فلسفہ اورحقیقی زندگی
بعض احباب اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ ایسے فلسفے جوکہ انتہائی پیچیدہ، مبہم اورمشکل ہوتے ہیں
بعض احباب اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ ایسے فلسفے جوکہ انتہائی پیچیدہ، مبہم اورمشکل ہوتے ہیں اورجن کی تفہیم بذاتِ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،ان کا انسان کی روز مرہ کی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ فلسفہ خواہ کتنا ہی عمیق اور بظاہر پیچیدہ دکھائی دے رہا ہو،اس کا تعلق اسی دنیا سے ہوتا ہے۔ مابعد الطبیعات اور الٰہیات کے فکری مسائل کو حقیقی دنیا میں ہی حل کیا جاتا ہے،ان کی عملی صورتوں کا تعین بھی اسی دنیا میں ہوتا ہے۔
حتیٰ کہ جب کوئی فلسفی ماورائے حواس دنیا کی تفہیم کی کوشش کررہا ہوتا ہے اور ان کو سمجھنے کے لیے تعقلی، منطقی معقولات کی تشکیل کرتا ہے تو ان کا حقیقی مافیہا اسے اسی دنیا میں میسر آتا ہے۔وہ انھی معقولات اور تعقلات کا اطلاق حقیقی دنیا کی تفہیم کے لیے بھی کرتا ہے، جنھیں اپنی علمیات، منطق کو وضع کرتے وقت اپنے ذہن میں محض ماورائی سطح پر رکھتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ دنیائیں دو نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی ہے، اسے محض دو سطحوں یعنی اس کی 'مثالی' اور عملی سطح پر سمجھا جاتا ہے۔ان کے درمیان منطقی ربط ان کے درمیان قائم ہوئی 'دوئی' کو ختم کردیتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ منطقی اصولوں کی تشکیل واستخراج کے دوران میں جو''طریقہ کار' اختیار کیا جاتا ہے اور اس 'طریقہ کار' کی تشکیل کے دوران جو اصول وقواعد اخذکیے جاتے ہیں،ان کا اطلاق بآسانی انسان کی اخلاقی، سماجی اورسیاسی زندگی پرکردیا جاتا ہے۔یہی پیچیدہ، مشکل اور عمیق فلسفے 'سول سوسائٹی' اور ریاست کے درمیان تعلق کی وضاحت انھی منطقی اصولوں کے پیشِ نظر کرتے ہیں، جن کی تشکیل کے دوران ان کی زیادہ تر توجہ وجود، شے حقیقت کی اپنی سمت اور حرکت پر ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مغربی فلسفے کی علمیات اورعلم الوجود کے درمیان قائم کی گئی تفریق باطلِ محض ہے۔
مابعد الطبیعات میںتجریدی سطح پر علمی حدود کا تعین کرنا اور علم الوجود میں شے، حقیقت، وجود کو جاننا دو الگ الگ علوم کا تعین کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ہی علم ہے، جسے دو مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تفکر میں خالص ''علمیات'' کی تفہیم کا عمل مشکل پیدا کرتا ہے، مگر جونہی علمیات کو علم الوجود کے طور پر سمجھا جائے تو اس کا براہِ راست تعلق ہماری زندگیوں سے قائم ہوتا ہے۔ علمیات کے اندر شے، حقیقت، وجود کا تصور تجریدی طور پر موجود ہوتا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جو فلسفے کوتجریدی اور انسانی زندگی سے کٹا ہوا اور پیچیدہ بناکر پیش کرتا ہے۔
علمیات میں تجریدی معقولات اور تعقلات خود میں کوئی شے نہیں ہوتے، ان کا مافیہا حقیقی زندگی ہی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت، زندگی، وجود، شے کی تفہیم کے دوران ہی میں تشکیل پاتے ہیں۔ جدلیاتی مادیت کے فلسفے کا یہ ایک نمایاں پہلو رہا ہے کہ اس نے علمیات اور علم الوجود کی دوئی کو ختم کرتے ہوئے شے، وجود اور حقیقت کے جاننے کو ہی علمیات، منطق اور جدلیات تصور کیا ہے۔
تمام فلسفے کا سب سے بنیادی سوال یہ رہا ہے کہ انسان اور کائنات کے مابین تعلق کی نوعیت کیا ہے اورکیا اس تعلق کو جانا جاسکتا ہے یا کہ نہیں؟ اگر جانا جاسکتا ہے تو کیسے؟ اس حوالے سے تمام فلسفہ 'دنیا' کی تشریح کرتا دکھائی دیتا ہے، مگر جونہی ہم فلسفے، منطق کی اطلاقی جہات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو فلسفوں کو محض 'تشریح' تک محدود کردینے والی بات تھوڑی 'مشکوک' دکھائی دیتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ فلسفہ (تعقل پسندی، عینیت، تجربیت وغیرہ) بالائی طبقات کی آئیڈیالوجی کے طور پر عمل آرا ہوتا ہے، جو تبدیلی کے عمل کو روکنے اور اس کا رخ متعین کرنے میں بھی موئثر کردار ادا کرتا ہے۔
فلسفہ بذات خود ایک جہت کا تعین کرتا ہے اور بعد ازاں 'تعلیم' کے ذریعے اس خاص فکری جہت کو لوگوں کے شعور کا حصہ بنادیا جاتا ہے۔اکثر نظریہ ساز یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام میں انسانی شعور''بُعدزدہ'' ہوچکا ہے ، لیکن اس سوال کا جواب بہت کم دیا جاتا ہے کہ شعور حقیقت میں ''بُعد زدہ'' کیوں ہوتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی ہی حیثیت کا شعور رکھنے سے قاصر ہے؟ اگرچہ تجزیے کے دوران اس پیچیدہ سوال کے کئی جوابات تلاش کیے جاسکتے ہیں، مگر یہ بھی اہم ترین نکتہ ہے کہ فلسفیانہ خیالات کی فعالیت کی تفہیم کے بغیر اس سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ع
لمیات اور علم الوجود کے درمیان قائم کی گئی تفریق پر پختہ یقین بھی ایک ایسی دنیا کے لیے راستہ کھول دیتا ہے جو حقیقی دنیا کو سمجھنے میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ علمیات کی تمام تر بحث اور اسے علم الوجود سے کاٹ کر کوئی شکل دینے کی کوشش بذاتِ خود 'بعد زدہ' شعور ہی کی ایک صورت ہے۔ اور علوم کے مابین حتمی تفریق جیسے تصورات کو بالائی طبقات بڑی آسانی سے بروئے کار لاکر لوگوں کو ان کی حقیقی، سماجی حیثیت سے دور کرتے چلے جاتے ہیں۔
حکمران طبقات کیونکر حکومت کرپاتے ہیں؟ وہ کیا ذرایع ہیں جن کو بروئے کار لاکروہ حکومتی تسلسل کو قائم رکھتے ہیں!اس سوال کا جواب تلاش کرنے نکلیں تو فلسفیانہ، منطقی خیالات کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ بظاہر تو سیاسی و سماجی عمل بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والا لگتا ہے، لیکن اس کی تفہیم کا آغازکرتے ہی اس کی تمام تر پیچیدگی، اس کی مشکلات کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔جب تک اس سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جاتا کہ حکمران طبقات ایسا کیا کرتے ہیں کہ وہ اکثریت پر مسلسل حکومت کرنے میں کامیاب ہیں، اس وقت تک ان سے نبرد آزما ہونے والی حکمتِ عملی کا تعین بھی نہیں کیا جاسکتا۔سماج میں انقلابی تبدیلی کی احتیاج موجود ہے۔ طبقات کے درمیان تضادات بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لیکن طبقات کو یہی علم نہیں کہ طبقے سے کیا مراد ہے؟
مغربی ممالک میں''جدید جمہوریت'' انصاف، مساوات، آزادی،انفرادیت وغیرہ جیسے چند بنیادی تصورات و اقدار پر قائم ہے۔ جمہوریت کے تصور اوران تمام اقدار کی تشریح اوران کا تنقیدی تجزیہ فلسفیانہ مباحث کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آزادی کیا ہے؟ انصاف کا حصول کیسے ممکن ہے؟ انفرادیت کا تعین کیسے ہوگا؟ فطری صلاحیتیں مختلف ہیں تومساوات سے کیا مراد ہے؟یہ سب فلسفیانہ سوالات ہیں۔ انھی سوالات پر مغربی ممالک کی جامعات میں باقاعدہ فلسفیانہ مباحث کرائے جاتے ہیں۔
اسکولوں اور کالجوں میں انھیں تنقیدی تجزیات سے گزارا جاتا ہے۔ ان تصورات و اقدارکی تشریح کے دوران میں مغرب کے بڑے اور اہم فلسفیوں کے خیالات پیش کیے جاتے ہیں۔ طالب علموں کے اذہان میں مخصوص فلسفیانہ خیالات راسخ کیے جاتے ہیں۔ فلسفیانہ مباحث کے ذریعے سچے اور جھوٹے تصورات اور اقدار کا تعین کیا جاتا ہے۔
اب حالات یہ ہیں کہ فلسفے اور منطق کے اہم قضا یا جو بظاہر انسان کی روز مرہ زندگی سے کٹے ہوئے اور تجریدی لگتے ہیں، انھیں بڑی مہارت سے سماجی سائنسوں کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ اب فلسفہ محض تجریدی مابعد الطبیعاتی تصورات کی تشکیل واحیا کا وسیلہ نہیں رہا ہے، بلکہ ان مابعد الطبیعاتی تصورات کو عملی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی زندگی میں منتقل کردیا گیا ہے۔ جامعات میں مختلف فلسفوں اور تھیوریوں کو انسانی کی حقیقی سماجی زندگی کی تفہیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس قدر منظم و مربوط اور فلسفیانہ انداز میں کیا جاتا ہے کہ طالب علموں کے لیے اقدار کا تعین،ان کے متعلقہ اور غیر متعلقہ ہونے کے مخصوص تصورات پر یقین پختہ ہونے لگتا ہے۔یہی وہ ''اعلیٰ فکر'' ہے جس نے سماج کو ''بُعدزدہ'' کرنے میں ہی نہیں بلکہ اسے مسلسل ''بعد زدہ'' رکھنے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ یہی وہ ''برتر سوچ'' ہے کہ جس کے غالب آنے سے ''بُعد زدہ'' انسان اپنے ہی خلاف چلنے میں مصروف ہے۔ وہ اپنی ہی سماجی حیثیت کا تعین نہیں کرپارہا، نہ ہی اپنی سماجی حیثیت کے شعور کا تعین ہی کرپارہا ہے۔
ایسا سماج جو باطل بنیادوں پر قائم ہو، جس نے انسان کو اس کے اپنے وجود سے الگ کررکھا ہو، جہاں انسان کا اپنا شعور ہی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، ایسے سماج میں ان تمام نظریاتی (فلسفیانہ، الٰہیاتی، ثقافتی ) اور طبقاتی نکات کی تفہیم کے بعد ہی اس سماج کے خلاف جدوجہد کی کوئی صورت نکالی جاسکتی ہے۔