ایم ایم اے بھی آئی ایس آئی نے بنائی تھیاسلم بیگ
انصاف نہیں ملا اس لیے سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں، احتساب پر نہیں طریقے پر اعتراض ہے.
سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ نے کہا ہے ایم ایم اے بھی آئی ایس آئی نے بنائی تھی، انہیں عدالت سے انصاف نہیں ملا اس لیے انہیں سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں ہے اس لیے وہ اصغر خان کیس میں اپیل دائر نہیں کریں گے۔
ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے احتساب پر کوئی اعتراض نہیں،ے اعتراض طریقہ کار پر ہے۔ جس طرح میڈیا میں ان کا ٹرائل ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ سب سے برے فوجی ہیں۔ فوج کے مقدمات کو میڈیا پر لا کر چھوڑ دینا غلط ہے۔ میں نے فوج کے کوڈ آف آنر پر عمل کیا اور اپنے سپریم کمانڈر کا حکم مانا۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 کے آرڈیننس کے تحط آئی ایس آئی کو سیاست میں مداخلت کا آئینی راستہ دیا۔ صدر غلام اسحاق خان کا حکم قانونی تھا ۔ایوان صدر میں سیاسی سیل تھا۔ سپریم کورٹ نے میرا یہ موقف تسلیم نہیں کیا کہ صدر اسحاق خان کا حکم قانونی تھا اور وہ یہ حکم دینے کا اختیار رکھتے تھے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ صدر کو اس قسم کا کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں تھا۔ اگر صدر اسحاق کا یہ حکم غلط تھا تو پھر اس کے دیے ہوئے تمام حکم بھی غلط تھے۔
میں عدالت سے کیا توقع رکھوں۔ دیکھتا ہوں کہ پارلیمنٹ اور حکومت کیا کرتی ہے، پارلیمنٹ اگر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو یہ بساط لپیٹ دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل نصیر اللہ بابر نے رحمان ملک کے ذریعے ان کے خلاف سازش کی ۔ وہ یہ سارا معاملہ جنرل وحید کاکٹر کے پاس لے گئے مگر انہوںنے اسے بکواس قرار دیا اور کہا کہ اس سے فوج کے ادارے کی بدنامی مقصود ہے۔ پھر نصیر اللہ بابر نے دو سال انتظار کیا اور اصغر خان کے ذریعے کیس دائر کیا گیا۔ اسد درانی کو دھوکہ دیا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ غلط بیانی کرے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری توہین ہو رہی ہے۔ فوج کو بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ان میں تشویش پائی جاتی ہے ان کے دلوں میں غم و غصہ ہے کہ ان کی توہین ہو رہی ہے۔
ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے احتساب پر کوئی اعتراض نہیں،ے اعتراض طریقہ کار پر ہے۔ جس طرح میڈیا میں ان کا ٹرائل ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ سب سے برے فوجی ہیں۔ فوج کے مقدمات کو میڈیا پر لا کر چھوڑ دینا غلط ہے۔ میں نے فوج کے کوڈ آف آنر پر عمل کیا اور اپنے سپریم کمانڈر کا حکم مانا۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 کے آرڈیننس کے تحط آئی ایس آئی کو سیاست میں مداخلت کا آئینی راستہ دیا۔ صدر غلام اسحاق خان کا حکم قانونی تھا ۔ایوان صدر میں سیاسی سیل تھا۔ سپریم کورٹ نے میرا یہ موقف تسلیم نہیں کیا کہ صدر اسحاق خان کا حکم قانونی تھا اور وہ یہ حکم دینے کا اختیار رکھتے تھے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ صدر کو اس قسم کا کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں تھا۔ اگر صدر اسحاق کا یہ حکم غلط تھا تو پھر اس کے دیے ہوئے تمام حکم بھی غلط تھے۔
میں عدالت سے کیا توقع رکھوں۔ دیکھتا ہوں کہ پارلیمنٹ اور حکومت کیا کرتی ہے، پارلیمنٹ اگر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو یہ بساط لپیٹ دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل نصیر اللہ بابر نے رحمان ملک کے ذریعے ان کے خلاف سازش کی ۔ وہ یہ سارا معاملہ جنرل وحید کاکٹر کے پاس لے گئے مگر انہوںنے اسے بکواس قرار دیا اور کہا کہ اس سے فوج کے ادارے کی بدنامی مقصود ہے۔ پھر نصیر اللہ بابر نے دو سال انتظار کیا اور اصغر خان کے ذریعے کیس دائر کیا گیا۔ اسد درانی کو دھوکہ دیا گیا اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ غلط بیانی کرے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری توہین ہو رہی ہے۔ فوج کو بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ان میں تشویش پائی جاتی ہے ان کے دلوں میں غم و غصہ ہے کہ ان کی توہین ہو رہی ہے۔