حیاء
اللہ اس حیاء کے صدقے جو اسے ہمیں عذاب دیتے ہوئے آتی ہے، ہمیں معاف کردے، بے سبب بغیر کسی وجہ کے۔
PESHAWAR:
علم بشریات میں ہم انسان، انسانیت کے ارتقاء اور انسانی معاشرے کی بات کرتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں کہ معاشرہ کن اجزاء سے مل کر بنتا ہے اور معاشرے میں سدھار یا ابتری کن عوامل کی مرہونِ منّت ہے۔ بشریات کے محقیقین معاشرے کو Shame-based اور Guilt-based سوسائٹی میں تقسیم کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر شرم پر مبنی معاشرہ میں آپ سگریٹ پیتے ہیں مگر اپنے والدین کے سامنے نہیں، اپنے رشتہ داروں اور اساتذہ سے چھپا کر، یہ Shame-based معاشرہ ہے۔ آپ کو کسی دور شہر یا رشتہ داروں سے پرے کسی مقام پر دوستوں کے ساتھ سگریٹ پینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی، کیونکہ یہاں کوئی ایسا نہیں جس سے شرم آسکے یا جو شرم دلاسکے۔
دوسری طرف Guilt-based معاشرہ میں ایک اندرونی کسک، چوٹ ہوتی ہے جو آپ کو روکتی ہے برے کام کرنے سے، آدمی سوچتا ہے کہ اگر ایسا کیا تو اس معاشرے اور آنے والی نسلوں پر کیا اثرات ہوں گے۔ میں خود اپنی نظروں سے گر جاؤں گا۔
سائیکلوجی کے ماہرین ان دو تھیوریز کے درمیان لوگوں سے پنگ پانگ کھیلتے رہتے ہیں۔ غصہّ، ندامت، انتقام، حسد، پچھتاوا، ریا کاری، سیاہ کاری اور تمام نفسانی امراض کا علاج ان دو نظریات کے درمیان پیدا ہونے والے فلسفہ اور لفاظی سے کردیتے ہیں۔ اگر آپ نادم ہیں تو Shame-based معاشرے کی مثالیں دے کر آپ کی ساری Guilt مٹا دیں گے کہ دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا اور بھلا آپ کو کون جانتا ہے؟ عبداللہ سوچا کرتا کہ اسلام معاشرتی اقدار اور انسانی جبلتّوں کا چوکیدار کسے بتاتا ہے اور انسانّیت کی رکھوالی و ارتقاء کیونکر ممکن ہو؟
حیاء وہ کلیہ ہے جو مومن کی شان ہے اور انسانوں کے معاشرے میں گناہوں کے تعفّن اور رزیل نفسانی عیاشیوں کی روک ٹوک کا ضامن ہے۔ حیاء یہ نہیں کہ بندہ دوسروں سے شرمائے، یہ بھی نہیں کہ اپنے آپ سے شرمائے، یہ تو Shame اور Guilt کے بیچ کی چیز ہے کہ بندے کو اللہ سبحان و تعالیٰ سے شرم آئے، ان سے حیاء آئے، سوچے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اس نے اتنی نعمتیں دیں، اتنے مواقع دیئے، اتنے احسانات کئے، کوئی غلط کام کروں گا تو روز حشر کیا منہ دکھاؤں گا؟ اللہ کے واسطے، اس کی نظر، اس کی عنایتوں کے بدلے رک جائے، صحیح کام کرے، برائی سے باز رہے، یہ وہ حیاء پر مبنی ماڈل ہے جو مسلمانوں کی کی بنیاد رہا اور جسے آج مسلمانوں نے ہی بھلا دیا ہے۔
ہر امت کی ایک خصوصیت رہی ہے، طرہ امتیاز رہا ہے، مسلمانوں کی نشانی حیاء ہے، بھلا مومن بھی بے حیاء ہوسکتا ہے؟ مومن اور درخت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، درخت کو جہاں لگادو وہیں سایہ کرنے لگتا ہے، چھاؤں دیتا ہے کہ لوگ آئیں اور آکر سکون پائیں، معاشرے سے زہر (کاربن ڈائی آکسائیڈ) پی کر زندگی (آکسیجن) لوٹاتا ہے۔ مومن بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جہاں بٹھا دو وہیں اللہ کے ذکر کا حصّار قائم کرلیتا ہے، لوگ اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں اور شفاء پاتے ہیں، مومن بھی معاشرے کا زہر (حسد، جھوٹ، ظلم، انتقام، غیبت، بہتان) پی کر جواں ہوتا ہے اور زندگی بھر دعا کی صورت میں معاشرے کو اُمید، اُمنگ اور خوشخبری کی نوید دیتا رہتا ہے۔ دعا مومن کی چھاؤں ہے، جو بیٹھ جائے اسے میسّر ہو، چاہے وہ دشمن ہو، چاہے کافر، مومن کا تو کام ہی ایک ہے کہ اپنے رب سے مانگتا رہے، بلا وجہ بھی مانگتا رہے، پیدائش سے لے کر مرنے تک مانگتا رہے۔ دعا کے بعد نتائج پر ناراضگی بے ادبی ہوتی ہے کہ آپ کو اللہ کا فیصلہ پسند نہ آیا۔
اور آدمی کی دعا ہی کیا، زندگی بھر جو دعائیں کرتا ہے وہ سب مل جائیں تو زندگی جینے کے قابل نہ رہے، بیوی بچے، دولت گاڑی، عہدہ و شہرت زندگی بھر مانگتا ہے اور پھر یہی مال و اسباب، اہل و عیّال مصیبت بن جاتے ہیں پھر انہی سے بھاگ کر سکون کی تلاش میں نکل پڑتا ہے، عجیب بے وقوفی ہے۔ انسانی خواہشات کی تکمیل پریشانی ہے اور اس کا واحد توڑ دعا ہے، دعا خیر ہی خیر ہے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ علم، علم کی پہچان ہے اور جہل جہالت کی۔ ایک پڑھے لکھے آدمی کو ہر جگہ علم بکھرا نظر آتا ہے اور وہ تمام عمر اسے کشید کرتا رہتا ہے، ایک جاہل آدمی کو کسی عالم میں بھی جہالت دکھ ہی جاتی ہے اور وہ تمام عمر اس کا ماتم کرتا رہتا ہے۔ آدمی کو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئیے، بے شک اس کی پناہ بڑی چیز ہے۔ تعوز سے بڑا تعویذ کیا ہو؟ دعوت بغیر دعویٰ کے دی جائے تو جاگنے اور جگانے کی ہمت آہی جاتی ہے۔ اللہ اس حیاء کے صدقے جو اسے ہمیں عذاب دیتے ہوئے آتی ہے، ہمیں معاف کردے، بے سبب بغیر کسی وجہ کے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
علم بشریات میں ہم انسان، انسانیت کے ارتقاء اور انسانی معاشرے کی بات کرتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں کہ معاشرہ کن اجزاء سے مل کر بنتا ہے اور معاشرے میں سدھار یا ابتری کن عوامل کی مرہونِ منّت ہے۔ بشریات کے محقیقین معاشرے کو Shame-based اور Guilt-based سوسائٹی میں تقسیم کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر شرم پر مبنی معاشرہ میں آپ سگریٹ پیتے ہیں مگر اپنے والدین کے سامنے نہیں، اپنے رشتہ داروں اور اساتذہ سے چھپا کر، یہ Shame-based معاشرہ ہے۔ آپ کو کسی دور شہر یا رشتہ داروں سے پرے کسی مقام پر دوستوں کے ساتھ سگریٹ پینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی، کیونکہ یہاں کوئی ایسا نہیں جس سے شرم آسکے یا جو شرم دلاسکے۔
دوسری طرف Guilt-based معاشرہ میں ایک اندرونی کسک، چوٹ ہوتی ہے جو آپ کو روکتی ہے برے کام کرنے سے، آدمی سوچتا ہے کہ اگر ایسا کیا تو اس معاشرے اور آنے والی نسلوں پر کیا اثرات ہوں گے۔ میں خود اپنی نظروں سے گر جاؤں گا۔
سائیکلوجی کے ماہرین ان دو تھیوریز کے درمیان لوگوں سے پنگ پانگ کھیلتے رہتے ہیں۔ غصہّ، ندامت، انتقام، حسد، پچھتاوا، ریا کاری، سیاہ کاری اور تمام نفسانی امراض کا علاج ان دو نظریات کے درمیان پیدا ہونے والے فلسفہ اور لفاظی سے کردیتے ہیں۔ اگر آپ نادم ہیں تو Shame-based معاشرے کی مثالیں دے کر آپ کی ساری Guilt مٹا دیں گے کہ دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا اور بھلا آپ کو کون جانتا ہے؟ عبداللہ سوچا کرتا کہ اسلام معاشرتی اقدار اور انسانی جبلتّوں کا چوکیدار کسے بتاتا ہے اور انسانّیت کی رکھوالی و ارتقاء کیونکر ممکن ہو؟
حیاء وہ کلیہ ہے جو مومن کی شان ہے اور انسانوں کے معاشرے میں گناہوں کے تعفّن اور رزیل نفسانی عیاشیوں کی روک ٹوک کا ضامن ہے۔ حیاء یہ نہیں کہ بندہ دوسروں سے شرمائے، یہ بھی نہیں کہ اپنے آپ سے شرمائے، یہ تو Shame اور Guilt کے بیچ کی چیز ہے کہ بندے کو اللہ سبحان و تعالیٰ سے شرم آئے، ان سے حیاء آئے، سوچے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اس نے اتنی نعمتیں دیں، اتنے مواقع دیئے، اتنے احسانات کئے، کوئی غلط کام کروں گا تو روز حشر کیا منہ دکھاؤں گا؟ اللہ کے واسطے، اس کی نظر، اس کی عنایتوں کے بدلے رک جائے، صحیح کام کرے، برائی سے باز رہے، یہ وہ حیاء پر مبنی ماڈل ہے جو مسلمانوں کی کی بنیاد رہا اور جسے آج مسلمانوں نے ہی بھلا دیا ہے۔
ہر امت کی ایک خصوصیت رہی ہے، طرہ امتیاز رہا ہے، مسلمانوں کی نشانی حیاء ہے، بھلا مومن بھی بے حیاء ہوسکتا ہے؟ مومن اور درخت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، درخت کو جہاں لگادو وہیں سایہ کرنے لگتا ہے، چھاؤں دیتا ہے کہ لوگ آئیں اور آکر سکون پائیں، معاشرے سے زہر (کاربن ڈائی آکسائیڈ) پی کر زندگی (آکسیجن) لوٹاتا ہے۔ مومن بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جہاں بٹھا دو وہیں اللہ کے ذکر کا حصّار قائم کرلیتا ہے، لوگ اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں اور شفاء پاتے ہیں، مومن بھی معاشرے کا زہر (حسد، جھوٹ، ظلم، انتقام، غیبت، بہتان) پی کر جواں ہوتا ہے اور زندگی بھر دعا کی صورت میں معاشرے کو اُمید، اُمنگ اور خوشخبری کی نوید دیتا رہتا ہے۔ دعا مومن کی چھاؤں ہے، جو بیٹھ جائے اسے میسّر ہو، چاہے وہ دشمن ہو، چاہے کافر، مومن کا تو کام ہی ایک ہے کہ اپنے رب سے مانگتا رہے، بلا وجہ بھی مانگتا رہے، پیدائش سے لے کر مرنے تک مانگتا رہے۔ دعا کے بعد نتائج پر ناراضگی بے ادبی ہوتی ہے کہ آپ کو اللہ کا فیصلہ پسند نہ آیا۔
اور آدمی کی دعا ہی کیا، زندگی بھر جو دعائیں کرتا ہے وہ سب مل جائیں تو زندگی جینے کے قابل نہ رہے، بیوی بچے، دولت گاڑی، عہدہ و شہرت زندگی بھر مانگتا ہے اور پھر یہی مال و اسباب، اہل و عیّال مصیبت بن جاتے ہیں پھر انہی سے بھاگ کر سکون کی تلاش میں نکل پڑتا ہے، عجیب بے وقوفی ہے۔ انسانی خواہشات کی تکمیل پریشانی ہے اور اس کا واحد توڑ دعا ہے، دعا خیر ہی خیر ہے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ علم، علم کی پہچان ہے اور جہل جہالت کی۔ ایک پڑھے لکھے آدمی کو ہر جگہ علم بکھرا نظر آتا ہے اور وہ تمام عمر اسے کشید کرتا رہتا ہے، ایک جاہل آدمی کو کسی عالم میں بھی جہالت دکھ ہی جاتی ہے اور وہ تمام عمر اس کا ماتم کرتا رہتا ہے۔ آدمی کو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئیے، بے شک اس کی پناہ بڑی چیز ہے۔ تعوز سے بڑا تعویذ کیا ہو؟ دعوت بغیر دعویٰ کے دی جائے تو جاگنے اور جگانے کی ہمت آہی جاتی ہے۔ اللہ اس حیاء کے صدقے جو اسے ہمیں عذاب دیتے ہوئے آتی ہے، ہمیں معاف کردے، بے سبب بغیر کسی وجہ کے۔
''آمین۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔