ آئندہ کیا کیا گل کھلا سکتی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے کسی ہنری کسنجر کی ضرورت نہیں ہے، جو مال ہے وہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ یکسوئی کا فقدان ہو اور زبانیں بے لگام ہوں تو سیاست میں پائوں کیسے جم سکیں گے۔ تنبو میں لگے ہوئے نئے ٹانکے تو ادھڑنا بھی شروع ہوگئے۔ اس سے پہلے کہ پھٹ کے لیرولیر ہوجائے کچھ فکر ادھر بھی کی جائے۔
ورنہ فکروں، پریشانیوں، الجھنوں اور مسئلوں کی جو فیکٹریاں ہمارے ہاں لگی ہوئی ہیں وہ کمال کی مصنوعات پیدا کرتی ہیں۔ ان کی پیداواری گنجائش بھی بہت ہے اور رفتار بھی بہت۔ مصنف اور سالار کے ان بیانات کو جو ایک ہی سمت میں ایک ہی پیام دیتے تھے انھوں نے چقماق کے پتھر بناکے ٹکرا دیا اور کہاکہ یہ پھلجڑی ہے۔ اب فائر ورکس دیکھو۔ اس پر شور شو میں میرا بے چارہ وہ ترسا ہوا خط جو خدا خدا کرکے لکھا گیا ہے، روانہ ہوا ہے اور اس کی وداعی کا بوجھ اترا ہے، اس کا مزہ ہی کرکرا کردیا۔ ابھی تھوڑا شک بھی ہے کہ ہر دیوار پہ قینچیاں رکھی ہیں اور منزل دور ہے۔ پوری قوم گومگو میں ہے۔ حل اگر یہی ہے تو بے سکونی کے اتنے برس کس کھاتے میں تھے۔ ایک جشن ان سے چھن چکا۔ لیکن میں نے اسے دبوچ لیا ہے۔ برسوں کے بعد ایک پرسکون لمحہ۔ اس کے نشے میں لال رنگ کے سارے منظر اوجھل ہوگئے ہیں اور حیرانیوں سے بھرپور ایک اطمینان میرے سامنے ہے۔
ایسا اطمینان جیسے کسی دل ویراں کے کامیاب بائی پاس کے بعد، یا پہلوٹھی کا بچہ جنوانے کے بعد، یا کھلی ہوئی کھوپڑی بند کرنے کے بعد سرجن نے آپریشن تھیٹر سے باہر نکل کے ایک مسکراہٹ فضا میں بکھیری ہو۔ امتحان کے نتیجے میں ایک بھی سپلی نہ آئی ہو۔ لفافہ کھلنے پہ نوکری ملنے کا سندیسہ ہو۔
تب دنیا کے سب سے بڑے جھوٹ بھی مجھے سچ لگنے لگے۔ یوں لگا کہ میں دنیا کے سب سے پرامن شہر اور آسودہ ملک کا باسی ہوں۔ میں نے سر تکیے پہ رکھا۔ روی شنکر کی خوب رو بیٹی انوشکا شنکر نے دھیمے دھیمے ستار پر ڈوبتے سورج کے تار ہلانا شروع کیے اور وہی نیند کی پری ایک رات کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے گئی جو برسوں سے دروازے کی اس اوٹ کھڑی تھی۔