تصور پاکستان کا خواب ’’تشنہ تکمیل‘‘
تاریخ کی وادی میں سفر کرتے ہوئے شجر سایہ دار بھی ملتے ہیں،
تاریخ کی وادی میں سفر کرتے ہوئے شجر سایہ دار بھی ملتے ہیں، حقائق کی تیز دھوپ بھی گرماتی ہے اور تحقیق کی سنگلاخ وادیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ کسی بھی قوم کا حافظہ ہوتی ہے اور جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے وہ اپنے حافظے سے محروم ہو جاتی ہے۔
سلسلہ روز و شب میں 23 مارچ کا دن بلاشبہ قابل فخر اور قابل رشک ہے۔ یہ دن ہماری زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن مسلمانان ہند نے الگ وطن کے لیے عزم نو اور سعی تازہ کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسے یوم پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ اس دن مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد ریاست کا باقاعدہ مطالبہ پیش کیا گیا۔ اس مطالبے کے لیے مولوی ابوالقاسم فضل حق نے تاریخی قرار داد منٹو پارک لاہور میں پیش کی۔ یہ قرار داد مسلم لیگ کے چار روزہ اجلاس کے دوران پیش کی گئی۔ جو 21 تا 24 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد کیا گیا تھا۔
یوم پاکستان کا ذکر ہو اور علامہ محمد اقبال ؒ کا تذکرہ نہ ہو تو یہ سراسر ناانصافی ہو گی۔پاکستان کا خواب علامہ اقبالؒ نے اس وقت دیکھا جب اسلامیان ہند انتشار و افتراق کا شکار تھے۔ تنسیخ خلافت کے بعد تو گویا شیرازہ ہی بکھر گیا تھا۔ ہند کی ملت اسلامیہ کے سیاسی انتشار کا یہی زمانہ تھا جب علامہ اقبال ؒ نے دوسری گول میز کانفرنس سے واپس آنے کے بعد 21 مارچ 1932ء کو لاہور میں آل مسلم کانفرنس کے صدارتی خطبے میں صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مسلم رہنماؤں کو یہ احساس دلایا تھا کہ ''سیاسی جدوجہد میں پریشانی افکار کا باعث ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کرنیوالے رہنما ہیں۔
قصور قیادت کا ہے عوام کا نہیں، ملت کو اس انتشار میں مورد الزام قرار نہیں دیا جا سکتا، ہندی مسلمانوں کی صرف ایک سیاسی تنظیم ہونی چاہیے، جس کی صوبائی و ضلع شاخیں پورے ملک میں موجود ہیں، اس کا دستور العمل ایسا ہونا چاہیے کہ یہ تنظیم ہر سیاسی مکتبہ فکر کے لیے اقتدار میں آنے اور ملت کی رہنمائی اپنے افکار و طریق کے مطابق کرنے کا ذریعہ بن سکے۔''
علامہ اقبال کی رائے میں یہی ایک راہ ایسی تھی جو ہماری بکھری ہوئی قوتوں کو ہندوستان میں اسلامی مفادات کے تحفظ کے لیے دوبارہ یکجا و منظم کر سکتی تھی۔ اقبال ؒ کے انھی افکارات کے چند سال بعد قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے انگلستان سے واپس آ کر مسلم لیگ کی تنظیم نو کر کے حقیقت کا جامہ پہنایا اور 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس لکھنؤ نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ آل انڈیا تنظیم اقبال کی آرزو تھی۔
تاریخ شاہد ہے کہ اجلاس لکھنؤ (1937ء) سے اجلاس لاہور (1940ء) کا دور انتہائی کٹھن اور پر خطر تھا۔ علامہ اقبال ؒ تو 1938ء میں ملت اسلامیہ کو داغ مفارقت دے گئے مگر مسلمانوں کے بکھرے شیرازے کو مجتمع کر گئے۔ دو اڑھائی سال کے مختصر عرصے میں آل انڈیا مسلم لیگ اس قابل ہو گئی کہ کانگریس کے مقابلے میں مسلمانوں کی ترجمانی کر سکے۔
علامہ اقبال ؒ کے خواب کو تعبیر ملی۔ 23 مارچ 1940ء کو پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مختصر یہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے 7 سال کے قلیل عرصے میں دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی مسلم مملکت معرض وجود میں آ گئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر فرد اقبالؒ کی اس دھرتی کی تعمیر کرتا، ظالم کے ہاتھ کٹتے اور مظلوم کی داد رسی ہوتی لیکن صد حیف کہ ہم آج بھی اس موڑ پر کھڑے ہیں جس طرح ہم 1947ء میں تھے۔
بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی پیداوار تھا اور پاکستان بننے کے بعد وہ نظریہ ختم ہو گیا حالانکہ اگر آپ تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو بلاجھجک اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان ایک تصور کی پیدوار تھا اور دو قومی نظریہ اس تصور کا اہم ترین حصہ تھا، وہ تصور محض دو قومی نظریے تک محدود نہ تھا، اس تصور کا پہلا حصہ دو قومی نظریہ تھا اور دوسرا حصہ پاکستان کو ایک ریاست بنانا تھا ۔
جس میں مسلمان آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں، وہ اپنا نظام حکومت اور نظام تعلیم وضع کریں اور عالمی سطح پر عزت کمائیں۔ اگر آپ قائد اعظم کی تقاریر پڑھیں، مسلم لیگ کی قراردادوں اور مسلم لیگ کے اجلاس میں کی گئی تقریروں پر غور کریں تو ان میں آپ کو پاکستان کا ایک واضح تصور ملتا ہے اور ایک ایسا خواب نظر آتا ہے جو آج بھی تشنہ تکمیل ہے اور جسے منزل کے طور پر ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ دو قومی نظریے کے ساتھ ساتھ پاکستان کیسی ریاست ہو گی اور اس کا جواز کیا ہے یہ سب کچھ نظریہ پاکستان کا حصہ ہے اور عوام نے اسی نظریے اور اسی خواب کے لیے ووٹ دیے تھے۔ ہم نے نظریہ پاکستان کے پہلے حصے پر عمل کر کے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان تو قائم کر دیا لیکن ابھی اس کا دوسرا حصہ تشنہ تکمیل ہے جسے عملی جامہ پہنائے بغیر پاکستان کے تصور کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
اسے شومئی قسمت نہ کہا جائے تو کیا کہیں کہ جو ملک جمہوری اور قانونی انتھک جدوجہد اور لازوال قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا اس ملک میں آج ہر طرف لوٹ مارکا راج ہے۔ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ہمارے حکمران ہیں کہ اپنی ذاتی رنجشوں، سیاسی دشمنیوں اور اقتدار کی چھینا چھپٹی میں مصروف کار ہیں۔
ہماری قومی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بعض عناصر آج بھی اپنے مخصوص ایجنڈے اور مذموم مقاصد کے لیے یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ پاکستان ہندو کے تعصب یا برصغیر کے مسلمانوں کی معاشی ضرورتوں کے تحت بنا تھا۔ جہاں تک اس وسیع اکثریت کا تعلق ہے جس کا نام ''عوام الناس'' ہے اور جو ''راس کماری سے خیبر تک'' تحریک پاکستان کے لیے دن رات کوشاں تھے اس اکثریت کے نزدیک پاکستان کا مطلب ''لاالہ الا اللہ'' کے علاہ اور کچھ نہ تھا اور لاالہ کا مطلب بھی صرف یہی تھا۔
لاالٰہ اعلان ہے فرمانروا کوئی نہیں
حاکم اعلیٰ بجز ذات خدا کوئی نہیں
23 مارچ ہماری قومی زندگی کا اہم ترین دن ہے۔ یہ دن ہمارے لیے نشان منزل بھی اور پیغام عزم بھی۔ یہ دن ہماری تاریخ بھی ہے اور ہمارا نظریہ بھی۔ ہر سال یہ دن ہمیں یہ یاد کرانے کے لیے آتا ہے کہ تم محض ہجوم نہیں ایک کارواں ہو، محض فرد نہیں ایک قوم ہو اور ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ تم نے اپنی آزادی کے سفر کا آغاز کس جذبے، ولولے اور کن عہد و پیمان سے کیا تھا۔ یہ دن یوم تجدید عہد بھی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ ماضی میں بھلے جو ہوا سو ہوا، آج سے یہ عہد کر لیں کہ وطن عزیز کو اقتصادی، سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی سمیت تمام پہلوؤں سے منظم کرنا ہے۔ پاک سرزمین کو تمام اندرونی و بیرونی سازشوں سے نکال کر مستحکم و مضبوط نظام حکومت کی راہ پر گامزن کرنا ہے اور اسے ایک ایسی قوت بنانا ہے جس کی طاقت ہر شخص تسلیم کرے۔
1940ء کی قرار داد پاکستان میں جو نکات اور مندرجات شامل ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ہم من حیث القوم اس قرار داد کو مشعل راہ بنائیں، اکابرین پاکستان کی دی ہوئی سوچ اور فکر کے مطابق وطن عزیز میں سیاسی، ذاتی، گروہی، مسلکی اور ہر قسم کے مفادات سے بالا تر ہو کر اسلامی یکجہتی، قومی اتحاد اور احترام انسانیت کو پروان چڑھائیں۔