ابتہاج محمد فینسنگ کے لیے منتخب ہونے والی پہلی امریکی مسلمان

انہیں اولمپکس میں باحجاب ہو کر حصہ لینے کی اجازت مل گئی

انہیں اولمپکس میں باحجاب ہو کر حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ فوٹو: فائل

کہا جاتا ہے کہ عزم پختہ اور ارادے غیر متزلزل ہوں، تو منزل کتنی ہی کٹھن اور ناممکن ہو، آخر مل ہی جاتی ہے۔

ایسا ہی کچھ کارنامہ کر کے دکھایا امریکی مسلمان خاتون ایتھلیٹ ابتہاج محمد نے، جنہوں نے حجاب پہن کر اپنی شان دار کارکردگی سے منتظمین کو اولمپک کے لیے اِن کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا۔ جس کے بعد وہ پہلی امریکی خاتون بن جائیں گی، جو رواں برس اگست میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو (Rio de janeiro) میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں حجاب پہن کر حصہ لیں گی۔

یونان کے شہر ایتھنز میں ہونے والے فائنل ٹیسٹ میں انہیں اولمپک کے لیے شامل کر لیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ان کا حوصلہ اس وقت بڑھ گیا، جب امریکی صدر باراک اوباما نے بالٹی مور میںاپنی تقریر کے دوران ابتہاج کو مجمعے میں کھڑا کیا اور زبردست داد دی، اور امریکی صدر نے ابتہاج کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ سونے کا تمغہ جیت کر آئیں اور کوئی دباؤ مت لیں اور بھر پور جذبے اور سکون کے ساتھ کھیلیں۔

ابتہاج محمد 30 دسمبر 1985ء کو امریکی شہر نیو جرسی کے ایک گاؤں میپل وود (Maplewood) میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کولمبیا ہائی اسکول سے حاصل کی، جہاں صرف 13سال کی عمر میں انہوں نے فینسنگ کے ٹیم جوائن کر لی اور یہیں سے ابتہاج کے کیریئر کا آغاز ہو گیا۔ ابتہاج نے اپنے شوق کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا اورڈیوک یونیورسٹی سے دو مضامین افریقا اور بین الاقوامی تعلقات، اور افریقن امریکن اسٹڈیز میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ ابتہاج محمد نے 2006ء میں انٹرنیشنل ٹریننگ اسکول آف رباط سے عربی اور مراکشی ثقافت کے حوالے سے کورس بھی کیے ہوئے ہیں۔


ابتہاج محمد کو سیاست، فوٹو گرافی، مختلف زبانوں پہ مہارت حاصل کرنے میں خصوصی دل چسپی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت اور مذہب کو جاننے کا بے حد شوق ہے۔ ابتہاج محمد کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے انہیں زندگی کے ہر موڑ پر بہت زیادہ مدد کی ہے۔

ابتہاج محمد نے نیو یارک سٹی کے فینسر کلب سے فینسنگ کی ٹریننگ حاصل کی۔ ابتہاج محمد نے 2002ء میں پیٹر ویسٹ بروک نامی فاؤنڈیشن جوائن کی، جہاں انہوں نے فینسنگ کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کو باقاعدگی سے تربیت دی۔

ابتہاج محمد کا کہنا تھا کہ جب میں نے گریجویشن مکمل کیا، تو میں نے یہ دیکھا کہ بہت سارے اقلیتی لوگ ہیں، جن کا رجحان کھیلوں کی طرف ہے۔ صرف یہی دیکھتے ہوئے میں نے بھی باقاعدہ کھیل کے میدان میں قدم رکھا، حالاں کہ اس سے پہلے میں صرف فاؤنڈیشن، اسکول اور مختلف جگہوں پہ ٹریننگ دیتی تھی۔

ابتہاج محمد لوئیلا کمپنی کی مالک بھی ہیں، جو کہ خواتین کے کپڑے تیا ر کرتی ہے۔ ابتہاج چاہتی ہیں کہ نہ صرف خواتین کے من پسند کپڑے رواج میں آئیں، بلکہ ایسے ملبوسات بھی خواتین کی خوب صورتی بنیں، جو مکمل طور پر ڈھکے ہوئے ہوں۔ جیسا کہ ایک مسلمان گھرانے کی لڑکیاں زیب تن کرتی ہیں۔ ابتہاج مزید بتاتی ہیں کہ میں نے بچپن سے ہی ایسے کپڑوں کا انتخاب کیا ہے، شاید اسی لیے میں نے فینسی جیسے کھیل کو چنا ہے، جہاں عورت مکمل لباس میں دکھائی دیتی ہے۔

ابتہاج محمد کا کہنا ہے کہ مسلمان خاتون کی حیثیت سے ان کی جدوجہد امریکی مسلمانوں کے لیے ہے، جب کہ مسلمان اس وقت ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور ان کے لیے یہ خاصا مشکل وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو نہ روکا گیا، تو صورت حال اور بھی خراب ہو جائے گی۔ ابتہاج محمد کا اپنے انتخاب پر کہنا تھا کہ وہ نہ صرف اپنے خوابوں کی تعبیر کر رہی ہیں، بلکہ وہ اپنے امریکی ہم وطنوں کے خواب کو بھی پورا کرنا چا ہتی ہیں۔
Load Next Story