لیکن فنکار کی سرحد ہوتی ہے

جدید دور کے انسانوں نے اپنی سائنسی ترقی کا نتیجہ دیکھ لیا اور مزید کچھ دیکھنے کا حوصلہ نہیں رہا

Abdulqhasan@hotmail.com

BERLIN:
جب سے ایک پاکستانی سائنس دان نے وطن عزیز کے تحفظ کے لیے ایٹم بم بنایا ہے تب سے ہمارے پڑوسی مہربانوں کا لہجہ ہی بدل گیا ہے۔ ایٹم بم کیا کرتا ہے اس کا اثر پہلا بم چلانے والے امریکا نے دنیا کو دکھا دیا ہے۔ لاکھوں انسان اس بم کی آگ میں جل گئے اور تباہ ہو گئے اس کے بعد امریکا کی تسلی ہو گئی اور اس نے دوسری بار اس کا استعمال نہیں کیا کیونکہ اس کے ساتھ امریکا سے باہر کی دنیا کی تسلی بھی ہو گئی تھی۔

جدید دور کے انسانوں نے اپنی سائنسی ترقی کا نتیجہ دیکھ لیا اور مزید کچھ دیکھنے کا حوصلہ نہیں رہا لیکن بدنیت انسانوں نے اس تباہ کن ہتھیار چلانے سے توبہ نہیں کی اور دنیا کے پانچ ملک ایٹمی طاقت بن گئے جن میں ہمارا پڑوسی بھی شامل تھا اور اس کے تیور بھی ایٹمی تھے۔

پاکستانیوں نے اس یقین کے بعد کہ ان کا پڑوسی ان پر بم مارنے سے نہیں ہچکچائے گا انھوں نے خود بھی جوابی بم بنانے کی خواہش کی اور ایک پاکستانی سائنس دان نے اپنی قوم کی یہ حسرت پوری کر دی اور بھارت سے بہتر بم بنا کر اپنی قوم کو پیش کر دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی عمر بھر کی سائنسی تعلیم قوم کی خدمت میں ایک تحفہ بنا کر پیش کر دی جس کے بعد دنیا ہی بدل گئی اور اب جو بھی پاکستان آتا ہے وہ اتنا اداس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں حاضری میں مزید تاخیر ہو گئی تو اس کی جان پر بن جائے گی۔ فراق کے ان لمحوں کو کم از کم کرنے کے لیے فضائی اور زمینی راستے سبھی استعمال ہوتے ہیں اور ہمارا جو 'مہربان' بھی قدم رنجہ فرماتا ہے وہ سراپا محبت بن کر آتا ہے۔

پاکستان میں آنے والے جو فنکار ہوتے ہیں وہ اپنایا ظاہر کرنے کے لیے ایک جملہ ضرور کہتے ہیں کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ بھارت کی اداکارہ زینت امان جس کو زندہ دیکھنے کا پاکستانیوں کو بہت شوق تھا وہ خود بخود آ گئی مگر عمر کے اس حصے میں کہ وہ خود بار بار کہتی رہی کہ اب تو میرے بچے بھی جوان ہیں لیکن پاکستانی اس بوسیدہ عمارت کو دیکھ کر خوش ہو گئے۔


زینت امان صاحبہ نے پریس سے باتیں کرتے ہوئے وہ پرانا جملہ بھی کہا کہ فن اور فنکار کا کوئی وطن اور کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ہمارے بھارتی دوست مدت سے یہ کلمہ دہرا رہے ہیں۔ ایک محفل میں جب ایک بھارتی فنکار نے یہ کہا کہ فن اور فنکار کا کوئی وطن نہیں ہوتا تو سامعین میں ہمارے بزرگ کیپٹن ضمیر جعفری بھی موجود تھے انھوں نے بھارتی فنکار سے کہا کہ فن کا کوئی وطن ہو یا نہ ہو فنکار کا وطن ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے شاعر اور دانشور نے اس بھارتی نعرے کی ہوا ہی نکال دی لیکن لگتا ہے بھارتی فنکاروں کی یاد دہانی کے لیے ان کے اس نعرے کے جواب میں یہ بات ہر بار کہنی چاہیے۔

ہمارا وطن اپنی نوعیت کا پہلا ملک ہے۔ ایک بھرپور نظریاتی ملک لیکن اگر نظریاتی نہ بھی ہوتا تب بھی ہر ملک کی اپنی سرحد اور عزت ہوتی ہے اور وہ ہر سیاح کا وطن نہیں ہوتا۔ گانا بجانا بھارت کے مذہب کا حصہ ہے۔ ایک بار کسی پاکستانی نے بھارت کے رقص و سرود پر اعتراض کیا تو بھارتی ہندو جناب کلدیپ نئیر نے اس کے بعد ایک پرائیویٹ محفل میں کہا کہ بھائی یہ رقص و سرود تو ہمارے مذہب اور عبادت کا حصہ ہے یہ کوئی عیاشی نہیں ہے۔ اس لیے بھارتی کسی بھی دوسرے ملک کے بارے میں کچھ بھی کہیں انھیں ہر ملک کے کلچر کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اب کوئی ملک بھی اتنا سیدھا سادہ نہیں رہا کہ اس کے لوگ ایسی باتوں میں آ جائیں۔

بھارت کے پاس کاروبار ہے ایک بڑی آبادی اور تجارتی منڈی ہے ایک تاریخ بھی ہے اس لیے اسے اس کے پاس جو کچھ ہے وہی قابو میں رکھے تو اس میں اس کی سلامتی ہے۔ یہ گانے بجانے سے سرحدیں شاید کسی ملک کی متاثر ہوتی ہوں لیکن پاکستان کی نہیں کہ یہ ملک اپنی ترکیب میں ایک خاص ملک ہے اور اس کے پیچھے ایک نظریہ ہے جس نے دنیا بدل دی ہے۔

ہم پاکستانیوں خصوصاً نئی نسل کو بہت محتاط ہونا چاہیے اور بھارت کے بارے میں تو حد سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک ہر لحاظ سے ہمارے خلاف ہے اب وہ ہمیں جنگ کی دھمکی تو نہیں دے سکتا کیونکہ جنگی اسلحہ اور فوج کے جذبے اور قربانی کی روایت میں ہم اس سے بہت آگے ہیں اور وہ یہ سب جانتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کا فہم رکھنے والوں کو کسی حد تک اب یقین ہے کہ ان دو ملکوں میں اب جنگ نہیں ہو گی اور گانے بجانے والے ہی باہمی رابطے رہیں گے، ویسے بھارت تو ہمارے فنکاروں سے جو برا سلوک کرتا ہے اس کو دیکھ کر تو ہمارے فنکاروں کو اپنی سرحدوں کی عزت کرنی چاہیے اور بھارت جیسے ملک کا دورہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔

ہمیں یہ بات یاد رہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' نے ہمارے ہاں مداخلت کر رکھی ہے۔ بلوچستان میں اس نے بڑی تباہی مچائی اور اب بعض سیاسی جماعتوں میں بھی وہ گھس چکی ہے۔ ہمیں اسے فن کا راستہ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کے رقص و سرود کو صرف مجرا ہی سمجھنا چاہیے۔
Load Next Story