آج پھر23 مارچ ہے
آج پھر 23 مارچ ہے اور ذہن کئی دھائیوں کا الٹا سفر طے کرکے 1940میں جا پہنچا ہے،
آج پھر 23 مارچ ہے اور ذہن کئی دھائیوں کا الٹا سفر طے کرکے 1940میں جا پہنچا ہے، اُس سال بھی23 مارچ آیا تھا ، جوایک عام دن نہیں تھا، وہ ایک عظیم تبدیلی کا پیش لفظ تھا۔ بَرِّصغیر کی سب سے بڑی مسجد کے مینار دیکھ رہے تھے کہ سامنے میدان میں جمع ہونے والے ایک لاکھ افراد صرف جلسہ دیکھنے نہیں آئے ۔
وہ تو ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دینے کا عزم لے کر آئے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ آج اس میدان میں کُرّہء ارض پر بسنے والی مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جارہا ہے۔ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا ہر قابلِ ذکر رہنما اسٹیج پر موجود تھا مگر پنڈال میں موجود ہزاروں سامعین جو یوپی، سندھ ، بلوچستان، سرحد، بنگال اور پنجاب سے آئے تھے کسی اور کاانتظار کررہے تھے۔
ٹھیک دو بجکر پچّیس منٹ پر پورے ہندوستان کا سب سے معتبراور سب سے قد آور رہنما اسٹیج پر نمودار ہوا تو مجمعے میں برقی رو دوڑ گئی۔ سامعین کے جوش و خروش نے انتہاؤں کو چھولیا۔ فلک شگاف نعرے بادشاہی مسجد کے میناروں سے ٹکرا رہے تھے۔ منظر نامہ تیزی سے بدل رہا تھا۔ مایوسی اور بے یقینی میں بھٹکتا ہوئے ہجوم قوم میں بدل گیا تھا اور قوم کو منزل نظر آگئی تھی۔
اسٹیج پر ہندوستان کے ہر علاقے کے نمایندے موجود تھے، مولاناظفر علی خان بھی تھے اورحسرت موہانی بھی اور بنگال کا شیر فضل الحق بھی گرجنے کے لیے موجود تھا ۔ جب مسلمانوں کا متفقہ قائدؒ جسکی نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پر سوز تھی، خطاب کے لیے کھڑا ہوا تو ہندوستان کے کونے کونے سے آنے والے سامعین کے ساتھ تاریخ بھی گواہی دے رہی تھی کہ اس بے مثال شخص کا لباس شکن سے اور دامن ہر قسم کے داغ سے پاک ہے۔ تمام رپورٹرز اور مورّخین نے لکھاہے کہ قائدؒ کی تقریر دو گھنٹے تک جاری رہی۔ وہ اس زبان میں بول رہے تھے جو نوّے فیصد سامعین کے لیے اجنبی تھی۔
مگر دو گھنٹے تک ایسا سکوت تھا کہ ایک دوسرے کی سانسوں کی آوازیں سنی جاسکتی تھیں۔ وقفے وقفے سے نعرے بلند ہورہے تھے۔ اسی مجمعے میںایک معمّر شخص مقررّ کے ہر فقرے کے بعد کھڑا ہوکر پوری قوّت سے نعرے لگا رہا تھا اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک پڑھے لکھے شخص نے پوچھ لیا کہ ''بزرگو! آپ کو تقریر کی سمجھ آرہی ہے؟ '' عمر رسیدہ شخص نے جواب دیا ''تقریر کی سمجھ بیشک نہ آئے مگر ہر لفظ کی خوشبو آرہی ہے، انگریزی نہیں جانتا مگر اتنا جانتا ہوں کہ ھمارا قائدؒ جو کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے اور سچ کہہ رہا ہے۔''
یہ وہ لازوال اعتماد تھا جو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو محمد علی جناحؒ کے اُجلے کردار اور مصمّم ارادے پر تھا، اسی اعتماد کے بَل پر وہ مسلمانوں کے حقوق اور مستقبل کا پرچم لے کر نکلا تو اسے گاندھی اور نہرو کے پیروکاروں کی سازشیں اور انگریزوں کا جاہ و جلال روکنے میں ناکام رہا اور اس نے سیاسی ، معاشی اور تعلیمی میدان میں پسماندہ اور ناامیدی کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے گروہ کو منزلِ مقصود تک پہنچا کر دَم لیا۔
صاحبانِ دانش کا قول ہے A man is known by the company he keeps۔ انسان کی سوچ کا اندازہ اس کے ساتھیوں اور قریبی دوستوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ قائدؒ کی سوچ، فکر اور رجحانات کا اندازہ ان کے قریب ترین رفقائے کار سے لگایا جاسکتا ہے۔ جن میں نوّے فیصد سے زیادہ اسلامی نظریّہء حیات پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والے تھے۔ دین بیزار اور سیکولرحضرات تو کانگریس کے ہمنوا تھے یا انگریزوں کے ٹو ڈی ۔ اس قماش کا کوئی لیڈر 1946تک قائد اعظمؒ یا مسلم لیگ کے قریب نہیں پھٹکا۔
نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر علی خان جیسے لوگ کاروانِ پاکستان کے سرخیل تھے اور حکیم الامّت ڈاکٹر محمد اقبالؒ اس تحریک کے نظریاتی گائیڈ۔ تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں کی اکثریّت اور خودمیرِکارواںمحمد علی جناح فکرِ اقبالؒ سے رہنمائی لیتے تھے۔ 23مارچ کے تاریخ ساز اعلان کے گزشتہ روزمسلم لیگ کے اجلاس میں قائدؒ نے اپنے روحانی مرشد کو یاد کیااور کہا ''اگر آج ڈاکٹر محمد اقبال زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے۔ انھوں نے جس منزل کی نشاندہی کی تھی ہم اسی جانب چل پڑے ہیں''۔
ُُپڑھے لکھے مسلمان تو محمد علی جناحؒ کے گرد اکٹھے ہوچکے تھے مگر عوام النّاس کا خیال تھا کہ جس پاکستان کی نوید سنائی جارہی ہے اس کا لیڈر کوئی باریش عالمِ دین ہونا چاہیے ۔ابوالکلام نہیں تو مولانا محمد علی جوہرؒ جیسا ۔ پھر ایک جلسہء عام میںوقت کے سب سے بڑے اور باعمل عالمِ دین مولانا شبّیر احمد عثمانیؒ نے بتایا کہ ''رات خواب میں دیکھا ہے آقائے دوجہاںؐ حضورنبی کریمؐ فرمارہے تھے ہم نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت محمد علی کے سپرد کردی ہے'' تقریر ختم ہوتے ہی کانگریس کے ہمنوا علماء کی جلسہ گاہیں خالی ہوگئیں اور پورے ہندوستان کے طول و عرض کے مسلمانوں نے محمد علی جناحؒ کو کندھوں پر اٹھا کر قائدِ اعظم کے بلند مقام پر بٹھا دیا۔
پاکستان کا نقشہ کیسا ہوگا اس کے بارے میں بانیوں کے دل میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ ٹی وی چینلوں پر براجمان آج کے دین بیزار لوگوں کے تجزیئے سنکر بانیانِ پاکستان کی روحیں تڑپ اٹھتی ہوںگی۔ اُس وقت تو کسی کے ذہن میں کوئی شک یا ambiguity نہیں تھی پاکستان بن جانے کے بعد بھی قائدین کے ذہنوں میں کوئی شک نہیں تھا ۔
قائد اعظمؒ Communalist ہونے کے طعنے سہتے رہے۔ مگر وہ مسلمانوں کا نمائیندہ کہلانے پر فخر محسوس کرتے تھے اور نئی مملکت کی بنیادیں اسلام کے سماجی انصاف پر مبنی نظام پر استوار کرنے کا ببانگِ دھل اعلان کیاکرتے تھے۔ ابہام کیوںہوتا! سب لوگ تو جانتے تھے کہ اﷲ اکبر کی تکبیروں پر نئے ملک کی بنیاد رکھی گئی ہے اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاَاﷲ کے نعروں کی فضاء میں اس کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اگست کے بعد ان نعروں کو عملی شکل دینے کا وقت آپہنچا تھا اور وہ لوگ توجھوٹے وعدے کرنے والے یا جذبات سے کھیلنے والے لیڈرنہ تھے صرف وہی بات کرتے تھے جسے صحیح سمجھتے تھے۔
قراردادِ مقاصد پاکستان کے حامیوں سے کیے گئے وعدوں کے ایفاء کی عملی شکل تھی۔ یہ منزل کیجانب پہلا سنگِ میل تھا جسے مولویوں نے نصب نہیں کیا اس کے محرّکین مسلم لیگ کے زعماء تھے جو سب دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے۔ ہاں اُسوقت کوئی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ ہمارے خوابوں کی جنّت پاکستان کے سیاستدان سیاست کو ذریعہء دولت بنائیں گے ، افسر رشوت خور ہوںگے، عدالت میں انصاف بکے گا اور دفتر کا بابو عام سائل سے بدتمیزی سے پیش آئیگا اگر کوئی ایسا کیس نوٹس میں آجاتا تو قائدؒ یقیناًجلال میں آجاتے اور کرپشن میں ملوّث ہونے والے سیاستدان، بیوروکریٹ، جج، جرنیل یا جرنلسٹ کو نشانِ عبرت بنادیا جاتا۔
1940کا23مارچ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئیگا کہ نئے ملک کے چینلوں پر ایسی بیہودہ اور لایعنی بحثیں ہوںگی جن میں اﷲاور رسولؐ اﷲکے احکامات کی تضحیک کی جائے گی اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے پاکستان میں ایسے قوانین بنائے جائیںگے جن کا ہماری دینی اقدار اور سماجی روایات سے کوئی تعلّق نہ ہو۔
یہ اسوقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔کل ہی کچھ پڑھی لکھی روشن دماغ اور ورکنگ خواتین سے تحفّظِ خواتین کے بِل کے بارے میں پوچھا توسب نے کہا ہمارا تحفّظ پولیس کا کڑا نہیں کرسکتا ہمیں برابری یا آزادی نہیں۔ عزّت چاہیے ۔کسی نے کہااﷲاور رسولؐ کے احکامات ہی عورت کے محافظ ہیں کسی نے کہا پہلے باپ اوربھائی اور پھر شوہر اور بیٹے عورت کے اصل محافظ ہیں۔ شاعرِ اعظم ؒ ٹھیک کہہ گئے۔
؎ نے پرد ہ نہ تعلیم نئی ہوکہ پرانی
نسوانیتِ زن کا محافظ ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ سمجھا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
آج کا 23مارچ سراپا سوال ہے کہ محمد علی جناحؒ، عبدالرّبؒ نشتر، لیاقت علی خانؒ اور مولاناشبّیر احمد عثمانیؒ کے بنائے ہوئے ملک میں دین بیزار عناصر اتنا زور پکڑ جائیں گے کہ خوداقبالؒ اور قائدؒ کے لیے ٹی وی اسکرینوں کا دامن تنگ ہوجائیگا ۔ساٹھ اور ستّر کی دھائی میںمیڈیا کے محاذ پر اسلامی اقدار کی پاسبانی کی جنگ لڑنے والی سپاہ کے جرنیل الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، مجید نظامی، صلاح الدین شہید، ابنِ حسن شورش کاشمیری تھے جنہوں نے بڑی جرأت و ہمّت اور تدبّر سے اس محاذ کا دفاع کیا ۔
مگر اب وہ نظریاتی سپاہ کمزور ہوگئی ہے۔کچھ جرنیل دنیا سے چلے گئے اور کچھ شاید تھک گئے ہیں،جس پر دین سے لگاؤ رکھنے والوں (مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوںنہیں) کو فکر بھی ہے اور تشویش بھی ۔ تشویش بڑھی تو راقم لاہور میںایک صاحبِ دانش کے در پر جا پہنچا۔ محترم المقام سید سرفراز شاہ صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ ٹیوٹا کے چیئرمین عرفان قیصر صاحب نے تعارف کرایاتو بڑی محبّت سے ملے اور فرمانے لگے میں آجکل انھی کی کتاب ''دوٹوک باتیں'' پڑھ رہا ہوں۔
ایسی بلند پایہ شخصیّت کے دل میں ناچیز کے لیے محبّت اور شفقت کے جذبات ۔ یہ صرف خالق و مالک کا بے پایاں فضل و کرم ہے، جس پر جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ واپس اسلام آباد پہنچا ہی تھاکہ مکرمی الطاف حسن قریشی صاحب کا پہلے فون آیا اور پھر ان کی دیدہ زیب کتاب موصول ہوگئی ''ملاقاتیں کیا کیا''کتاب کیا ہے ایک دلچسپ اور لازوال تاریخ ہے اور پھر ایک ایسے صاحبِ طرز کے قلم سے جس کی ذات ایک ادارہ بھی ہے اور تربیّت گاہ بھی کہ جس نے بڑے بڑے مدیروں کو قلم پکڑنا سکھایا۔ اس سپاہ کی نئے سرے سے صف بندی کی بھی ضرورت ہے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی۔ یہ پاکستانی قوم کی آرزو بھی ہے اور 23مارچ کا پیغام بھی!! ۔