خواب سے حقیقت تک
مسلمان اپنی ایک الگ و جداگانہ شناخت رکھتے ہیں، جو زندگی کے ہر شعبے میں اپنا نظریہ رکھتی ہے
بادشاہی مسجد کے جلو میں کھڑا یہ پرشکوہ مینار جو سنگ مرمر، کنکریٹ، پتھر سے بنی ایک عمارت ہی نہیں بلکہ برصغیر کے 15 کروڑ مسلمانوں کی تحریک جدوجہد و نظریہ کی زندہ علامت ہے۔ یہ وہی مقام ہے، جہاں آج سے 70 سال قبل 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک علیحدہ وطن پاکستان کا نظریہ پیش کیا تھا۔ ایک الگ ریاست کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کا جواب بھی بالکل اٹل ہے، جو حقیقت پر مبنی ہے۔
مسلمان اپنی ایک الگ و جداگانہ شناخت رکھتے ہیں، جو زندگی کے ہر شعبے میں اپنا نظریہ رکھتی ہے، جو ہر لحاظ سے ان کے مذہب سے جڑا ہوا ہے، وہ اسی نصب العین کے ساتھ آزاد و خودمختار زندگی گزارنا چاہتے تھے لیکن ہندو یا انگریز غلامی میں رہ کر یہ کسی طور ممکن نہ تھا۔ ہر فاتح قوم کی طرح انگریزوں نے جب برصغیر کے اقتدار پر قدم رکھا تو اس نے وہی سلوک یہاں کے عوام کے ساتھ روا رکھا جو ایک مغلوب قوم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان ذریعہ تعلیم کی تبدیلی سے ہوا، انگریزوں نے سرکاری زبان جو صدیوں سے فارسی تھی، اسے ختم کر کے انگریزی زبان رائج کر دی، جس سے مسلمان یکسر نابلد تھے، پھر وہ اسے پڑھنا مذہبی لحاظ سے کفر بھی سمجھتے تھے چنانچہ وہ تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے چلے گئے۔ ہزاروں مجاہدین نے جنگ آزادی میں بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ شیخ سرہندی و شاہ ولی اﷲ نے واضح کر دیا تھا کہ مسلمان کفر اور اسلام کے درمیان فرق کو سمجھیں، اگر باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ایک الگ شناخت بنانا ہو گی۔ اس انداز فکر کی تائید میں مولانا محمد قاسم ناناتوی اور مولانا رشید احمد گنگوی نے دیوبند تحریک کا آغاز کیا، جہاں مجاہدین وطن کی آزادی کے لیے اکٹھا ہونا شروع ہوئے۔
انگریزوں نے اسے غدر قرار دیا لیکن محکوم قوم کے لیے یہ جنگ آزادی کی ایک صورت، ایک کوشش تھی۔ وطن کی آزادی کی اس کوشش میں ان باغیوں نے دہلی کا رخ کیا اور وہاں موجود انگریز افسروں کو قتل کر کے کمپنی بہادر کی حکومت کے خاتمے اور مغل سلطنت کے آخری تاجدار کو اپنا حکمران تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر سکھوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا، فرنگیوں نے اپنے جدید اسلحہ خانے کی مدد سے جلد حالات پر قابو پا لیا۔ دوبارہ دہلی کو فتح کر کے اپنی حکومت مستحکم کر لی۔ ان حالات میں وہ صوبے زیادہ عتاب کا شکار ہوئے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت میں اپنی قوم کا ساتھ دیا تھا۔
ان صوبوں میں بنگال، گجرات، کانپور، پنجاب، سرحد، سندھ، اودھ، بہار، کانپور اور جھانسی شامل تھے۔ جب کہ نیپال، گوالیار، پٹیالہ اور حیدرآباد دکن نے اپنی قوم سے غداری کر کے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ ہندوؤں سے کوئی باز پرس نہ کی گئی، سارا الزام مسلمانوں کے سر آ گیا، سب سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ مسلمان قوم بنی۔ ان کی املاک ضبط کر لی گئیں، مسجدیں، اسکول نذر آتش کر دیے گئے، سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے، سیکڑوں علمائے کرام کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں، ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کر کے کالا پانی بھیج دیا گیا۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان سیاسی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی زوال کا شکار تھے، وہ مایوسی کے اندھیرے میں بھٹک رہے تھے، ایسے میں سرسید احمد خان روشنی کی کرن بن کر جگمائے۔ آپ نے مسلمانوں کو متحرک اور بیدار کرنے کا فریضہ سنبھالا۔ انگریزوں کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو منظم کیا۔ انھوں نے حالات کا جائزہ لیا۔ بدلتی دنیا پر نظر ڈالتے ہوئے وہ محسوس کر رہے تھے کہ مسلمان اس وقت جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، جب تک مسلمان جدید علوم حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک وہ انگریزوں سے اپنی آزادی نہیں چھین سکتے۔
سرسید نے اسباب بغاوت ہند کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں انھوں نے وہ اسباب تحریر کیے جو اس بغاوت کا سبب بنے۔ انھوں نے انگریزوں سے براہ راست ان کی کوتاہیوں و خامیوں پر بھی لکھا، جس کی بنا پر دونوں قومیں ایک دوسرے سے بدظن ہوئیں۔ اسباب بغاوت کی اشاعت سے انگریزوں کا دل مسلمانوں سے بڑی حد تک صاف ہو گیا۔ سرسید نے اپنی ساری عمر اپنی تحریروں سے مسلمانوں کی صحیح سمت رہنمائی کرتے رہے۔
جب 1885ء میں کانگریس قائم ہوئی تو انھوں نے مسلمانوں کو اس میں شمو لیت سے روکا۔ بعد کے حالات نے ان کے عمل کو درست ثابت کردیا۔ انھوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں، انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ سرسید کی اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک محکوم قوم کو غالب قوم کے درمیان فاصلے ختم کرنے میں مدد ملی۔ پاکستان کی آزادی میں سرسید احمدخان کی علمی کاوشوں کو کبھی نہ بھلایا جا سکے گا۔
نظریہ پاکستان کا بنیادی و اہم عنصر مذہب ہے، مسلمان و ہندو دو قومیں تھیں، دونوں کا طرز زندگی، زبان، مذہبی رواج، شادی بیاہ، کھانے، لباس سب ہی ایک دوسرے سے یکسر علیحدہ ہیں، حتیٰ کہ ہندو اپنے مردے جلاتے اور مسلمان انھیں دفن کرتے ہیں، یعنی ان کا طرز حیات کسی ایک نقطے پر بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا۔ گویا پیدائش سے لے کر موت تک ہندو ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف قوم ہیں۔ ہندو مسلم تہذیب و ثقافت اور فکر و نظر کے درمیان کشمکش مسلم اقلیتی صوبوں میں زیادہ تھی۔
دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی مملکت کے لیے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے ظلم و ستم، درندگی و بربریت کا جس جواں مردی سے مقابلہ کیا، اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستان کے اقلیتی صوبے شروع سے علیحدہ صوبے کے حامی تھے، بنگال سمیت دیگر صوبوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
قائداعظم نے 1929ء میں نہرو رپورٹ کے مقابلے میں اپنے 14 نکات پیش کیے، جس میں تمام صوبوں کو مساوی حق دینے اور اقلیتوں کو مساوی حق دینے کی بات کی۔ برصغیر کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالات کا مکمل جائزہ لے کر عوام کے ساتھ حکومت کے برتاؤ، انصاف، اقلیتوں کے حقوق شامل تھے، قائداعظم کے یہ چودہ نکات پاکستان کا دیباچہ بن گئے، جس نصب العین کے لیے مسلمان عرصہ دراز سے کوششیں کر رہے تھے، اس کے لیے قائداعظم نے مسلمانان ہند کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے منٹو پارک کے اجلاس میں تاریخی نوعیت کی ایک قرارداد پیش کی، جسے قرارداد پاکستان کے نام سے جانا گیا۔
اس قرارداد کو بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ جغرافیائی لحاظ سے وحدتوں کے درمیان قائم کرکے انھیں آزاد ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے، جہاں اکثریت سمیت تمام اقلیتوں کے بھی تمام حقوق مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی اور انتظامی، غرض ہر طرح ان کے حقوق کی نگہبانی کی جائے، انھیں تحفظ فراہم کیا جائے، انھیں اپنی مرضی سے جینے کی آزادی دی جائے۔
قرارداد پاکستان کی منظوری سے ہندوؤں کا اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ مسلمانوں کی قسمت بدل گئی تھی، اسی قرارداد کی بدولت دنیا کے جغرافیے میں ایک علیحدہ وطن بنانے کی تاریخ رقم ہوئی۔ تمام مسلمان بلاتفریق ایک قائد کے پیچھے متحد ہو کر کھڑے ہوئے۔ انھوں نے انگریزوں کو ملک سے نکال باہر کرنے اور علیحدہ وطن کے قیام کی کوششیں تیز کر دیں۔ مینار پاکستان کی شاندار بلندی مسلمانوں کی استقامت کا مظہر ہے، جو منٹو پارک میں رکھے گئے سنگ بنیاد میں پہلی اینٹ ثابت ہوئی۔ اس کی بلند قامتی برصغیر کے مسلمانوں کے بلند حوصلوں کی علامت ہے، جو ایک غلام قوم نے دنیا کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے لیے دکھایا، تاریخ میں ایک مثال قائم کی کہ اگر انسان ہمت کرے تو کیسے کیسے پہاڑ سر کر سکتا ہے۔