پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس وزیراعظم نوازشریف کی بھی شرکت
اجلاس میں پی آئی کی نجکاری سمیت 14 بل منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔
قومی اسمبلی میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نوازشریف نے بھی شرکت کی جب کہ اجلاس سے ایم کیوایم نے علامتی واک آؤٹ کیا۔
قومی اسمبلی میں اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نوازشریف بھی شریک تھے جو اجلاس شروع ہونے کے بعد تھوڑی دیر بعد واپس روانہ ہوگئے۔ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں پی آئی کی نجکاری سمیت 14 بل منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے، ان بلوں میں گیس چوری کی روک تھام اور وصولی کا بل 2014، پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن (انضمام) بل، 2016 ترک وطن ترمیمی بل 2014 ، سرکاری ملازمین کا ترمیمی بل 2014، زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے قوانین، ضابطہ فوجداری ترمیمی بل 2015، غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے قوانین، اور نجکاری کمیشن دوسری ترمیم کا بل 2015 شامل ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ گزشتہ رات ایم کیوایم کے رہنما شاہد پاشا کوگرفتارکیا گیا جب ان کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں اور نہ کسی جے آئی ٹی میں ان کا نام ہے اس کے باوجود انہیں حراست میں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ایم کیوایم کے اتحاد اور ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جب کہ ہمارے کئی اہم رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے اور مارچ کے مہینے میں ایم کیوایم کے 40 افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن کسی اورجماعت کےمرکزی رہنماؤں کواس طرح گرفتار نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کو کراچی میں کام کرنےسے روکا جارہا ہے اور کہا جارہا ہےکہ آپ اس طرف جاکے پاکیزہ ہوجاؤ جب کہ آج حکومت کےجمہوریت کےدعوے داؤ پر لگائے جارہے ہیں۔ اسپیکر نے فاروق ستار کو اس معاملے پر بولنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پرمعمول کے سیشن میں بات کریں گے جس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے پارلیمنٹ سے علامتی واک آؤٹ کیا۔
ادھر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پرویز مشرف کے معاملے پر حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حكومت نے پرویز مشرف كو بیرون ملك جانے كی اجازت دے كر پارلیمنٹ كا وقار مجروح كیا ہے، اگر حكومت نے پرویز مشرف كو بیرون ملك جانے كی اجازت دینی ہی تھی تو معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جانا چاہئے تھا تاكہ پارلیمنٹ كا وقار بلند ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا گیا كہ ہم نے پرویز مشرف كو چار بار باہر بھجوایا، ہم تسلیم كرتے ہیں كہ ہم كمزور ، شریف اور ٹھنڈے مزاج كے آدمی تھے اور شیر نہیں تھے لیكن آپ تو شیر تھے مگر اس كے باوجود ہمت نہیں دكھائی۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ آئین كے آرٹیكل 6 كے تحت پرویز مشرف كے خلاف كارروائی ہونی چاہیے تھی، میں مطالبہ كرتا رہوں گا كہ پرویز مشرف كے خلاف كارروائی 12 اكتوبر 1999 سے شروع كی جائے اور اس وقت مشرف كے ساتھ باقی جرنیل حكومت كے خاتمے میں ملوث تھے ان كے خلاف بھی كارروائی كی جائے۔ خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار كے ماضی میں مشرف كے حوالے سے دیئے گئے بیانات اور تقاریر كا بھی تفصیلی ذكر كیا۔
دوسری جانب پارلیمنٹ میں نکتہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 2 سال قبل آنے والے خصوصی عدالت کے فیصلے کے باوجود ہم نے مشرف کو بیرون ملک جانے سے روکے رکھا اور ان کو جانے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کی اور کہا بھی تھا کہ اگر سابق صدر کو بیرون ملک جانے دیا گیا تو وہ واپس نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غداری کیس میں مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا لیکن اب عدالتی حکم کے بعد حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
چوہدری نثار نے كہا كہ اگر پرویز مشرف ملك واپس نہ آئے تو سپریم كورٹ كی ہدایت كے مطابق انٹرپول سے رابطہ كركے انہیں واپس لانے كے اقدامات كیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی بیماری سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں،ہم نے انہیں عدالتی فیصلے کو سامنے رکھ کر باہر جانے کی اجازت دی اور حکومت کوان کی واپسی کی ضمانت بھی نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار پرویز مشرف نے وہ دن دیكھے جو كسی مارشل لاء ڈكٹیٹر نے نہیں دیكھے ہوں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف اور ایان علی کا موازنہ کرنے والے یہ بات یاد رکھیں کہ ایان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کسٹم نے درخواست کی تھی اور اگر ہم مشرف کو بیرون ملک نہ جانے دیتے تو پھر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میرے علم میں نہیں تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کررکھے ہیں اور وزارت داخلہ کو نہ ہی اسلام آباد پولیس نے اس حوالے سے آگاہ کیا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ كی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں پارلیمنٹ كے مشتركہ اجلاس كے موقع پر پی آئی اے بل سمیت 7 اہم بلوں كی منظوری اور اس حوالے سے اپوزیشن كی حكمت عملی سے متعلق مشاورت كی گئی جب كہ اجلاس میں سابق صدر پرویز مشرف كی بیرون ملك روانگی كا معاملہ بھی زیر غور لایا گیا۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے حكومت كو پرویز مشرف كی بیرون ملك روانگی كی اجازت دینے كے معاملے پر ٹف ٹائم دینے كا فیصلہ كیا ہے۔ اجلاس كے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو كرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے كہا كہ سینیٹ پی آئی اے بل كو مسترد كر چكا، حكومت كو ایك ادارے سے مسترد ہونے والے بل كی دوسرے ادارے سے منظوری لینی چاہیئے اور اس كے لیے مشتركہ مفادات كونسل بہترین فورم ہے۔ انہوں نے كہا كہ مشتركہ مفادات كونسل كی منظوری كے بغیر اپوزیشن كو یہ بل ناقابل قبول ہے، حكومت فی الحال پی آئی اے بل كو پارلیمنٹ كے مشتركہ اجلاس كے موقع پر موخر كر دے۔
قومی اسمبلی میں اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نوازشریف بھی شریک تھے جو اجلاس شروع ہونے کے بعد تھوڑی دیر بعد واپس روانہ ہوگئے۔ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں پی آئی کی نجکاری سمیت 14 بل منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے، ان بلوں میں گیس چوری کی روک تھام اور وصولی کا بل 2014، پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن (انضمام) بل، 2016 ترک وطن ترمیمی بل 2014 ، سرکاری ملازمین کا ترمیمی بل 2014، زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے قوانین، ضابطہ فوجداری ترمیمی بل 2015، غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے قوانین، اور نجکاری کمیشن دوسری ترمیم کا بل 2015 شامل ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ گزشتہ رات ایم کیوایم کے رہنما شاہد پاشا کوگرفتارکیا گیا جب ان کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں اور نہ کسی جے آئی ٹی میں ان کا نام ہے اس کے باوجود انہیں حراست میں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ایم کیوایم کے اتحاد اور ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جب کہ ہمارے کئی اہم رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے اور مارچ کے مہینے میں ایم کیوایم کے 40 افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن کسی اورجماعت کےمرکزی رہنماؤں کواس طرح گرفتار نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کو کراچی میں کام کرنےسے روکا جارہا ہے اور کہا جارہا ہےکہ آپ اس طرف جاکے پاکیزہ ہوجاؤ جب کہ آج حکومت کےجمہوریت کےدعوے داؤ پر لگائے جارہے ہیں۔ اسپیکر نے فاروق ستار کو اس معاملے پر بولنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پرمعمول کے سیشن میں بات کریں گے جس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے پارلیمنٹ سے علامتی واک آؤٹ کیا۔
ادھر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پرویز مشرف کے معاملے پر حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حكومت نے پرویز مشرف كو بیرون ملك جانے كی اجازت دے كر پارلیمنٹ كا وقار مجروح كیا ہے، اگر حكومت نے پرویز مشرف كو بیرون ملك جانے كی اجازت دینی ہی تھی تو معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جانا چاہئے تھا تاكہ پارلیمنٹ كا وقار بلند ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا گیا كہ ہم نے پرویز مشرف كو چار بار باہر بھجوایا، ہم تسلیم كرتے ہیں كہ ہم كمزور ، شریف اور ٹھنڈے مزاج كے آدمی تھے اور شیر نہیں تھے لیكن آپ تو شیر تھے مگر اس كے باوجود ہمت نہیں دكھائی۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ آئین كے آرٹیكل 6 كے تحت پرویز مشرف كے خلاف كارروائی ہونی چاہیے تھی، میں مطالبہ كرتا رہوں گا كہ پرویز مشرف كے خلاف كارروائی 12 اكتوبر 1999 سے شروع كی جائے اور اس وقت مشرف كے ساتھ باقی جرنیل حكومت كے خاتمے میں ملوث تھے ان كے خلاف بھی كارروائی كی جائے۔ خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار كے ماضی میں مشرف كے حوالے سے دیئے گئے بیانات اور تقاریر كا بھی تفصیلی ذكر كیا۔
دوسری جانب پارلیمنٹ میں نکتہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 2 سال قبل آنے والے خصوصی عدالت کے فیصلے کے باوجود ہم نے مشرف کو بیرون ملک جانے سے روکے رکھا اور ان کو جانے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کی اور کہا بھی تھا کہ اگر سابق صدر کو بیرون ملک جانے دیا گیا تو وہ واپس نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غداری کیس میں مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا لیکن اب عدالتی حکم کے بعد حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
چوہدری نثار نے كہا كہ اگر پرویز مشرف ملك واپس نہ آئے تو سپریم كورٹ كی ہدایت كے مطابق انٹرپول سے رابطہ كركے انہیں واپس لانے كے اقدامات كیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی بیماری سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں،ہم نے انہیں عدالتی فیصلے کو سامنے رکھ کر باہر جانے کی اجازت دی اور حکومت کوان کی واپسی کی ضمانت بھی نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار پرویز مشرف نے وہ دن دیكھے جو كسی مارشل لاء ڈكٹیٹر نے نہیں دیكھے ہوں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف اور ایان علی کا موازنہ کرنے والے یہ بات یاد رکھیں کہ ایان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کسٹم نے درخواست کی تھی اور اگر ہم مشرف کو بیرون ملک نہ جانے دیتے تو پھر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میرے علم میں نہیں تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کررکھے ہیں اور وزارت داخلہ کو نہ ہی اسلام آباد پولیس نے اس حوالے سے آگاہ کیا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ كی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں پارلیمنٹ كے مشتركہ اجلاس كے موقع پر پی آئی اے بل سمیت 7 اہم بلوں كی منظوری اور اس حوالے سے اپوزیشن كی حكمت عملی سے متعلق مشاورت كی گئی جب كہ اجلاس میں سابق صدر پرویز مشرف كی بیرون ملك روانگی كا معاملہ بھی زیر غور لایا گیا۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے حكومت كو پرویز مشرف كی بیرون ملك روانگی كی اجازت دینے كے معاملے پر ٹف ٹائم دینے كا فیصلہ كیا ہے۔ اجلاس كے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو كرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے كہا كہ سینیٹ پی آئی اے بل كو مسترد كر چكا، حكومت كو ایك ادارے سے مسترد ہونے والے بل كی دوسرے ادارے سے منظوری لینی چاہیئے اور اس كے لیے مشتركہ مفادات كونسل بہترین فورم ہے۔ انہوں نے كہا كہ مشتركہ مفادات كونسل كی منظوری كے بغیر اپوزیشن كو یہ بل ناقابل قبول ہے، حكومت فی الحال پی آئی اے بل كو پارلیمنٹ كے مشتركہ اجلاس كے موقع پر موخر كر دے۔