گھر تا دفترمیں پائے جانے والے انسان کے ننھے رکھوالے

طبی سائنس کے مطابق بہت سے جراثیم اورغیر مرئی جاندار انسانوں کو بیماریوں سے بچاتے اور اسے تندرست رکھتے ہیں…چشم کشارپورٹ

جدید طبی سائنس انکشاف کر رہی ہے کہ بہت سے جراثیم اور غیر مرئی جاندار انسانوں کو بیماریوں سے بچاتے اور اسے تندرست رکھتے ہیں…چشم کشارپورٹ ۔ فوٹو : فائل

چین کی کہاوت ہے کہ پجاری ٹڈے(praying mantis) گھر آ جائیں تو وہ خوشحالی اور صحت لاتے ہیں۔ یہ کہاوت پروفیسر جوناتھن آئزن کو بہت پسند ہے۔ موصوف امریکی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے بطور ماہر خرد حیاتیات (Microbiologist) منسلک ہیں۔لیکن ان کی تحقیق کا مرکز پجاری ٹڈے یا دیگر دکھائی دینے والے حیوان نہیں... وہ غیر مرئی جان دار وں کی دنیا میں گھومنے پھرنے والے محقق ہیں۔

فرض کیجیے آپ گھر یا دفتر میں کمرے میں تنہا بیٹھے ہیں۔ مگر یہ تنہائی محض نظر کا دھوکا ہے کیونکہ اسی کمرے میں نہایت ننھے منے جاندار فضا میں میں چکر کھا رہے ہیں،گو وہ آپ کو نظر نہیں آتے۔ حتیٰ کہ وہ آپ کے جسم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا کمرے میں تنہا ہوتے بھی خود کو کبھی اکیلا نہ سمجھئے۔

ہمارے گھر' دفتر اور جسم میں پائے جانے والے یہ ننھے منے جانور سائنسی اصطلاح میں ''خرد جاندار'' (Microorganism) کہلاتے ہیں۔ ان ننھے جانداروں کا جسم ایک خلیے سے لے کر چند سو خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ا نسان کا بدن چار سو کھرب (چالیس ٹرلین ) خلیے رکھتا ہے۔

آپ ان ننھے خرد جانداروں کو معمولی یا غیر اہم مت سمجھئے' اب جدید سائنس یہ حیرت انگیز انکشاف کر رہی ہے کہ ہماری اچھی صحت کا دارومدار خاصی حد تک ان خرد جانداروں پر بھی ہے۔ یہ خرد جاندار ہمارے جسم اور اس ماحول میں پائے جاتے ہیں جہاں ہم کام کرتے' کھیلتے اور زندگیاں گزارتے ہیں۔



محض دس پندرہ سال تک سائنس دانوں کو ان غیر مرئی جانداروں کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل تھیں۔ مگر اب وہ ان کے متعلق بہت کچھ جان گئے ہیں۔ آپ جب بھی گھر یا دفتر کا دروازہ کھولیں' تو ہوا کے ساتھ ان خرد جانداروں کی بڑی تعداد بھی اندر داخل ہو جاتی ہیں۔

ہمارے جسم اور اردگرد پھیلے خرد جانداروں میں بعض ہماری صحت کے لیے نقصان دہ مگر بیشتر انسان دوست ہیں۔ اسی لیے ان دوستوں کی حفاظت کرنا اور خیال رکھنا ہماری ذمے داری ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان خرد جانداروں کو کھلے' ہوا دار گھر پسند ہیں۔ بند گھر میں جہاں ہوا گرم وخشک ہوتی ہے' یہ انسان دوست جاندار مر جاتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں انسان مختلف عوارض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ موت تک انہیں دبوچ سکتی ہے۔

ماہرین سائنس کی سعی ہے کہ ہمارے بدن اور گھریلو و دفتری ماحول میں جتنے بھی خرد جاندار پائے جاتے ہیں، ان کی درجہ بندی کر لی جائے۔ وجہ یہی کہ بیشتر انسان اپنا 90فیصد وقت گھر' دفتر ' دکان' اسکول وغیرہ میں رہتے ہوئے گزارتے ہیں ۔ لہٰذا انسان کو اپنے ان نادیدہ ساتھیوں کے متعلق پوری معلومات معلوم ہونی چاہئیں۔ یہ امر اس کی تندرستی کا ضامن ہے۔

درج بالا افادیت مد نظر رکھ کر ہی کچھ عرصہ قبل پروفیسر آئزن نے ایک تحقیقی ادارے ''مائکرو بیالوجی آف دی بلٹ انوائرمنٹ نیٹ ورک' '( Microbiology of the Built Environment Network) کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے سے وابستہ محقق گھر و دفتر میں پائے جانے والے ہر خرد جاندار پر تحقیق کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر' بارک اوباما نے ادارے کو مالی امداد دی ہے تاکہ وہ بہتر طور پر تحقیق کر سکے۔

دراصل عام لوگوں میں یہ نظریہ مشہور ہو چکا کہ جراثیم اور خرد جان دار مضر صحت ہیں۔ مگر سائنس نے اب دریافت کیا ہے کہ کئی جرثومے اور خردجاندار انسانی صحت کے لیے مفید ہیں۔ لہٰذا ان کی پہچان ضروری ہے تاکہ انسان انہیں نقصان پہنچانے سے باز رہیں ۔ یہ خرد جاندار گھر یا دفتر میں کسی بھی جگہ ہو سکتے ہیں... باورچی خانے ،غسل خانے یا خواب گاہ میں!

انسانی جسم کا بھی اہم حصہ
''اصل انواع'' (On the Origin of Species) مشہور برطانوی فطرت پسند' چارلس ڈارون کی کتاب ہے جو 1859ء میں طبع ہوئی ۔ اس میں ڈارون نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کی مختلف اشکال کا ارتقا کیونکر ہوا۔ اربوں برس کے سفر میں کئی اشکال معدوم ہو گئیں جبکہ بعض نے عروج پا لیا۔ عروج پانے والے جانداروں میں انسان سر فہرست ہے۔ مگر ڈارون نے اشکالِ زندگی میں خرد جان داروں کو شا مل نہیں کیا کیونکہ دوسو سال قبل سائنس ان کی بابت بہت کم جانتی تھی۔

اب ماہرین سائنس ثابت کر چکے کہ ان خردجانداروں کا شمار زندگی کی کامیاب ترین اشکال میں ہوتا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ دنیا کا 60 فیصد سے زیادہ ''نامیاتی مادہ'' (Biomass) خرد جانداروں پر مشتمل ہے۔ (نامیاتی مادے سے مراد وہ مادہ جو مردہ یا زندہ جانداروں پر مشتمل ہے۔) ذرا آپ ایک چمچ مٹی تو لیجیے... اس میں کرہ ارض پر آباد انسانوں سے زیادہ خرد جاندار موجود ہوں گے۔

آپ کو جان کر حیرت ہو گی' یہ انسانی جسم کا بھی اہم حصہ ہیں۔ ہمارا جسم چار سو کھرب خلیوں کا مجموعہ ہے۔ اس جسم میں اتنے ہی یعنی چالیس کھرب خرد جاندار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ننھے منے جاندار انسانی بدن میں کئی وقیع کا م انجام دیتے ہیں... مثلاً غذاہضم کرنا' ہمیں چھوت سے بچانا اور ہمارے جذبات و احساسات تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کرنا۔

یہ محض نقطہ آغاز ہے' سائنس داں جاننے کی کوشش میں ہیں کہ یہ خرد جاندار انسانی بدن میں کس قسم کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ اس ضمن میں ہر ہفتے کچھ انکشاف ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے جسم میں کھربوں خرد جاندار موجود ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ بھی انسانوں کے شانہ بشانہ ارتقا پذیر ہوئے۔

انسانی بدن میں خرد جاندار اسی لیے پھلے پھولے کہ انہوںنے اپنی افادیت ظاہر کر دی۔ یہ خرد جاندار وٹامن و معدنیات بنانے میں بھی کام آتے ہیں۔ چناںچہ ان کی بیش بہا خدمات کے پیش نظر انسانی بدن نے بررضا و خوشی انہیں اپنے ڈھانچے میں رہائش فراہم کر ڈالی۔

حال ہی میں یہ افسوس ناک انکشاف ہوا ہے کہ شہر میں رہنے والے لوگوں کی آنتوں میں دیہاتیوں کی نسبت ''40 فیصد '' خرد جاندار کم پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے شہری نظام ہضم کی بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ شہریوں نے ''ردی غذا'' (junk food) کھا کھا کر نظام ہضم کی اصلاح کرنے والے خرد جاندار مار ڈالے۔ نیز اینٹی بائیوٹک ادویہ کا بے سوچے سمجھے استعمال بھی رنگ لایا اور بہت سے خرد جاندار چل بسے۔ گویا صنعتی دور کے تحفوں نے انسانوں کو کارآمد دوستوں سے محروم کر دیا۔

جوناتھن آئزن اس ضمن میں ایک اور نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں موجود خرد جاندار بیرونی ماحول کے خرد جانداروں سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے انسانوں نے بیرونی ماحول سے ناتا توڑ کر اپنے جسمانی خرد جانداروں کو الگ تھلگ کر ڈالا۔ یہ تنہائی بھی انہیں موت سے ہمکنار کر رہی ہے۔

ماریہ گلوریا نیویارک یونیورسٹی سے وابستہ ماہر خرد حیاتیات ہیں۔ ان کی تحقیق کا مرکز یہ امر ہے کہ بیرونی ماحول سے کٹ کر انسانی جسم کے خرد جانداروں پر کس قسم کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ ماریہ کہتی ہے:

''ماضی میں انسان فطرت کے بہت قریب تھا۔ درحقیقت اس کی پرورش فطرت کی آغوش میںہوئی۔ تب سبھی انسان کھیتوں کے کنارے رہتے تھے۔ ان کے گھر کھلے ہوتے اور کمروں میں ہر دم تازہ ہوا اور روشنی آتی رہتی۔ یہ صحیح ہے کہ فضلہ کا مؤثر انتظام نہ تھا۔ فضلہ گلیوں اور نالیوں میں پڑا رہتا۔ مگر تب ماحول کے خرد جانداروں سے ہم قریبی تعلق رکھتے تھے۔''



جب جدید دور شروع ہوا' تو تنگ مکان بنانے کا رواج پڑ گیا۔ کمروں میں ائرکنڈیشنر اور ہیٹر لگنے لگے۔ چناںچہ دن میں لوگوں کا بیشتر وقت کمروں میں گذرنے لگا۔ گویا ہم نے ان خرد جانداروں سے ناتا توڑ لیا جو ہمارے ساتھ ارتقا پذیر ہوئے تھے ۔ اپنی رہائش گاہوں کا ڈیزائن تبدیل کر کے ہم نے اپنی جسمانی ساخت بھی بدل ڈالی۔

جنگ ختم ہونی چاہیے
خرد جانداروں سے تعلق ٹوٹنے پر انسان جن آفتوں کا نشانہ بن سکتا ہے،ان میں سے ایک جوناتھن آئزن پر دھاوا بول چکی۔ وہ ذیابطیس قسم اول کا مریض ہے۔ اس بیماری میں جسم شکر کنٹرول کرنے والا ہارمون' انسولین پیدا نہیں کرتا۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ بدن میں خرد جانداروں کی کمی بھی ایسے مرض پیدا کرتی ہے۔

خرد جانداروں کی اہمیت کے باعث ہی جوناتھن دنیا والوں کو اس غیر مرئی مخلوق سے آشنا کرانا چاہتا ہے۔ مثلاً تحقیق سے اس نے دریافت کیا کہ ماحول یا ہمارے جسم میں پلنے بڑھنے والے خرد جاندار' دونوں پیچیدہ ماحولی نظام (Ecological systems) رکھتے ہیں۔ اسی واسطے ان کا آپس میں گہرا سمبندھ ہے۔

ظاہر ہے' سبھی خرد جاندار انسانوں کے دوست نہیں' ان کی بعض اقسام ہمیں بیمار کر دیتی ہیں۔ حتی کہ ہم موت کا نوالہ بھی بن جاتے ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انسان تلوار سونت کر سبھی خرد جانداروں کا قلع قمع کر ڈالیں ۔ جو ناتھن کہتا ہے: ''اگر آپ شیر سے خوفزدہ ہیں' تو یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ پورا جنگل کاٹ ڈالیں۔ کبھی کبھی لوگ یہ عمل بھی کر جاتے ہیں مگر دیوانگی ہے۔''

پچھلے سال تک جو ناتھن ایک امریکی این جی او ''فورم آن مائیکرو بائیل تھریٹس'' (Forum on Microbial Threats) کا رکن تھا۔ اس تنظیم سے وابستہ ماہرین انسانوں کو خرد جانداروں سے لاحق خطرات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

تنظیم کا نعرہ یہ ہے کہ خرد جاندار انسان کے دشمن ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان کے خلاف جنگ چھیڑ دینی چاہیے۔ لیکن جو ناتھن کو نعرے سے اتفاق نہ تھا لہٰذا اس نے تنظیم چھوڑ دی۔

پروفیسر جو ناتھن کا کہنا ہے کہ خرد جانداروں کے خلاف چھڑی انسان کی جنگ نہ صرف ناکام ہوچکی بلکہ وہ ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ مثال کے طور پر مختلف بیماریوں کو جنم دینے والے جراثیم مارنے کی خاطر نت نئی اینٹی بائیوٹک ادویہ تیار کی گئیں۔ مگر جراثیم نے ان ادویہ سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرلیں۔ چناں چہ ایسے جراثیم سامنے آچکے جن پر موجودہ اینٹی بائیوٹک ادویہ اثر انداز نہیں ہوتیں۔ ان جرثوموں کو ''سپربگس'' (Super Bugs) کا نام مل چکا۔ یہ سپربگس مستقبل میں کروڑوں انسانوں کو کسی موذی مرض کا شکار بناسکتے ہیں۔

اب جو ناتھن نے امریکا میں یہ مہم چلا رکھی ہے کہ سائنس کو خرد جانداروں کے خلاف چھیڑی جنگ ختم کردینی چاہیے۔ وہ کہتا ہے ''جراثیم بعض اوقات اچھے ہوتے ہیں اور کبھی برے ،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان کے فوائد سے مستفید ہوں اور نقصانات سے بچنے کی خاطر ایک نظام وضع کریں۔''


دراصل پچھلی نصف صدی سے عام و خواص میں یہ خیال جڑ پکڑچکا کہ تمام خرد جاندار انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے پچاس برس میں جراثیم، وائرس اور خرد جاندار مارنے والی رنگ برنگ ادویہ ایجاد ہوچکیں۔ یہی نہیں، اب تو جراثیم سے بچانے والے لباس اور کٹنگ بورڈ بھی سامنے آچکے۔ ان جراثیم کش اشیا کی مارکیٹ دس ارب ڈالر مالیت رکھتی ہے۔ اس مارکیٹ سے وابستہ کمپنیاں جراثیم و خرد جانداروں سے انسانوں کے خوف سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ حالانکہ اب رفتہ رفتہ ماہرین کو احساس ہوچکا کہ بیشتر لوگ خواہ مخواہ اور بے سوچے سمجھے جراثیم کش اشیاء استعمال کرتے ہیں۔

اب کمپنیاں سیکڑوں اشیا کی تیاری میں مختلف جراثیم مارنے والے کیمیاوی مادے بھی استعمال کرتی ہیں۔ مگر یہ مادے مختلف انداز سے انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثلاً صابن، ٹوتھ پیسٹ اور ڈیٹرجنٹ میں کیمیائی مادہ، ٹرائیکلوسن ( triclosan) شامل کیا جاتا ہے تاکہ وہ جراثیم مار ڈالے۔ مگر ٹرائیکلوسن جب سیوریج کے پانی میں داخل ہوجائے، تو وہاں ''اینٹی بائیوٹک مزاحمت'' (Antibiotic resistance) پیدا کرتا ہے۔ یعنی سیوریج میں موجود جراثیم اپنے اندر تبدیلیاں لاکر ٹرائیکلوسن کو بے اثر بنا ڈالتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کیمیائی مادہ انسان دوست جراثیم و خرد جانداروں پر کس قسم کے منفی اثرات پیدا کرتا ہے۔

خرد جانداروں اور جراثیم کی خوبیوں کے معترف پروفیسر جو ناتھن کو یہ موضوع برافروختہ کردیتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرتا ہے جو تمام ننھے و غیر مرئی جانداروں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس نے اب ان جانداروں کو دشمن انسانوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر جہاد شروع کررکھا ہے۔
خلا سے زمین تک
جو ناتھن اور دیگر ماہرین خرد حیاتیات اب تحقیق کررہے ہیں کہ جب کسی خرد جاندار کا پھیلتا پھلتا حیاتی نظام صفحہ ہستی سے مٹ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں وہ کرہ ارض کے دور دراز اور دشوار گزار مقامات حتیٰ کہ خلا میں بھی مصروف تحقیق ہیں۔

اس ضمن میں ہرنان لوریزی کی تحقیق خاصی انوکھی ہے۔ ہرنان امریکی تحقیقی ادارے، جے کریگ وینٹر انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہیں۔ وہ پچھلے چار برس سے ان خلا بازوں پر تحقیق کررہے ہیں جو سات آٹھ ماہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں گزار کر آئے۔ یہ اسٹیشن زمین سے 435 کلو میٹر بلند خلا میں چکر کھارہا ہے۔

خلائی اسٹیشن میں انسانوں کو خرد جانداروں اور جراثیم سے بچانے کے لیے خصوصی انتظام ہے۔ اس میں جگہ جگہ ''ہیپا'' (HEPA) یعنی ہائی ایفیشنسی پارٹیکلویٹ ایئر فلٹر (high-efficiency particulate air)لگے ہیں۔ یہ اسٹیشن میں موجود جراثیم مارتے اور خرد جانداروں کی افزائش روکتے ہیں۔ گویا یہ اسٹیشن ایک بہت بڑا جراثیم کش مرکز بن چکا۔

حال ہی میں ہرنان لوریزی کی چار سالہ تحقیق سے ایک انوکھا انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ خلائی اسٹیشن میں قیام پذیر خلا باز رفتہ رفتہ اپنی آنتوں میں پائے جانے والے جراثیم اور خرد جاندار کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کی بوقلمونی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی لیے خلا باز جب زمین پر پہنچیں اور نارمل زندگی گزارنے لگیں تو مختلف بیماریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آنتوں کے جراثیم و خرد جاندار مرجانے سے ان کا مامون نظام (Immune system) کمزور پڑجاتا ہے۔ چناں چہ وہ امراض کو روک نہیں پاتا۔

یہ ایک تکلیف دہ انکشاف ہے کیونکہ امریکی خلائی ادارہ ناسا مریخ پر انسان بھجوانے کے پروگرام بنارہا ہے۔ لیکن یہ سفر خلا بازوں کے جسم میں موجود صحت بخش خرد جاندار اور جراثیم مار کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذا ناسا کو کوئی ایسا حیاتیاتی طریق کار ڈھونڈنا ہوگا جو خلا بازوں کے خرد جانداروں کو زندہ و محفوظ رکھے۔

پروفیسر جیک گلبرٹ بہ حیثیت مائکرو بائل ایکولوجسٹ (Microbial ecologist) آرگون نیشنل لیبارٹری سے وابستہ ہیں۔ یہ امریکی شگاگو یونیورسٹی کا ذیلی ادارہ ہے۔ دو سال قبل پروفیسر جیک کی سربراہی میں ایک منصوبہ ''مائیکرو بائیومی پروجیکٹ'' شروع ہوا۔ اس منصوبے کے ذریعے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ ہسپتالوں میں خرد جاندار اور جراثیم کس قسم کا رویّہ دکھاتے اور کیونکر پھلتے پھولتے ہیں۔ اس منصوبہ سے ایک زبردست انکشاف ہوا۔

وہ یہ کہ عموماً ہسپتالوں میں جراثیم کش یا (جراثیم مارنے والا) ماحول پایا جاتاہے۔ اس ماحول میں اکثر انسان دوست جراثیم و خرد جاندار بھی مرجاتے ہیں۔ لہٰذا جو انسان دشمن جراثیم خرد جاندار اس ماحول کو برداشت کرلیں، وہ پھر ''سپربگس'' بن جاتے ہیں۔ یہی سپربگس پھر انسانوں کو متفرق چھوتی بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔

یاد رہے، امریکی ہسپتالوں میں صفائی و حفظان صحت کا اعلیٰ انتظام ہوتا ہے۔ مگر ہر سال یہ ہسپتال لاکھوں امریکیوں کو چھوتی امراض میں مبتلا کرتے ہیں اور ان میں سے پون لاکھ چل بستے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ ان ہسپتالوں کا جراثیم کش ماحول انسان دوست ننھے جاندار بھی ہلاک کرڈالتا ہے۔ چناں چہ ان کی عدم موجودگی میں خطرناک جراثیم اور خرد جانداروں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔

اب پروفیسر جیک گلبرٹ نے تمام امریکی ہسپتالوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ صفائی کا خاص خیال رکھیں مگر ماحول کو جراثیم کش نہ بنائیں۔ یوں انسان دوست جراثیم و خرد جاندار زندہ رہ کر انسانوں کو چھوتی بیماریوں سے محفوظ رکھیں گے۔ پروفیسر گلبرٹ کی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ ضروری نہیں، خطرناک جرثومہ یا خرد جاندار انسان کے جسم میں پہنچ کر اسے بیمار کرڈالے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی جسم میں موجود ہمارے دوست جراثیم و ننھے جاندار اس خطرناک دشمن کو بے اثر بنا ڈالتے ہیں۔ مگر انسانی بدن میں دوست خرد جاندار اور جراثیم نہ ہو، تو پھر انسان کو مختلف امراض کا نشانہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہی وجہ ہے، اکثر امیر ترین لوگ بھی اکثر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں جبکہ کسان اور مزدور فضلے کے قریب رہتے ہوئے بھی صحت مند دکھائی دیتے ہیں۔

دراصل امراء کی رہائش گاہیں ایئرکنڈیشنڈ ہوتی اور جراثیم کش ماحول رکھتی ہیں۔ اس ماحول میں انسان دوست جراثیم و خرد جاندار بھی زندہ نہیں رہتے، اسی لیے امراء عموماً کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں۔ مگر کسان اور مزدور فطری ماحول میں بستے ہیں۔ چناںچہ ان کے بدن میں انسان دوست ننھے جاندار خوب پھلتے پھولتے اور انہیں بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
بچوں کو مٹی میں کھیلنے دیں
دو سال قبل امریکی خاتون، سینڈی باربرا کے ہاں بیٹا تولد ہوا۔ وہ روایتی والدین کی طرح اپنے لاڈلے بیٹے کا خاص خیال رکھنے لگی۔ اس نے تمام رشتے داروں اور ملنے والوں کے نام ہدایات جاری کردیں... مثلاً یہ کہ بچے کو پیار نہ کریں، صابن سے ہاتھ دھو کر ہاتھ لگائیں، اس کی اشیا نہیں چھیڑیں وغیرہ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود سینڈی کا بیٹا چھ ماں بعد بیمار ہوگیا۔ اس کی آنکھیں سوج گئیں۔ کولہے سرخ رہنے لگے۔ جلد ہی اسے الرجیاں چمٹ گئیں۔ اسے مٹی، تخمک (Pollen) حتی کہ پالتو بلی سے الرجی رہنے لگی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا، تو انہوں نے کہا ''بچے کا نظام مامون کمزور ہوچکا۔ خدشہ ہے کہ وہ ساری عمر طاقتور نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے بچہ سدا الرجیوں کا شکار رہ سکتا ہے۔''

یہ سچا واقعہ ایک انکشاف کرتا ہے... یہ کہ عموماً نوزائیدہ بچے کو ہاتھ لگانے یا چومنے سے وہ مختلف چھوتی امراض کا نشانہ نہیں بنتے۔ بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں ایسے صاف ستھرے ماحول میں رکھا جاتا ہے کہ طویل عرصے ان کا خطرناک جراثیم اور خرد جانداروں سے واسطہ ہی نہیں پڑتا۔ ایسے جراثیم کش ماحول میں رہنے کی وجہ سے ان کا نظام مامون کمزور پڑجاتا ہے کیونکہ اسے کبھی دشمنوں سے لڑنے کا موقع نہیں ملتا۔ انہی دشمن جراثیم اور خرد جانداروں سے نبردآزما ہوکر نوزائیدہ بچے کا مامون نظام بتدریج طاقتور بنتا اور اسے خطرناک امراض سے بچاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل ہی انسان دوست ننھے جاندار اس کی چوکیداری کرنے لگتے ہیں۔ جب بچہ پیدائشی نالی (birth canal) میں آئے، تو وہاں لیکٹوباسیلس (Lactobacillus) نامی جراثیم اس کے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ جراثیم نہ صرف دودھ ہضم کرنے میں بچے کی مدد کرتے بلکہ اس کی آنتوں میں موجود تیزابیت بھی ختم کر ڈالتے ہیں۔

لیکن جو بچے سیزری آپریشن سے جنم لیں، ان کے جسم میں لیکٹوباسیلس جرثومے موجود نہیں ہوتے۔ جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ایسے بچے جنم لیتے ہی دشمن خرد جانداروں کی زد میں آجاتے ہیں۔ مثلاً انہیں ماں یا نرس وغیرہ کی جلد سے نقصان دہ جراثیم مثلاً سٹافائلو کوکس (Staphylococcus)آ چمٹتے ہیں۔ یہ جرثومہ بچے کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ پھر بچے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں پہنچے، تو وہاں بھی ہمہ رنگ انسان دشمن جراثیم اور خرد جاندار اسے نشانہ بناسکتے ہیں۔

دنیا میں آمد سے قبل ہی انسان دوست ننھے جانداروں سے محرومی سیزری آپریشن سے جنم لینے والے بچوں کو خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ وہ بالغ ہوکر عموماً موٹاپے، الرجیوں اور دمے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا نظام ہاضمہ بھی قابل رشک نہیں ہوتا۔

گویا جدید طبی سائنس کے مطابق جس گھر یا ماحول میں ہمہ رنگ اور متنوع جراثیم و خرد جاندار پائے جائیں، وہ انسانوں کے لیے مفید اور صحت بخش ہے۔ وجہ یہی کہ ایسے گھر میں پلتے بڑھتے بچوں کا دوست، دشمن ہر قسم کے ننھے جانداروں سے پالا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر سوزین لنچ امریکی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے منسلک ماہر خرد حیاتیات ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے ایک منفرد تحقیق کی۔ اس تحقیق میں دس ماہ تک گھریلو ماحول میں پرورش پاتے نوزائیدہ بچوں کی بڑھوتری و افزائش پر گہری نظر رکھی گئی۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جو نوزائیدہ بچے مٹی میں رہیں، وہ آگے چل کر مرض دمہ میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں۔ یاد رہے، مٹی میں فضلے و کچرے کے علاوہ انسان دوست خرد جاندار و جراثیم بھی پائے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر سوزین لنچ آج کل اس امر پر مصروف تحقیق ہیں کہ پالتو جانوروں کے جراثیم و خرد جاندار انسانوں خصوصاً بچوں پر کیسے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پالتو جانوروں کے بعض خرد جاندار انسانوں کو تندرست رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔



خرد جانداروں کو جانیے
کرہ ارض پہ آباد ننھے منے ،غیر مرئی جانداروں کو ماہرین نے ''خرد جاندار''کا نام دیا۔یہی دنیا کے اولیّں زندہ باسی بھی ہیں۔یہ فضا میں سات میل اونچائی سے لے کر تہہ زمین آٹھ ہزار فٹ نیچے واقع چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔انتہائی سخت جان ہوتے اور ہر قسم کے ماحول سے مطابقت پیدا کر لینے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔سائنس کی رو سے روئے ارض کے حیاتی کرے''( biosphere)کا وزن دس تا چالیس کھرب ٹن ہے۔اس میں سے خرد جانداروں کا وزن تقریباً آٹھ سو ارب ٹن ہے۔اس کے مقابلے میں زمین پر کُل انسانوں کا وزن تقریباً صرف چالیس کروڑ ٹن بنتا ہے۔

خرد جانداروں میں جراثیم ( bacteria) اورقدیم جراثیم( archaean)کی ساری اقسام شامل ہیں۔پروٹوزا( protozoa) کی اکثر اقسام بھی اسی کا حصہ ہیں۔یہ گروہ الجی،فنگی( fungi) اور بعض جانوروں مثلاً روٹیفائر( rotifer)کی بعض اقسام بھی رکھتا ہے۔بیشتر خرد جاندار یک خلوی(ایک خلیہ رکھنے والے)ہیں۔مگر کثیر خلوی بھی مل جاتے ہیں۔ولندیزی محقق،لیون ہاک پہلا سائنس داں ہے جس نے خردبین کی مدد سے 1674ء میں خرد جانور کا مشاہدہ کیا۔

ان خرد جانداروں کو عام شے نہ سمجھیے،یہ کرہ ارض پہ ایک اہم ذمے داری انجام دیتے ہیں۔وہ کوڑے کرکٹ کو گلا سڑا کر کاربن میں بدل دیتے ہیں۔گویا زمین پر خرد جاندار ''صفائی گر''کا کام کرتے اور علاقوں کو صاف ستھرا بناتے ہیں۔بعض خرد جاندار ''نائٹروجن فکسیشن'' (Nitrogen fixation)انجام دیتے ہیں۔اسی عمل کے ذریعے پودے زندہ رہتے اور آکسیجن بناتے ہیں۔گویا کرہ ارض پر زندگی کی بقا میں ان نہ دکھائی دینے والے سپاہیوں کا اہم کردار ہے۔شاعر مشرقؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا ،کوئی چھوٹا ،یہ اس کی حکمت ہے
نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
Load Next Story