موقع ملا تو ایک اور بیٹے نے پاکستان کا نام روشن کردیا
اگر حکومت مارشل آرٹس بالخصوص کک باکسنگ کی جانب توجہ دے تو مزید نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
KARACHI:
19 سالہ نوجوان یاسین احمد خان نے کک باکسنگ کے میدان میں دھوم مچائی ہوئی ہے۔ یاسین احمد خان جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلتے ہوئے اب تک دو عالمی تمغے اپنے نام کرچکے ہیں۔ یاسین احمد خان سوات کے ایک خوبصورت علاقہ مانیار سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آٹھ سال کے تھے تب اس کے والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے جنوبی افریقہ کے شہر ویلکم منتقل ہوگئے۔
جنوبی افریقہ میں یاسین احمد خان نے ایک سرکاری اسکول سے اپنے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کیا، یسین خان کہتے ہیں
پھر 2015ء کے آخر میں یاسین احمد خان نیشنل ٹائٹل جیت کر انٹرنیشنل مقابلوں کے لئے منتخب ہوئے اور 2016ء میں امریکہ میں منعقد ہونے والے یو ایس اوپن مارشل آرٹس چیمپئین شپ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے دو عالمی ٹائٹل جیت کر نہ صرف افریقہ کا پرچم بلند کیا بلکہ پاکستانی نژاد افریقی کھلاڑی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی باعث فخرثابت ہوئے۔
یاسین احمد خان مزید کہتے ہیں کہ
یاسین تعلیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ کمپیوٹر نیٹ ورکنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کمپیوٹر کی تعلیم کے بہتر مواقع نہیں ہیں، اس لئے خواہش ہے کہ اگر انہیں ویزا مل سکا تو اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے امریکہ جائیں گے۔
وہ اپنے گاوں میں کس قدر مقبول ہوچکے ہیں یہ بتانے کے لیے یہی کافی ہے کہ یاسین احمد خان جب اپنے آبائی علاقہ سوات آئے تو خاندان کے افراد سمیت علاقے کے لوگوں نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور ان کی جیت کو پاکستان کی جیت قرار دیا اور انتہائی فخر و مسرت کا اظہار کیا۔ یاسین احمد کے چچا خورشید احمد کہتے ہیں''ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ یاسین کے حوالے سے جس طرح ہم نے جنوبی افریقہ میں سنہرے خواب دیکھے تھے وہ شرمندہ تعبیر ہوگئے۔ امید رکھتے ہیں کہ کمپیوٹر نیٹ ورکنگ میں بھی لوہا منوا کر ملک و قوم کا نام روشن کریں گے''۔
یاسین احمد سوات میں بھی اپنی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مینگورہ شہر میں قائم ایک کک باکسنگ اکیڈمی میں روزانہ پریکٹس کرتے ہیں اور دیگر کھلاڑیوں کے لئے بھی حوصلہ افرائی کا باعث بن رہے ہیں۔ یاسین احمد کہتے ہیں کہ سوات میں کک باکسنگ اکیڈمی کو دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہوئی کہ نہ صرف مجھے پریکٹس کا موقع مل رہا ہے بلکہ سوات سے دیگر کھلاڑیوں کے لیے بھی آگے بڑھنے کے لیے راہیں موجود ہیں۔
اکیڈمی کے مالک اور خیبر پختونخوا کک باکسنگ ایسوسی ایشن کے صدر شفی الرحمن کہتے ہیں کہ
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح کرکٹ کو قومی کھیل نہ ہونے کے باوجود بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے باکل اُسی طرح کک باکسنگ کے لئے بھی حکومتی سطح پر اکیڈمیاں قائم کی جائیں، اِس طرح جن نوجوانوں میں کک باکسنگ کی چھپی صلاحیتیں موجود ہیں انہیں سامنے لایا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
19 سالہ نوجوان یاسین احمد خان نے کک باکسنگ کے میدان میں دھوم مچائی ہوئی ہے۔ یاسین احمد خان جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلتے ہوئے اب تک دو عالمی تمغے اپنے نام کرچکے ہیں۔ یاسین احمد خان سوات کے ایک خوبصورت علاقہ مانیار سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آٹھ سال کے تھے تب اس کے والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے جنوبی افریقہ کے شہر ویلکم منتقل ہوگئے۔
جنوبی افریقہ میں یاسین احمد خان نے ایک سرکاری اسکول سے اپنے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کیا، یسین خان کہتے ہیں
تعلیم کے ساتھ ساتھ مجھے کک باکسنگ سے بھی دیوانگی کی حد تک لگاؤ تھا۔ شروع میں گلی، محلوں میں دوستوں کے ساتھ کک باکسنگ کھیلا کرتا تھا اور کلب ٹورنامنٹ میں حصہ لیتا رہا اور کئی مقابلے جیت گیا، جس سے اسے خوب پزیرائی ملی۔ پہلی بار 2013 میں صوبائی چیمپئین شپ کے لئے منتخب ہوا اور ٹائٹل اپنے نام کیا۔ بعد میں جنوبی افریقہ کی قومی ٹیم میں میری سلیکشن ہوئی۔
پھر 2015ء کے آخر میں یاسین احمد خان نیشنل ٹائٹل جیت کر انٹرنیشنل مقابلوں کے لئے منتخب ہوئے اور 2016ء میں امریکہ میں منعقد ہونے والے یو ایس اوپن مارشل آرٹس چیمپئین شپ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے دو عالمی ٹائٹل جیت کر نہ صرف افریقہ کا پرچم بلند کیا بلکہ پاکستانی نژاد افریقی کھلاڑی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی باعث فخرثابت ہوئے۔
یاسین احمد خان مزید کہتے ہیں کہ
عالمی ٹائٹل جیتنے کے بعد افریقی عوام کی جانب سے انہیں بہت پیار ملا، اسی طرح پاکستان میں بھی ان کو خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔ اُن کی خواہش ہے کہ کک باکسنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرسکیں۔
یاسین تعلیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ کمپیوٹر نیٹ ورکنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کمپیوٹر کی تعلیم کے بہتر مواقع نہیں ہیں، اس لئے خواہش ہے کہ اگر انہیں ویزا مل سکا تو اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے امریکہ جائیں گے۔
وہ اپنے گاوں میں کس قدر مقبول ہوچکے ہیں یہ بتانے کے لیے یہی کافی ہے کہ یاسین احمد خان جب اپنے آبائی علاقہ سوات آئے تو خاندان کے افراد سمیت علاقے کے لوگوں نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور ان کی جیت کو پاکستان کی جیت قرار دیا اور انتہائی فخر و مسرت کا اظہار کیا۔ یاسین احمد کے چچا خورشید احمد کہتے ہیں''ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ یاسین کے حوالے سے جس طرح ہم نے جنوبی افریقہ میں سنہرے خواب دیکھے تھے وہ شرمندہ تعبیر ہوگئے۔ امید رکھتے ہیں کہ کمپیوٹر نیٹ ورکنگ میں بھی لوہا منوا کر ملک و قوم کا نام روشن کریں گے''۔
یاسین احمد سوات میں بھی اپنی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مینگورہ شہر میں قائم ایک کک باکسنگ اکیڈمی میں روزانہ پریکٹس کرتے ہیں اور دیگر کھلاڑیوں کے لئے بھی حوصلہ افرائی کا باعث بن رہے ہیں۔ یاسین احمد کہتے ہیں کہ سوات میں کک باکسنگ اکیڈمی کو دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہوئی کہ نہ صرف مجھے پریکٹس کا موقع مل رہا ہے بلکہ سوات سے دیگر کھلاڑیوں کے لیے بھی آگے بڑھنے کے لیے راہیں موجود ہیں۔
اکیڈمی کے مالک اور خیبر پختونخوا کک باکسنگ ایسوسی ایشن کے صدر شفی الرحمن کہتے ہیں کہ
یاسین احمد خان کی یہاں موجودگی سے دیگر کھلاڑیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے، اگر حکومت مارشل آرٹس اور بالخصوص کک باکسنگ کی جانب توجہ دے تو یاسین احمد خان کی طرح مزید نوجوان جن میں صلاحیتیں موجود ہیں انہیں اجاگر کیا جاسکتا ہے، جو آگے چل کر ملک کے لئے بڑا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح کرکٹ کو قومی کھیل نہ ہونے کے باوجود بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے باکل اُسی طرح کک باکسنگ کے لئے بھی حکومتی سطح پر اکیڈمیاں قائم کی جائیں، اِس طرح جن نوجوانوں میں کک باکسنگ کی چھپی صلاحیتیں موجود ہیں انہیں سامنے لایا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔