میرے نشتر کی زد شریان قیس ناتواں تک ہے

غالباً بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ قرارداد لاہور جیسے ہم قرارداد پاکستان کے نام سے جانتے ہیں


قادر خان March 23, 2016
[email protected]

غالباً بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ قرارداد لاہور جیسے ہم قرارداد پاکستان کے نام سے جانتے ہیں، اس کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیراعلیٰ سر سکندر حیات نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہو گئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔

سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں برصغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی، لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائداعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔ سر سکندر حیات اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور انھوں نے 11 مارچ 1941ء کی پنجاب اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسے (بقول ان کے) تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا، سر سکندر حیات دوسرے سال 1942ء میں 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اس طرح پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے حصار سے نجات مل گئی۔

قائداعظم نے منٹو پارک میں مسلم لیگ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں پہلی بار کہا کہ ''ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے، یعنی دو قوموں کا مسئلہ''۔ انھوں نے کہا کہ ''ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہو گا، اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔'' دوسرے دن ان ہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ یونٹوں، جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔

مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداﷲ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ قرارداد 23 مارچ 1940ء کو اختتامی اجلاس میں منظور کر لی گئی۔ اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی، لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم ممکتوں کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

یہ ایک بڑی تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ قرارداد لاہور، قرارداد پاکستان نہیں تھی بلکہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل خودمختار مملکتیں تھیں۔ ہم ابھی تک 23 مارچ کی قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کہتے ہیں جو کہ ایک تاریخی غلطی ہے۔ واضح طور پر اس قرارداد میں لکھا ہوا ہے اور منظوری بھی اس بات کی دی گئی تھی کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل خودمختار مملکتیں بنائی جائیں گی۔ بالآخر پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل 1946ء دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔

اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی، جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزمان اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قرارداد میں پاکستان میں شامل کیے جانے والے علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی، شمال مشرق میں بنگال اور آسام، شمال مغرب میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا، حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا جو قرارداد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا، اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے23 مارچ 1940ء کے دن کو قرارداد پاکستان کہنا تاریخی غلطی ہے، بلکہ قرارداد پاکستان کی اصل تاریخ 7 اپریل 1946ء ہے۔

1946ء کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی اور یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی تھی۔ قرارداد لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے، کیونکہ انھیں 1941ء میں مسلم لیگ سے فارغ کر دیا گیا تھا۔

دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما ابوالہاشم نے اس قرارداد کی پرزور مخالفت کی اور یہ دلیل دی کہ یہ قراردار، قرارداد لاہور سے بالکل مختلف ہے، جو مسلم لیگی آئین کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، لہٰذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی اختیار نہیں تھا۔

ابوالہاشم نے جب قائداعظم سے ملاقات کی تو قائداعظم نے اس کی وضاحت کی، اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے، لہٰذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے، البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلے کی حتمی ثالث ہو گی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلے کا پورا اختیار ہو گا۔ لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائداعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب 1956ء میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو رہا تھا برصغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خودمختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔

25 سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد البتہ مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں، جن کا مطالبہ قرارداد لاہور کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کے رہنماؤں نے مسلم لیگ کی اس اسکیم کا یہ استدلال دیا کہ ان صوبوں کا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ایک الگ مرکز ہو گا اور ان صوبوں کا جہاں اکثریت میں جداگانہ مرکز ہو گا وہ اکثریت کے مرکز میں، مسلمان اقلیت میں ہوں گے، ایسے ہی اقلیت میں جیسے آج ہیں۔

یا تمام ہندوستان میں ایک مرکز کی صورت میں اقلیت میں ہوں گے، لیکن اس کے برعکس مسلمان اکثریت کے صوبوں کے مرکز میں ان کی اکثریت ہو گی اور وہاں کے فیصلے مسلمان اکثریت کی رائے کے تابع ہوں گے۔ لہٰذا اس صورت میں حالات یوں ہوئے کہ ہندو نظام حکومت کی رو سے (الف) اقلیت کے صوبوں میں مسلمان اقلیت میں رہیں گے، (ب) مرکز میں بھی مسلمان اقلیت میں رہیں گے۔ مسلم لیگ کی اسکیم کی رو سے (الف) اقلیت والے صوبوں میں اقلیت میں رہیں گے، (ب) اپنے مرکز میں یہ اکثریت میں ہوں گے۔

ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اکثریت کی طرف سے ان پر جو زیاتیاں ہو رہی ہیں ان کی مدافعت کا کوئی سامان ان کے پاس نہیں ہے۔ اگر ملک میں دو الگ الگ مراکز ہوں تو جہاں ہندو اکثریت کے مرکز میں مسلم اقلیتیں آباد ہوں گی، وہاں مسلمان اکثریت کے مرکز میں ہندو اقلیتیں ہوں گے، اس لیے ہندو اپنی مسلم اقلیت پر دراز دستی کرتے وقت سو مرتبہ سوچے گا۔

بھارتی ہندو اپنی پوری قوت اس باب پر صرف کرتا رہا کہ کسی طرح اقلیت کے صوبوں کے مسلمانوں کو مشتعل کرکے اس تجویز کی مخالفت کرادے تاکہ اپنی خانہ ساز اکثریت کا طلسم نہ ٹوٹنے پائے، اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑکایا جاتا کہ تم سے تمھارا وطن چھڑایا جائے گا، تمھیں ہجرت کرکے مسلم اکثریت کے صوبوں میں جانا پڑے گا اور اس میں بڑی مصیبت ہوں گی۔ سر دست اس وقت مسلم لیگ اسکیم میں تبادلہ آبادی کا سوال ہی نہیں تھا، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جس ترکِ وطن سے مسلمان کو ڈرایا جاتا ہے، سوچئے تو سہی وہ ترک وطن ہے کیا چیز۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔