بیانیہ… تین روپے دو آنے سے 200 ارب تک

اس ملک کا بیانیہ طے ہے یہ 200 ارب ڈالروں والوں کا مال غنیمت نہیں ہے اس ملک کی نسلیں امانت دار اور قرض دار ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

میری روزانہ کی مشقت میں کبھی ناغے کی ایک کوشش میری بیٹی پروفیسر اسماء حمید اعوان بھی کر لیتی ہے۔ ایک دو بار پہلے کی طرح آج بھی اس نے جو کالم لکھا ہے وہ ایک پاکستانی کے بے پناہ درد دل کے سوا کچھ نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

بیانیہ' تین روپے 2 آنے سے 200 ارب تک مقتدر علمی و صحافتی حلقوں میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ملک پاکستان کے نظریاتی بیانیہ سے متعلق۔ کوئی اس کے مذہبی و دینی تشخص پر زور دیتا ہے تو کوئی سیکولر ازم کو اس کے تمام مسائل کا حل گردانتا ہے۔ کہیں اسلام کے نام پر ملک بنانے کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو کہیں اس بنیاد کو سختی سے جھٹلا دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ محض چند معاشی و سیاسی شکایات تھیں جن کے لیے مسلمانوں نے چھہتر سال پہلے ایک الگ ریاست قائم کرنے کا مطالبہ ایک قرار داد کی صورت میں پیش کیا۔

کہنے کو یہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ایک استعماری قوت کے سامنے پیش کی جانے والی ایک قرار داد تھی مگر درحقیقت یہ لفظوں میں ڈھالا گیا ایک خواب تھا جو کروڑوں مسلمانان برصغیر نے دل و دماغ سے دیکھا تھا' اپنے گھر' اپنی پناہ گاہ کا خواب جو ایک امانت کی طرح نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ 1940ء میں عزم گھر بسانے کا تھا اور ساڑھے سات دہائیوں کے بعد اس گھر کو مضبوط بنانے کا ہے۔

انھی دنوں نظر سے ایک مضمون گزرا جس میں قائداعظم محمد علی جناح کے نام بچوں کے خطوط کا ذکر تھا۔ 1940ء کے بعد جناح صاحب نے مسلم لیگ کو ایک جامع فعال سیاسی جماعت بنانے کی ٹھانی اور اس مقصد کے لیے چندے کی اپیل کی۔ اس اپیل کا ایک جواب مدراس میں قائم ایک یتیم خانے کے مسلمان بچوں کی جانب سے آیا۔ وہ جناح صاحب کو ''ہمارے اچھے قائداعظم'' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم نے آپ کی اپیل کا سنا تو سوچا کہ کچھ کرنا چاہیے۔

آپ کو معلوم ہے کہ ہم یتیم ہیں اور ہمارے کپڑوں اور کھانے پینے وغیرہ کا انتظام تو یتیم خانہ کی جانب سے ہی کیا جاتا۔ نہ تو ہمارے والدین ہیں کہ ہمیں کوئی جیب خرچ ملتا ہو۔ پھر بھی ہم نے جیسے بن پڑا پیسہ دھیلہ جہاں سے ممکن ہوا اکٹھا کیا ہے۔ کُل رقم تین روپے دو آنے جمع ہوئی جو ہم آپ کی خدمت میں روانہ کر رہے ہیں۔ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ہم زندہ رہے اور کچھ بن پائے تو مسلم لیگ کی خدمت جوش و ولولے سے کریں گے اور خوب چندہ اکٹھا کر کے بھیجیں گے۔

اس خط کا متن' کم مائیگی کے احساس سے بڑا ظرف' پر عزم وعدہ اور تین روپے دو آنے اس ملک کا نظریاتی بیانیہ ہے۔ یتیم خانہ کے مکینوں سے بڑھ کر اپنے گھر اور اپنے سائبان کی حسرت کس کو ہو سکتی ہے۔ بے سروسامانی اور بے وقعتی کا احساس ان سے بڑھ کر کس کو ہو سکتا ہے۔ باپ کے وجود کو ترسے ہوؤں سے بڑھ کر ''ہمارے اچھے قائداعظم'' کو کون امید سے پکار سکتا ہے۔


مدراس سے ہزاروں میل دور لاہور میں ہونے والے جلسے میں پڑھے جانے والے چند جملوں نے امید کی جوت لگا دی تھی ان بچوں کے دلوں میں جن کا شہر مدراس تو کسی صورت اس نئی بننے والی ریاست کا حصہ نہیں ہو سکتا تھا، اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث لیکن جغرافیہ' سیاست' معیشت اور جسے آج کل بار بار ''زمینی حقائق'' ground realities کہا جاتا ہے... سے بہت بڑی چیز ہوتی ہے انسانی ظرف۔ اور مدراس کے یتیم مسلمان بچوں کے ظرف' جذبے' ولولے اور تین روپے دو آنے کے چندے سے لکھا گیا ہے، اس ملک کا بیانیہ۔ کیا ایسی مضبوط بنیاد پر کھڑا گھر کبھی بکھر سکتا ہے؟ کیا ہم ان تین روپے دو آنے کو ضایع ہونے دے سکتے ہیں؟

جی ہاں۔ یہ خبر بھی زبان زدعام ہے کہ اس ملک کے ''کچھ'' لوگوں کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ یہ کچھ اور لوگ ہیں۔ یہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ بھلے سے جغرافیائی طور پر وہ تین روپے دو آنے والے اس ملک میں ہیں۔ مگر صاحب نہیں، یہ اس خواب سے واقف ہی نہیں۔ یہ اس امید کے داعی ہی نہیں۔ یہ اس وعدے کے امین ہی نہیں۔

انھوں نے اس خوبصورت بیانیہ کو ''ہائی جیک'' کر لیا ہے۔ یہ خائن ہیں' غاصب ہیں' ظالم ہیں' کم ظرف ہیں' بے دل ہیں' بے درد ہیں۔ یہ بھول بھلیے ہیں کہ انھیں اپنے دو سو ارب ڈالروں کے ساتھ ان تین روپے دو آنے کا جواب دینا ہو گا' سارے حساب دینا ہوں گے۔ وہ رقم رائیگاں نہیں جانے دی جا سکتی۔

خیر ان غاصبوں کا یوم حساب تو آئے گا اور ''ہم دیکھیں گے''، لیکن تب تک ہم سب پاکستانی شہری اپنی اپنی جگہ اس عظیم تحفے کا' اس محبت کے قرض کا اپنا سا حساب تو دے سکتے ہیں۔ وہ گمنام' بے نشان جنھیں موہوم سی امید بھی نہ تھی کہ نئے بننے والے ''مکان'' میں ان کا بھی کوئی حصہ ہو گا۔ اگر اتنا بڑا دل رکھ سکتے ہیں اور اتنا بڑا حصہ ڈال سکتے ہیں اور ہم جو اس خوبصورت ملک کے خوبصورت موسموں سے ہردم اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں' کیوں نہ اپنے حصے کا عشق نبھائیں' خواب کی تکمیل میں شامل ہو جائیں۔

اس ملک کا بیانیہ طے ہے۔ یہ 200 ارب ڈالروں والوں کا مال غنیمت نہیں ہے۔ اس ملک کی نسلیں امانت دار اور قرض دار ہیں۔ تین روپے دو آنے کی۔ تیرگیٔ شب سے کہیں قد آور ہے امید سحر۔

''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی''
Load Next Story