یومِ پاکستان پر خاص پیغام

سنہرے کل کی بنیاد ہم نے اگر آج نہیں رکھی تو یہ کل کبھی حقیقت نہیں بن پائے گا۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ہمیں اپنی بربادی کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں تو ہمیں لمبی چوڑی باتیں کرنے کے بجائے پاکستان کے لئے حقیقت میں کچھ کرنا ہوگا۔ فوٹو:فائل

''آپ اس جاب کے لئے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اُترتے، اس لئے آپ کو انٹرویو کے لئے کال نہیں کی گئی''۔

''مگر سر! میں تو اسی یونیورسٹی سے گولڈ میڈلسٹ ہوں، اور پھر بھی آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس جاب کے لئے اہل نہیں ہوں؟'' احمر نے حیران ہوتے ہوئے وائس چانسلر سے پوچھا۔

''صرف گولڈ میڈل حاصل کرلینے سے آپ اس جاب کے لئے اہل نہیں ہوجاتے، ہمیں اور بھی بہت سی چیزیں دیکھنا ہوتی ہیں اور آپ کے پاس تجربہ بھی تو نہیں ہے۔''

''میں پچھلے ایک سال سے ڈگریاں ہاتھ میں لئے جاب کے لئے دھکے کھاتا پھر رہا ہوں مگر کچھ حاصل نہیں ہوا، جب جاب ہی نہیں ملے گی تو تجربہ کہاں سے آئے گا سر؟ اور اشتہار میں تو کہیں بھی تجربہ کا ذکر نہیں ہے''۔ احمر نے بیچارگی سے پوچھا۔

''مسٹر احمر! جامعہ کے داخلہ فارم میں کہیں پر بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ ہم تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلباء کو نوکری دینے کے بھی پابند ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ آپ بحث کرکے نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہمارا، آپ کا تو پتہ نہیں مگر ہمارا وقت بہت قیمتی ہے، اور یہ فیصلے میں اکیلے نہیں کرتا بلکہ بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں ہوتے ہیں۔ آج یومِ پاکستان ہے، آپ بھی اسی یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ ہم یہ دن کیسے شایان شان طریقے سے مناتے ہیں، میں نے ابھی سارے انتظامات بھی دیکھنے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ میرا مزید وقت ضائع مت کریں''۔ وائس چانسلر کے لہجے میں اب تلخی آ چکی تھی۔

''مگر سر! آپ میری۔۔۔''

''تقریب کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا ہوسکتا ہے۔'' وائس چانسلرصاحب یہ کہتے ہوئے آفس سے نکل گئے، احمر سے جان چھڑانے کا شاید یہی واحد طریقہ تھا، اور احمر بیچارا منہ لٹکائے چپ چاپ آفس سے باہر آگیا، یہ وہی یونیورسٹی تھی جہاں وہ چار سال سنہرے مستقبل کے خواب دیکھتا رہا تھا، اُس کے سارے خواب یوں ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اُس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ ''گھر والوں کو جا کر کیا منہ دکھاؤں گا؟'' وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا۔

''بیٹا! تم کسی اور جگہ کوشش کرو، اس آسامی کے لیے سلیکشن تو پہلے سے ہی ہوچکا ہے، اخبار میں دیا گیا اشتہار تو بس ایک کاغذی کارروائی تھی''۔ ایک سینئر کلرک نے مشورہ دیا جو احمر کو اس جامعہ کا سابقہ طالب علم ہونے کے ناطے پہلے سے ہی جانتا تھا۔


''مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ بھلا ایک تعلیمی ادارہ ایسی گھٹیا حرکت کیسے کرسکتا ہے؟'' وہ یہ سب ماننے کو تیار نہیں تھا۔

''اس جاب کے لیے جس کو اہل سمجھا گیا ہے اُس نے اسی سال اپنی تعلیم مکمل کی ہے اور تعلیمی ریکارڈ بھی کوئی خاص متاثر کن نہیں ہے، مگر اُس کی یہی سب سے بڑی قابلیت ہے کہ وہ ایک بڑے سرکاری افسر کا بھتیجا ہے۔ بھلا ایسی سفارش کو رد کرنے کی جرأت کون کرسکتا ہے؟'' کلرک نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ''اور تم کوئی پہلے شخص نہیں ہو جس کے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے، تم جیسے ہزاروں یوںہی نوکری کی تلاش میں خوار ہوتے پھر رہے ہیں، میرا اپنا بیٹا بہت پڑھا لکھا ہے، کوئی سفارش نہیں تھی، رشوت دینے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے، لہذا کوئی اچھی نوکری نہیں ملی اُسے، الیکٹریکل انجینئر سے الیکٹریشن بننا پڑگیا۔'' بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے اُس کی آواز بھر آئی تھی۔

''مگر میں ہمت ہارنے والا نہیں ہوں، آج کی تقریب کے مہمانِ خصوصی مشہور صحافی ہیں، میں اپنی آواز اُن تک پہنچاؤں گا، وہ یقینا میری مدد کریں گے، وہ تو پہلے ہی معاشرے میں ہونے والے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانے کے لئے جانے جاتے ہیں۔'' احمر کی بات سُن کر اُس نے قہقہہ لگایا۔ ''تم پتہ نہیں آج تک کس دنیا میں رہتے رہے ہو، تم جیسے طالبعلم دن رات محنت کرکے بھی کامیاب نہیں ہو پاتے اور ان جیسوں کے بچوں کو کامیاب ہونے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ سب ایک جیسے ہیں، بس سب کا چورن بیچنے کا اپنا اپنا الگ انداز ہے۔ اس ملک کو تباہی کے دھانے پر لے جانے میں یہ سب برابر کے شریک ہیں''۔

یونیورسٹی کے مرکزی ہال میں یوم پاکستان کی تقریب پوری آب و تاب سے جاری تھی، 23 مارچ کے تاریخی دن کے حوالے سے کی جانے والی رٹی رٹائی جذباتی تقریروں سے پورا ہال گونج رہا تھا۔ پاکستان کی تباہی کی ساری ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈال کر اپنا اپنا دامن بچانے کی کوشش کی جا رہی تھی، قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات سے حوالے دے دے کر نوجوانوں کو احساس دلایا جا رہا تھا کہ صرف آپ ہی ہیں جو اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ احمر کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے ان بڑے بزرگوں سے پوچھے کہ،
''آپ نے اس ملک کی ترقی کے لیے کیا کیا ہے؟ آپ نے قائداعظم کے اُن فرمودات کو کیسے پسِ پشت ڈال دیا جو خصوصی طور پر آپ کو مخاطب کرکے کہے گئے تھے؟ آپ آج ہمیں ہماری ذمّہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر آپ اُس وقت کہاں تھے جب اس ارضِ پاک کو آپ کی ضرورت تھی؟ جب آپ کی نظروں کے سامنے یہ ملک دو ٹکڑے ہورہا تھا، تب آپ نے اپنی آنکھیں کیوں بند کرلی تھیں؟ اس ملک کو بچانے کے لئے کیوں اپنا کردار ادا نہیں کیا تھا؟ آپ نے معاشرے سے کرپشن اور نا انصافی ختم کرنے کی بجائے اسے پروان چڑھانے میں نہ صرف مدد دی بلکہ آپ خود بھی اس کا حصہ بن گئے، آپ آج اس ملک کے نظام کا بیڑہ غرق کرکے ہمیں سب کچھ ٹھیک کردینے کی تلقین کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟ ''

''آپ آج اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، آپ نے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا کیا ہے؟'' وہ آخر چیخ پڑا۔ اُس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کردی تھی، انجام کچھ بھی ہو مگر ابتدا تو کسی نہ کسی نے کرنی ہی تھی۔

ہمارے بڑے تو آج تک یومِ پاکستان اور یومِ آزادی شایان شان طریقے سے منا کرہی اس دھرتی کا حق ادا کرتے چلے آئے ہیں، لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ہمیں اپنی بربادی کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں تو ہمیں لمبی چوڑی باتیں کرنے کے بجائے پاکستان کے لئے حقیقت میں کچھ کرنا ہوگا۔ سنہرے کل کی بنیاد ہم نے اگر آج نہیں رکھی تو یہ کل کبھی حقیقت نہیں بن پائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story