آٹو موٹیو پالیسی201621معروف برانڈز پاکستان لانے کی امید کے ساتھ پیش

کئی عشروں سے گاڑیوں کے مینوفیکچررز کے ذریعے صارفین کا استحصال ہو رہا تھا،خواجہ آصف


Khususi Reporter/APP March 22, 2016
کئی عشروں سے گاڑیوں کے مینوفیکچررز کے ذریعے صارفین کا استحصال ہو رہا تھا،خواجہ آصف فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے معروف بین الاقوامی برانڈز پاکستان لانے کی امیدکے ساتھ نئی آٹوموٹیوپالیسی2016-21 جاری کردی جس میں مقامی مینوفیکچرر (اسمبلرز)کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے نئے سرمایہ کاروں کو سہولتیں اور مراعات دی گئی ہیں جس سے معیاری اور سستی گاڑیوں کا حصول ممکن ہو سکے گا، صارف مفادات کا تحفظ کرنے کیلیے کمپنیاں 2 ماہ میں گاڑی دینے کی پابند ہوں گی۔

پیر کو آٹو پالیسی کمیٹی کے چیئرمین اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین مفتاح اسماعیل اور انجینئرنگ بورڈ کے سی ای او طارق اعجاز نے پاک سیکریٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نئی آٹو پالیسی میں 1800 سی سی تک کی گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں 10فیصد کمی، آئندہ مالی سال سے پاکستان میں تیار نہ کیے جانے والے درآمد پرزوں پر ڈیوٹی 32.5فیصد سے کم کر کے 30فیصد اور پاکستان میں بنائے جانے والے پرزوں پر ڈیوٹی 50سے کم کرکے 45 فیصد کردی گئی، مقامی تیار گاڑیوں پرمالی سال 2017-18سے ڈیوٹیوں میں 10فیصدکمی کی جائیگی۔

گرین فیلڈ انویسٹمنٹ کے تحت نئے سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں بننے والے پارٹس کی درآمدی ڈیوٹی 25فیصد جبکہ ایسے پارٹس جو پاکستان میں نہیں بنتے ان پر درآمدی ڈیوٹی 10فیصد کی گئی ہے جبکہ نئے مینوفیکچرنگ پلانٹس پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہو گی اور ملک میں جو پلانٹس بند پڑے ہیں ان کی پہلے سے موجود سرمایہ کار یا نئے سرمایہ کار بحال کر سکتے ہیں اور نئے پلانٹس بھی درآمد کیے جاسکیں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ کئی عشروں سے گاڑیوں کے مینوفیکچررز کے ذریعے صارفین کا استحصال ہو رہا تھا، اس استحصال کو ختم کرنے کے لیے معاملہ ای سی سی میں اٹھایا گیا جس کے بعد وزیر خزانہ نے کمیٹی بنائی جس کا مجھے چیئرمین بنایا گیا، کمیٹی کے دیگر ارکان میں سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین مفتاع اسماعیل اور سیکریڑی صنعت عارف عظیم تھے، بہت غوروخوض کے بعد نئی آٹوپالیسی تیار کی گئی جس میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا کہ ملک میں اس وقت پہلے سے موجود مینوفیکچرر جو درحقیقت اسمبلر ہیں نے مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے جس کا براہ راست نقصان صارفین کو ہو رہا ہے۔

مقابلے کی فضا نہ ہونے کے باعث پاکستان کے صارفین کو وہ سہولتیں نہیں دی گئیں جو بیرون ملک صارفین کو حاصل ہیں، عالمی ٹیکنالوجی کو متعارف نہیں کرایا گیا اور ایئربیگ، اے بی ایس نظام اور ماحول دوست انجن نہیں بنائے جا رہے، ابھی تک ہم یوروٹو فیول کیٹگری میں ہیں جس کی وجہ سے ایندھن بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے اور اس پر زیادہ اخراجات آتے ہیں جبکہ باقی دنیا یورو 6کی فیول کیٹگری میں ہے، مقامی مینوفیکچررز کو بہت زیادہ سہولتوں کے باوجود عالمی معیار کی گاڑیاں تیار نہیں کی جا رہیںجس سے صارف کو تحفظ بھی نہیں، ملک میں مسابقت کی فضا پید ا کرنے لیے نئے سرمایہ کاروں کومراعات دی گئی ہیں جن کا اطلاق پہلے سے موجود مینوفیکچررز پر نہیں ہو گا ، مسابقت کیلیے نئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائیگی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں 3 عشروں سے دو تین برانڈ کی اجارہ داری ہے اور کسی نئے برانڈ کو شامل نہیں ہونے دیا گیا اور عالمی معیار کو مدنظر رکھ کر گاڑی میں سہولتیں نہیںدی جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کے نفاذ میں مزاحمت بھی آ رہی ہے، عالمی سطح پر اسٹیل کی قیمتیں کم ہوئیں لیکن اس کو پاکستانی صارفین کو منتقل نہیں کیا گیا۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین مفتاع اسماعیل نے کہا کہ بیماریونٹس کی پیداوار بحال کرنے کے لیے بھی ترغیبات دی جائیں گی، پلانٹ کھولنے والوں کو ڈیوٹی سے استثنیٰ ملے گا، زیادہ مسابقت سے زیادہ بہتر گاڑیاں مارکیٹ میں آئیں گی اور مقابلے کی فضا پیدا ہوگی، اگر مارکیٹ 5 پلیئرز تک پھیل جاتی ہے تو اس سے صارفین کو فائدہ ہوگا، ملک میں اس وقت 1لاکھ 55ہزار گاڑیاں سالانہ تیار ہورہی ہیں جبکہ گنجائش 2لاکھ 80ہزار کی ہے لیکن مقامی مینوفیکچرر کم گاڑیاں تیار کر رہے ہیں ، نئی پالیسی سے گاڑیوں کی طلب اور سپلائی کو ٹھیک کیا جائیگا جس سے قیمتوں میں کمی آئے گی۔

انجینئرنگ بورڈ کے سی ای او طارق اعجاز نے کہا کہ ہم یورو 4کی جانب سفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بعد ہم اپنی گاڑیوں کو برآمد بھی کر سکیں گے، اس پالیسی کو وقت کے ساتھ مانیٹر بھی کریں گے، پاکستان آٹو موٹیوانسٹیٹیوٹ قائم اور عالمی معیارات متعارف کرائے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں