پرویز مشرف کا بیرون ملک جانا
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے حکومت کے دوہرے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے
سابق آمر پرویز مشرف بیرون ملک جا چکے ہیں' عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وزارت داخلہ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا تھا' یوں ایک پرانا تنازعہ پلک جھپکنے میں طے پایا گیا۔ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں عدالتی حکم پر ڈالا گیا تھا۔ بلا آخر عدالت نے اس معاملے پر گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی' حکومت نے جو فیصلہ کیا' وہ سب کے سامنے ہے اور اب پرویز مشرف باہر جا چکے ہیں' اب مسلم لیگ ن کی حکومت اپوزیشن کی تنقید کی زد میں ہے' پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن پر زبردست تنقید کر رہی ہے' بہر حال اصل معاملہ یہ ہے کہ جب سیاسی مفادات ہوں تو حکومت اعلیٰ عدلیہ کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے حکومت کے دوہرے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ مشرف کے حوالے سے ہر طرح کا سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہوئے ان کے باہر نہ جانے کی تمام ذمے داری سپریم کورٹ پر ڈال رہی تھی۔حالانکہ پرویز مشرف کے حوالے سے سارے فیصلے حکومت کو کرنے چاہئیں تھے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف 2013ء کے انتخابات کے الیکشن مہم کے دوران بھی عوام کو یہ کہتے رہے کہ وہ برسراقتدار آئے تو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلائیں گے۔ لیکن برسراقتدار آنے کے بعد انھیں بہت سے حقائق سے آگاہی حاصل ہوئی۔
حکومت کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ پرویز مشرف پر سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔حکومت یہ سب کچھ دوسروں کے کندھوں کو استعمال کر کے کرنا چاہتی تھی اور خود پس پردہ رہ کر اسٹیبلشمنٹ سے یہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ تو چاہتی ہے کہ کچھ نہ کیا جائے لیکن وہ فلاں فلاں فلاں کی وجہ سے مجبور ہے۔اب جونہی مجبوریاں ختم ہوئیں اور سارا بوجھ حکومت پر پڑا تو وہ اسے برداشت نہ کر سکی اور ای سی ایل سے پرویز مشرف کا نام نکالنے پر مجبور ہو گئی۔
اس فیصلے پر اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔ لگتا ہے کہ مشرف کے باہر جانے پر وزیراعظم نواز شریف بھی راضی ہیں۔ اگر وزیراعظم نواز شریف خود رضا مند ہیں تو باقی سیاسی پارٹیاں کیا کر سکتی ہیں۔ حکومت نے اپنی جان چھڑانے کے لیے معاملہ سپریم کورٹ کے حوالے کیا۔ بھٹو نے آئین میں آرٹیکل 6 شامل کرایا لیکن آئین انھیں پھانسی سے نہیں بچا سکا۔ آئین کے اس آرٹیکل سے زیادہ طاقتور کوئی اور قوتیں ہیں۔جن کا سب کو پتہ ہے 'جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں باتیں کرنا آسان ہے لیکن اقتدار میں آ کر فیصلے کرنا بہت مشکل کام ہے۔
حکومتی حلقے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر پرویز مشرف باہر چلے گئے تب بھی ہمارا ''گھروندہ'' نہیں بچے گا جب تک تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے عوام کے علاوہ کسی اور کو آواز دینے کا فیصلہ نہیں کرتیں، اس وقت تک جمہوریت خطرے میں رہے گی۔ 2013ء میں ایک منتخب حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہونا پاکستان کی تاریخ کا اچھوتا واقعہ تھا جس کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت مستحکم ہو گئی ہے۔
سادہ لوحی کی یہ انتہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی ضیاء آمریت کا ناگزیر حصہ تھے پھر بدلے ہوئے حالات میں سامراجی ضرورتوں کے تحت جمہوریت کے چیمپیئن بن گئے۔ شاید انھیں یاد نہیں کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی فوج کو پاکستان میں جوڑنے والی واحد قوت قرار دیا، سیاسی رہنماؤں کو نہیں۔ یعنی فوج نہ ہو تو یہ بکھر کر رہ جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے تو نواز شریف پنجاب کی نمایندگی کرتے ہیں۔ دیگر صوبوں میں ان کی حمایت کم ہے۔ جب کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف عوام میں سب سے مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
آج اسٹیبلشمنٹ کتنی طاقتور ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس نے عمران خان کو استعمال کیا اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کو رکوع و سجود کی حالت میں لے آئی۔ اس کے ذریعے نواز حکومت اتنی کمزور ہو گئی کہ اسے ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں اپنے انتہائی اہم اختیارات سے محروم ہونا پڑا۔ دھرنے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا اظہار تھے۔ مسلم لیگ ن نواز شریف یا الطاف حسین' اسٹیبلشمنٹ کی ضرورتوں نے انھیں تخلیق کیا کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے بھٹو فیکٹر کا خاتمہ کیا جائے۔
اب پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی۔ جو کام لینا تھا لیا جا چکا ان کی خدمات کے عوض انھیں کئی عشروں کا اقتدار بھی انعام میں ملا' اب آقا کو ان دونوں کی ضرورت نہیں رہی لیکن یہ دونوں بڑی عوامی قوت بھی بن چکی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں کو عوامی قوت بننے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی دامے درمے سخنے ہر طرح کی مدد حاصل رہی لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسی عوامی حمایت کے نام پر ضیا باقیات سویلین بالادستی کے نعرے کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر تو افغانستان میں امریکا کی نیا ڈوب جائے گی جس پر امریکا نے ہزاروں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستانی فوج کو بائنڈنگ فورس قرار دیا نہ کہ سیاستدانوں کو۔
پرویز مشرف کب واپس آئیں گے اس کا پتہ مئی کے آخر میں چلے گا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے حکومت کے دوہرے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ مشرف کے حوالے سے ہر طرح کا سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہوئے ان کے باہر نہ جانے کی تمام ذمے داری سپریم کورٹ پر ڈال رہی تھی۔حالانکہ پرویز مشرف کے حوالے سے سارے فیصلے حکومت کو کرنے چاہئیں تھے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف 2013ء کے انتخابات کے الیکشن مہم کے دوران بھی عوام کو یہ کہتے رہے کہ وہ برسراقتدار آئے تو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلائیں گے۔ لیکن برسراقتدار آنے کے بعد انھیں بہت سے حقائق سے آگاہی حاصل ہوئی۔
حکومت کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ پرویز مشرف پر سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔حکومت یہ سب کچھ دوسروں کے کندھوں کو استعمال کر کے کرنا چاہتی تھی اور خود پس پردہ رہ کر اسٹیبلشمنٹ سے یہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ تو چاہتی ہے کہ کچھ نہ کیا جائے لیکن وہ فلاں فلاں فلاں کی وجہ سے مجبور ہے۔اب جونہی مجبوریاں ختم ہوئیں اور سارا بوجھ حکومت پر پڑا تو وہ اسے برداشت نہ کر سکی اور ای سی ایل سے پرویز مشرف کا نام نکالنے پر مجبور ہو گئی۔
اس فیصلے پر اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔ لگتا ہے کہ مشرف کے باہر جانے پر وزیراعظم نواز شریف بھی راضی ہیں۔ اگر وزیراعظم نواز شریف خود رضا مند ہیں تو باقی سیاسی پارٹیاں کیا کر سکتی ہیں۔ حکومت نے اپنی جان چھڑانے کے لیے معاملہ سپریم کورٹ کے حوالے کیا۔ بھٹو نے آئین میں آرٹیکل 6 شامل کرایا لیکن آئین انھیں پھانسی سے نہیں بچا سکا۔ آئین کے اس آرٹیکل سے زیادہ طاقتور کوئی اور قوتیں ہیں۔جن کا سب کو پتہ ہے 'جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں باتیں کرنا آسان ہے لیکن اقتدار میں آ کر فیصلے کرنا بہت مشکل کام ہے۔
حکومتی حلقے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر پرویز مشرف باہر چلے گئے تب بھی ہمارا ''گھروندہ'' نہیں بچے گا جب تک تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے عوام کے علاوہ کسی اور کو آواز دینے کا فیصلہ نہیں کرتیں، اس وقت تک جمہوریت خطرے میں رہے گی۔ 2013ء میں ایک منتخب حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہونا پاکستان کی تاریخ کا اچھوتا واقعہ تھا جس کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت مستحکم ہو گئی ہے۔
سادہ لوحی کی یہ انتہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی ضیاء آمریت کا ناگزیر حصہ تھے پھر بدلے ہوئے حالات میں سامراجی ضرورتوں کے تحت جمہوریت کے چیمپیئن بن گئے۔ شاید انھیں یاد نہیں کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی فوج کو پاکستان میں جوڑنے والی واحد قوت قرار دیا، سیاسی رہنماؤں کو نہیں۔ یعنی فوج نہ ہو تو یہ بکھر کر رہ جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے تو نواز شریف پنجاب کی نمایندگی کرتے ہیں۔ دیگر صوبوں میں ان کی حمایت کم ہے۔ جب کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف عوام میں سب سے مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
آج اسٹیبلشمنٹ کتنی طاقتور ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس نے عمران خان کو استعمال کیا اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کو رکوع و سجود کی حالت میں لے آئی۔ اس کے ذریعے نواز حکومت اتنی کمزور ہو گئی کہ اسے ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں اپنے انتہائی اہم اختیارات سے محروم ہونا پڑا۔ دھرنے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا اظہار تھے۔ مسلم لیگ ن نواز شریف یا الطاف حسین' اسٹیبلشمنٹ کی ضرورتوں نے انھیں تخلیق کیا کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے بھٹو فیکٹر کا خاتمہ کیا جائے۔
اب پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی۔ جو کام لینا تھا لیا جا چکا ان کی خدمات کے عوض انھیں کئی عشروں کا اقتدار بھی انعام میں ملا' اب آقا کو ان دونوں کی ضرورت نہیں رہی لیکن یہ دونوں بڑی عوامی قوت بھی بن چکی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں کو عوامی قوت بننے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی دامے درمے سخنے ہر طرح کی مدد حاصل رہی لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسی عوامی حمایت کے نام پر ضیا باقیات سویلین بالادستی کے نعرے کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر تو افغانستان میں امریکا کی نیا ڈوب جائے گی جس پر امریکا نے ہزاروں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستانی فوج کو بائنڈنگ فورس قرار دیا نہ کہ سیاستدانوں کو۔
پرویز مشرف کب واپس آئیں گے اس کا پتہ مئی کے آخر میں چلے گا۔