گورنر کا عزم اور وزیر اعلیٰ کی پریشانی

انجینئراقبال ظفر جھگڑا ٹریفک حادثے میں ہیڈ انجری کا شکار ہو گئے

خیبرپختون خوا کے گورنرانجینئر اقبال ظفرجھگڑا اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد آج کل مختلف محکموں سے بریفنگز لے رہے ہیں۔دو سال پہلے جب وزیر اعظم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے گورنر انجینئر شوکت اللہ کو فارغ کیا تو غالب امکان تھا کہ قرعہ پاکستان مسلم لیگ ن کے دیرینہ کارکن اور انتہائی منکسرالمزاج شخصیت اقبال ظفر جھگڑا کے نام نکلے گا لیکن غیر متوقع طور پر صوبائی اسمبلی میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب احمد خان کو صوبے کا نیا گورنر بنا دیا گیا۔

انجینئراقبال ظفر جھگڑا ٹریفک حادثے میں ہیڈ انجری کا شکار ہو گئے اور پھر انھیں طبی امداد کے لیے بیرون ملک منتقل کرنا پڑا۔وہ گورنر تو نہ بن سکے البتہ میاں نواز شریف نے مہربانی کی اور انھیں اسلام آباد سے سینیٹر بنا دیا۔ رب کائنات سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور وہ جو بھی کرتا ہے اس میں بہتری ہی ہوا کرتی ہے اور اللہ کا کرنا دیکھئے سردار مہتاب احمد خان نے گورنر ہاؤس میں تزئین و آرائش کا اور تاریخی قدیم عمارت کو پھر سے نیا بنانے کا کام شروع کروا دیا مگر وہ تو یہاں مقیم نہ رہ سکے البتہ اقبال ظفر جھگڑا ضرور نئے گورنر ہاؤس کے مزے لیں گے۔

گورنر بننے کے بعد انھوں نے صحافیوں سے ملاقات کی اور تفصیل سے اپنی ترجیحات کا ذکر کیا ۔ایک معتبر سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے انھوں نے یہ واضح کیا کہ فاٹا میں اصلاحات کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے گی۔سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم یہ کمیٹی متعدد قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کر چکی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ جلد ہی باقی ماندہ ایجنسیوں کے دورے کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کر لے گی۔ قبائلی اب اپنا حق مانگ رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے ۔بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ قبائلی علاقوں کی قسمت کا فیصلہ قریب ہے اور الگ صوبے کی بجائے فاٹا کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنانے پر اکثریت راضی دکھائی دیتی ہے۔

فیصلہ جو بھی ہو قبائلیوں کی امنگوں کے مطابق ہوا تو اقبال ظفر جھگڑا ضرور سرخرو ہوں گے۔اللہ کرے کہ ان کی گورنری قبائلیوں کے حق میں بہتر ثابت ہو۔ایک طرف نئے گورنر پرعزم ہیں تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا خاصے پریشان ہیں اور پریشانی کی وجہ وقت ہے جو بقول ان کے بہت کم رہ گیا ہے ۔پرویز خٹک نے پشاور میں کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا ہے جن پر کام بھی شروع ہو گیا ہے اپنی تقریروں میں ایک طرف وہ اڑھائی سال میں کچھ نہ کرنے پر نادم نہیں تو اگلے اڑھائی برسوں میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، انھیں یقین ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اگلے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت کر ایک بار پھر صوبے میں حکومت بنائے گی۔


پرویز خٹک نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے سیاست میں ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ سیاست کسے کہتے ہیں اور کس طرح جیتا جا سکتا ہے۔اگر کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں ہو تو اسے سب اچھا لگتا ہے اور جو اپوزیشن میں ہوتے ہیں انھیں سب کچھ برا ہی دکھائی دیتا ہے مگر اس صوبے کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بھلے جتنے مرضی ترقیاتی کام کر لیے جائیں ووٹر دوبارہ چانس نہیں دیتے ۔اگر قانون سازی اور ترقیاتی کاموں پر ووٹ پڑتے تو متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے بہت کچھ کیا تھا اور کرپشن بھی نہیں کی تھی مگر ہوا ان کے مخالف چل نکلی، عوامی نیشنل پارٹی نے کئی یونی ورسٹیاں بنائیں اور بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے، صوبے کا نام بدلا مگر عام انتخابات میں اپنی ہار کو جیت میں نہ بدل سکے۔

کئی تقریبات میں پرویز خٹک کے بدلتے رویہ نے سبھی کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں کیونکہ اس مرحلے پر تو کہیں سے یقین دہانی بھی قبل از وقت کہی جا سکتی ہے۔کسی نے ان سے کہا کہ صوبے میں قیام امن کی کوششوں کو اجاگر کرنے اور صوبے کا سافٹ امیج دنیا بھر کو دکھانے کے لیے پشاور میں ایک ورکشاپ منعقد ہو رہی ہے آپ نے اس میں شرکت کرنی ہے تو بولے کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے اس وقت انٹرنیشنل ورکشاپ کی بجائے مقامی ورکشاپ ہی ٹھیک رہے گی، ان کی جگہ کوئی وزیر ورکشاپ اٹینڈ کر لے گا۔

سافٹ امیج کی ضرورت تو اب اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ شہر میں خوف کے سائے بڑھنے لگے ہیں ایک انجانا خوف ہے ۔پولیس نے کارروائیاں تیز کر دی ہیں سرچ آپریشنز میں بھی تیزی دکھائی دے رہی ہے اور آپریشن ضرب عضب سے بھاگنے والے گنے چنے چند جرائم پیشہ افراد بھتہ کی پرچیاں بھیج کر شہریوں سمیت تاجروں اور صنعت کاروں کو صوبہ بدر کرنے میں مصروف ہیں۔ایسے میں سنہری مسجد روڈ پر سرکاری ملازمین کو مختلف شہروں سے پشاور لانے والی ایک بس میں دھماکے نے سترہ قیمتی جانیں لے لیں۔یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ سیاست سے بالاتر ہو کر صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جائے اور پھر جیت کر حکومت بنانے کا معاملہ انتخابات سے چند ماہ قبل تک چھوڑ دیا جائے کیونکہ جس طرف کی ہوا چلے گی ووٹرز بھی اسی طرف لپکیں گے۔

وزیر اعلیٰ کو اڑھائی سال قبل پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں، اڑھائی سال کا عرصہ کم نہیں اور انھیں اگر پاکستان تحریک انصاف کو دوبارہ حکومت میں لانا ہے تو لوگوں خاص طور پر اپنے پارٹی ورکرز کے دل جیتنا ہوں گے،بلدیاتی نمایندوں کو ان کے اختیارات بروقت دینا ہوں گے، ناظمین اور نائب ناظمین کو تنخواہوں پر لگا کر انھوں نے بہت سے بلدیاتی نمایندوں کو ناراض کر دیا ہے خاص طور پر خواتین کونسلرز بھی تنخواہیں مانگ رہی ہیں۔ جب تنخواہیں ہی لینا تھیں تو پکی نوکریاں دے دیتے۔

بلدیاتی اداروں کو جو بیالیس ارب روپے جاری کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے اس میں سے اچھی خاصی رقم تنخواہوں پر خرچ ہو جائے گی اور پشاور کی ننانوے یونین کونسلوں میں بمشکل ہر یونین کونسل کو ساٹھ ستر لاکھ روپے ہی مل پائیں گے جن سے دو چار گلیاں اور نالیاں بنیں گی اور جب پیسہ خرچ ہو گا تب پتا چلے گا کہ پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کرپشن کے الزامات سے کیسے محفوظ رہتی ہے۔بات اقبال ظفر جھگڑا کے گورنر بننے سے شروع ہوئی اور وزیر اعلیٰ کی پریشانی میں کہیں اور چلی گئی کہ گورنر کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں جب کہ وزیر اعلیٰ کے پاس وقت کم رہ گیا ہے، باقی بات رہ گئی عوام کی، تو وہ ٹی ٹوئنٹی میچوں سے لطف اندوز ہوں کہ انھیں وقت کا کوئی احساس ہی نہیں اور نہ ہی کوئی پریشانی ہے۔
Load Next Story