ڈیم نہ بنائے تو پانی پر خانہ جنگی کا خدشہ ہے ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام سیمینار

ڈیموں پرسیاست نہ کی جائے، عابد شیر علی، سالانہ18ارب کاپانی ضائع ہوتاہے، چیئرمین ارسا

ڈیموں پرسیاست نہ کی جائے، عابد شیر علی، سالانہ18ارب کاپانی ضائع ہوتاہے، چیئرمین ارسا۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور پاک اوسز کے اشتراک سے پانی کے عالمی دن پر''پانی ہے زندگی'' کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے شرکانے اس بات پر زور دیاہے کہ پاکستان دنیا میں پانی کی شدید کمی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے، ہمیں اپنی ضروریات کوپورا کرنے کیلیے پانی کے ایک ایک قطرے کومحفوظ بنانا ہوگا۔

نئے ڈیموں کی تعمیر پر لاشوں کی سیاست کا خاتمہ کرکے قومی نوعیت کے منصوبوں پرصوبائیت سے نکل کر قومی سوچ کو پروان چڑھاناہوگا، اگر پانی کے نئے ذخائر کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پرٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو پانی کے ایشو پر خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے،اس ضمن میں حکومت سمیت میڈیا اورسول سوسائٹی کواپنا کردار ادا کرناہوگا۔ وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابدشیرعلی نے اپنے خطاب میں کہاکہ آئندہ آٹھ دس سال کے دوران پانی کے نئے ذخائر نہ بنائے گئے تو پاکستان میں تباہی آئے گی، ملک میں پانی کے ذخائرساڑھے 4 ہزاربلین ایکڑفٹ سے کم ہوکر ایک ہزار بلین ایکڑ فٹ رہ گئے۔

زیرزمین پانی کی سطح میں کمی سے صوبوں کے درمیان خانہ جنگی کا خطرہ ہے، سیاسی جماعتیں ڈیموں پر لاشوں کی سیاست کرنے کے بجائے ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں، پانی جیسے اہم ایشوز پر صوبائی تعصب سے باہر نکل کر پاکستانیت کی نظر سے سوچنا ہوگا، حکومت زیرزمین پانی کے ذخائر بڑھانے اور توانائی بحران کے خاتمے کیلیے نئے ڈیموں کے منصوبوں پر کام کررہی ہے، کالاباغ ڈیم کے حوالے سے صوبوں کی قراردادوں کااحترام کرنا وفاق کی مجبوری ہے، دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلیے اراضی ایکوائر کرنے کا مرحلہ آئندہ ماہ تک مکمل ہوجائے گا۔

امید ہے اس ڈیم کی تعمیر کیلیے جلدکام شروع کردیں گے اور آئندہ6سال میں یہ منصوبہ مکمل کیاجائے گا،اکھوڑی ڈیم کی تعمیر کیلیے صوبوں سے مشاورت جاری ہے، ڈیموں کی تاخیرمیں اب کوئی گنجائش نہیں کیونکہ جس قدرتاخیر ہوگی،اتناہی لاگت میں اضافہ ہوگا،نیلم جہلم منصوبہ 289 بلین سے شروع ہوا تھا جوتاخیر کے باعث 414 بلین تک چلا گیا،اہم ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل ضروری ہے، اس ضمن میں نااہلی یا کوتاہی پر سزاوجزا کے نظام کا ہونابھی ضروری ہے، پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں جوبھی اہم منصوبے شروع کیے جاتے ہیں ان پر بے جا تنقید اوراعتراضات کیے جاتے ہیں۔

اس وقت اربوں مالیت کاپاک چائنہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع ہوا ہے لیکن کچھ لوگ اس پر بھی سیاست کرتے ہیں حالانکہ اس کی تکمیل سے ملک کی تقدیربدل جائے گی اورپاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا۔ ایڈیشنل سیکریٹری وزارت پانی و بجلی حسن ناصرجامی نے کہاکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ صوبوں کے مابین اتفاق رائے نہ ہونے سے ہم پانی کے بڑے ذخائرضائع کررہے ہیں بلکہ آئے روز سیلاب کی صورت میں انسانی جانوں اور اربوں ڈالر کانقصان بھی برداشت کرتے ہیں ۔

وزارت پانی وبجلی نے نیشنل فلڈپروٹیکشن پلان مرتب کیا ہے جو جلد مشترکہ مفادات کونسل سے منظور ہوجائے گا۔ چیئرمین ارسا راؤ ارشاد علی خان نے کہا پاکستان میں سالانہ 18 ارب ڈالر کا پانی ضائع ہورہا ہے، اس وقت 180 ایکڑملین فٹ پانی میں 97 ملین ایکڑ فٹ نہروں میں جبکہ30ملین ایکڑ فٹ بغیر استعمال کے ضائع ہورہا ہے، ہم بحیثیت قوم دو جمع دو کو چار نہیں مان رہے جس کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں، ہمارا بچاؤ صرف انڈس ریور سسٹم سے ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پانی کی قدر کریں اور پانی کی اسٹوریج کیلیے جلد سے جلد آبی ذخائر بنائیں،پاک اوسز کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ کاظم برنی نے کہاکہ ہماراادارہ تھرسمیت اندرون سندھ کے متعدد اضلاع میں قحط اور خشک سالی سے متاثرہ افراد کوصاف اور میٹھے پانی سمیت سولر بجلی کی سہولیات فراہم کررہاہے،تھر میں کھارے پانی کو فلٹریشن پلانٹ کے ذریعے میٹھے پانی میں تبدیل کرنے سے نہ صرف مقامی آبادی کو صافی پانی مل رہا ہے بلکہ آلودہ پانی پینے سے پیدا شدہ بیماریوں میں بھی کمی آرہی ہے،پاک اوسز نے پانی کی تھیم کو روزگار کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اب تک 3 ہزار سے زائد افراد کو ملازمتیں فراہم کی ہیں۔

اندرون سندھ ایشیا کا سب سے بڑا پلانٹ لگایاہے،اس سے روزانہ 2ملین گیلن پانی حاصل کیا جاتا ہے جبکہ 20 ملین گیلن یومیہ حاصل کرنے کے دوسرے پلانٹ پرکام تیزی سے جاری ہے، اس منصوبے کے تحت جانوروں کو بھی صاف پانی فراہم کیا جاسکے گا، اس کے علاوہ ہمارا ادارہ داتا دربار، عبداللہ شاہ غازی، سیہون شریف درباروں سمیت متعدد سکولوں کو واٹر فلٹریشن پلانٹس عطیہ کرچکے ہیں، سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں میں 15 سو سولر پلانٹس لگائے گئے ہیں۔سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا پاکستان میں نہ صرف زیرزمین پانی میں کمی آرہی ہے بلکہ سیلابی پانی روکنے اور انھیں محفوظ بنانے کیلیے ڈیموں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

کالا باغ ڈیم نہ بننے سے عوام کو سالانہ 195 ارب روپے کا بوجھ پڑ رہا ہے، خیبرپختونخوا کے عوام کاکالاباغ ڈیم کیخلاف ہونے کا تاثر درست نہیں کیونکہ یہ سب فیصلے حکومتی ٹولہ کرتی ہے اور اس میں عوام کی رائے شامل نہیں ہوتی، کے پی کے میں90 فیصد لوگ کالاباغ ڈیم کے حق میں ہیں، صوبے میں 2008 کے انتخابات میں حکمران جماعت کو کل رجسٹرڈ ووٹوں میں سے محض 5.6 فیصد ووٹ ملا اور 94 فیصد اس کے خلاف پڑا، اب اگر وہ کالاباغ ڈیم بنانے پر راضی نہ ہو تو یہ پورے صوبے کی رائے کیسے ہوسکتی ہے، کالاباغ ڈیم بن جاتا تو وہ تربیلا اور منگلا ڈیم کی طرح بجلی پیدا کررہا ہوتا،یہ منصوبہ نہ ہونے سے بجلی کی ضرورت دیگرذرائع سے پوری کی جارہی ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔

پاکستان میں جائیکا کے چیف ریپریزنٹیٹیو توجو نے کہاکہ دنیا میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور اثرات کے باعث پانی کی قلت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اس صورتحال میں ہمیں پانی کے بحران پر قابو پانے کیلیے فوری اور ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں پانی کے مناسب استعمال کیلیے عوامی شعور و آگاہی کے پروگرام مرتب کرنے چاہئیں، دنیا کو اس وقت پانی کے ذخیروں کومحفوظ بنانا ہوگا،بارانی زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رائے نیاز نے کہاکہ ہمیں اپنی توانائی اور خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے پانی کے ہر قطرے کو محفوظ بنانا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مناسب حکمت عملی نہ ہونے کے باعث پانی کی بڑی مقدار ضائع ہو رہی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈواٹرریسورسز ڈاکٹر اشفاق احمد نے کہاکہ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں، اگر چاند پر بھی پانی ہے تو وہاں زندگی کا وجود ممکن ہو سکتا ہے، 1956میں پاکستان میں5600 کیوبک میٹرپانی تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیاہے، اگر یہی صورتحال رہی اورملک میں درختوںکی کٹائی جاری رہی توپانی کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہو جائے گی، ایک طرف ہمیں پانی کی سپلائی کو بڑھانا ہے تو دوسری طرف دستیاب پانی کابہتر اور مناسب استعمال بھی یقینی بنانا ہے، یہ صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ سول سوسائٹی سمیت ہرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی مشترکہ ذمے داری ہے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان خان نے کہاکہ پانی کے بغیر زندگی ناممکن ہے، قدیم یونان اوررومنز کے دور میں پانی کو خدا کا نام بھی دیاگیا کیونکہ اس زمانے میں سمندر بہت زیادہ وسیع تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ پانی کا بھی کوئی نگرانی اور نظام چلانے والا ہے، پاکستان میں پانی کادانشمندانہ استعمال یقینی بنانے کی ضرورت ہے، صوبوں کے مابین مسائل کے باعث ملک میں اب تک واٹر پالیسی موجود نہیں۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ڈپٹی سیکریٹری ایڈمن محمد سلیم خٹک نے کہاکہ ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے ورلڈ واٹرڈے کے موقع پر سیمنار کا انعقاد بہت بڑا اقدام ہے حالانکہ اس اہم موقع پر سیمینار کا انعقاد وزارت پانی و بجلی یا وزارت موسمیاتی تبدیلی کو کرنا چاہیے تھا، موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلیے وزارت اہم اقدامات اٹھارہی ہے جن میں تمام صوبوں کے ساتھ باہمی مشاورت سے منصوبے تیارکیے جارہے ہیں تاکہ ڈونرزایجنسیوں سے فنڈنگ حاصل کرکے ان پر باضابطہ کام کیاجاسکے۔
Load Next Story