حبیب جالب کی یاد میں
اگرچہ اسپتال میں داخل شخص کی وفا شعار شریک حیات شب و روز اپنے شوہرکی تیمارداری میں مصروف ہے
RAWALPINDI:
اگرچہ اسپتال میں داخل شخص کی وفا شعار شریک حیات شب و روز اپنے شوہرکی تیمارداری میں مصروف ہے۔ سعادت مند اولاد بھی خداوند کریم کے حضور دعا گو ہے کہ ان کا شفیق باپ جلد صحت یاب ہوجائے۔ مزاج پرسی کے لیے آنے والے عزیز و اقارب کا تانتا لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹرز کی جانب سے بھی مریض کے علاج کی پوری پوری کوششیں جاری ہیں۔
مریض شخص کے اہل خانہ گوکہ پہلے ہی مالی آسودگی سے ناآشنا ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ گھر کا سرپرست کئی روز سے شدید بیماری کے باعث اسپتال میں داخل ہے۔ مریض شخص کا خاندان اگرچہ پوری طرح مالی مشکلات کا شکار ہوچکا ہے مگر پھر بھی اپنی سفید پوشی وخود داری کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے، ایسے حالات میں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت کی جانب سے پانچ لاکھ روپے کی خطیر رقم مریض شخص کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے، تصورکریں آج سے 23 برس قبل پانچ لاکھ روپے کی کیا قدر ہوگی جب کہ کیفیت یہ ہے کہ ہر آنے والے دن میں بیمار شخص کا مرض طوالت پکڑ رہا ہے مگر وہ مریض شخص حاکم اعلیٰ کی بھیجی ہوئی پانچ لاکھ روپے کی خطیر رقم وصول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ میں نے اہل اقتدار سے پوری زندگی کچھ نہیں لیا۔ اب تو شاید دو چار روزکی زندگی باقی ہے اور نامعلوم زندگی کی ڈور کب ٹوٹ جائے۔ اب ان حالات میں یہ پانچ لاکھ روپے کی خطیر رقم میرے کس کام کی۔ چنانچہ اس کے چند یوم بعد وہ مریض شخص فانی دنیا کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے مگر یہ کیا اس شخص کے چاہنے والے جو دنیا بھر میں موجود ہیں پرنم ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ انقلابی و حقیقی معنوں میں عوامی شاعر حبیب جالب ہے۔
یہ تذکرہ ہے 13 مارچ 1993 کا جب کہ ان کی رحلت کے چند یوم بعد اس وقت و آج کے اور اگر موجودہ نظام حکومت برقرار رہتا ہے تو آنے والے وقت کے وزیراعظم تعزیت کی غرض سے حبیب جالب کی شریک حیات ممتاز کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور ان سے جالب کی رحلت کی تعزیت کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی خدمت میں وہی پانچ لاکھ روپے جوکہ جالب نے واپس کیے تھے پیش کرتے ہیں مگر ممتاز ان الفاظ کے ساتھ پانچ لاکھ روپے کی خطیر رقم واپس کردیتی ہیں کہ جو رقم میرے شوہر نے قبول نہ کی ہو وہ رقم میں نہیں قبول کروں گی۔
ہاں اگر آپ ہمارے خاندان کے لیے کچھ کرسکتے ہیں تو میرے ایک بیٹے کو سرکاری ملازمت دلادیں۔ انسانی ضروریات و خواہشات ہر انسان کے ساتھ ہوتی ہیں مگر اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اتنی بڑی گھر آئی رقم واپس کردینا یقینا حبیب جالب کی شریک حیات ہی کا شیوہ ہوسکتا ہے۔
حبیب جالب کا اصلی نام حبیب احمد تھا، جب کہ ان کے والد کا نام صوفی عنایت اللہ خان تھا۔ حبیب جالب صاحب نے 24 مارچ1928 کو مشرقی پاکستان کے شہر ہوشیار پور میں جنم لیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 19 سالہ حبیب جالب بڑے بھائی مشتاق احمد کے ساتھ کراچی آجاتے ہیں اور اپنا تعلیمی سلسلہ پھر شروع کرتے ہیں۔
دوران حصول تعلیم ہی حبیب جالب ترقی پسند نظریات سے واقفیت حاصل کرچکے تھے یہ وہ وقت تھا جب سندھ کے نامور ہاری رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت جوکہ انگریز کی عطا کردہ تھی چھوڑ کر ہاری تحریک قائم کرچکے تھے اور سندھ کے اکثر ترقی پسند فکرکے لوگ ان کی ہاری تحریک میں شریک ہوچکے تھے۔
حبیب جالب بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ یہ ذکر ہے 1954 کا اور اسی برس حبیب جالب اپنی پہلی جیل یاترا پرگئے یعنی گرفتارکرلیے گئے اور پھر ان کا سرکاری مہمان خانے آنا جانا لگا رہا جب کہ 1965میں حبیب جالب نیشنل عوامی پارٹی (NAP) میں شامل ہوگئے مگر اس وقت تک وہ اپنی پرجوش و انقلابی شاعری کے باعث عوامی شاعر کا خطاب پاچکے تھے۔ ناقدین کی نظر میں دو عوامی شاعر اردو زبان میں گزرے ہیں، ایک نظیر اکبر آبادی دوسرے حبیب جالب۔ اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ ایوبی آمریت کے خاتمے میں دیگر عوامل کے ساتھ حبیب جالب کی شاعری کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔
بالخصوص جب وہ اپنی نظم دستور سامعین کو سناتے تو سامعین کا غصہ ایوبی آمریت کے بارے میں دوچند ہوجاتا جو رائے و رویہ جالب کا ایوبی آمریت کے بارے میں تھا وہی رائے و رویہ یحییٰ خان آمریت کے بارے میں بھی تھا۔ چنانچہ جب آمر یحییٰ خان کے حکم سے 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع ہوا تو دور اندیش حبیب جالب نے اس کی بھرپور مخالف کرتے ہوئے کہا کہ یحییٰ خان نورالامین کے ساتھ مل کر ملک توڑنے جا رہا ہے چنانچہ اس موقعے پر خاموشی اختیار کرنا بے غیرتی ہوگی جب کہ بے باک و صاف گو حبیب جالب نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی دور حکومت میں بھی 10 ماہ جیل میں گزارے جب کہ آمر جنرل ضیا الحق کے سامنے ان الفاظ میں جھکنے سے انکار کیا:
ظلمت کو ضیا صر صر کو ہوا
بندے کو خدا کیا لکھنا
یعنی ضیا آمریت کا قہر جن لوگوں پر نازل ہوا ان میں جالب بھی شریک تھے، جنھوں نے بساط سے بڑھ کر ضیائی قہر وجبر برداشت کیا مگر آمر ضیا الحق کے سامنے حبیب جالب دیگر ترقی پسند لوگوں کی مانند ایک ناقابل تسخیر چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ ادبی میدان میں انھوں نے شاعری کی کم و بیش 12 کتابیں تحریر کیں جن میں سے اکثر کتب پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کتب کی تحریر پر انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں جب کہ ان کی شخصیت پر تحریر کردہ کتب کی تعداد 12 کے قریب ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ان کتب کے ساتھ ساتھ جرائد و رسائل و مضامین حبیب جالب کی شخصیت پر تحریر ہوئے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جتنا ادب حبیب جالب نے تخلیق کیا اس سے زیادہ ان کی شخصیت پر دوسروں نے تحریر کیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ حبیب جالب صاحب نے جنم مارچ کے مہینے میں لیا یعنی 24 مارچ1928 اور دنیا فانی کو بھی 13 مارچ1993 میں خدا حافظ کہا مگر ہم اس وقت ان کے جنم کے حوالے ہی سے گفتگو کریں گے اور 24 مارچ2016 کو ان تمام احباب کو حبیب جالب کے 88 ویں جنم دن و 87 ویں سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتے ہیں ان کی بیٹی کے اس مطالبے کو دہراتے ہوئے کہ لاہور کی ایک شاہراہ کا نام حبیب جالب شاہراہ رکھا جائے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اپنی خوبصورت آواز میں حبیب جالب کے اشعار پڑھنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کب اس مطالبے کی روشنی میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے لاہور کی کسی شاہراہ کو حبیب جالب سے منسوب کرتے ہیں؟ آخر میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ آج بھی حبیب جالب کے انسان دوست فکر و فلسفے کی اسی قدر ضرورت ہے جیسے کہ ان کی حیات میں تھی کیونکہ ہمارے سماج میں مفلسی آج بھی ہے جہالت بھی ہے غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضوں کا بوجھ آج بھی ہے بلکہ بقول حبیب جالب کہ:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے ملک کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے