قانون سازی کی مبادیات
بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جس طرح ہر وکیل ماہر قانون (Jurist) نہیں ہوتا
KARACHI:
یہ 1973-74 کا واقعہ ہے۔ میں LL.B کررہا تھا۔ اصول قانون (Jurisprudence) بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم پڑھایا کرتے تھے۔ وہ ایک بلند پایہ ماہر قانون تھے، جن کی قانونی موشگافیوں اور باریکیوں پر گہری نظر تھی۔ وہ قانون کے ارتقا کے مدارج کی نزاکتوں کا بھی بخوبی ادراک رکھتے تھے۔ بھٹو مرحوم سے ان کی رفاقت 1955 میں اس وقت قائم ہوئی تھی، جب دونوں نے ایک ساتھ اس درسگاہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس زمانے میں آئین سازی کا کام زور شور سے جاری تھا، بھٹو مرحوم آئین کی مختلف شقوں پر ان سے مشاورت کیا کرتے تھے۔
بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جس طرح ہر وکیل ماہر قانون (Jurist) نہیں ہوتا، اسی طرح ہر عالم دین فقیہہ نہیں ہوتا۔ قانونی موشگافیوں کو سمجھتے ہوئے زمان ومکان کی مناسبت سے ان کی تشریح کرنا، قانون کے تحت عدالتوں میں پیروی کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ یہی کچھ معاملہ دین کا ہے۔
دین کے طے شدہ اصولوں کے تحت فتوے جاری کرنا، دین کے اسرار و رموز کی زمان و مکاں میں تبدیلی کے لحاظ سے تشریح و تفہیم کرنا اور دین کے بنیادی احکامات کی روشنی میں مروجہ قوانین میں ترمیم واضافہ کرنا دو الگ معاملات ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ قوانین معاشروں کی ضروریات کے نتیجے میں تشکیل و ترتیب دیے جاتے ہیں۔ جب معاشرہ آگے کی جانب بڑھتا ہے، تو اسے درپیش معاملات کو ہموار انداز میں چلانے کے لیے قوانین کے ڈھانچہ میں ردوبدل لازم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مروجہ پرانے قوانین میں مناسب ترامیم واضافہ کے ساتھ نئے قوانین کی تشکیل ہر زمانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے قانون سازی کی خاصی سہولیات فراہم کی ہیں۔ فقہا کے مطابق قرآن اور حدیث کے علاوہ قانون سازی کے 5 دیگر ذرایع یا Sources بھی ہیں۔ مگر اجماع اور قیاس پر تمام فقہین متفق ہیں۔ 11 ویں صدی تک علما اور فقہا قرآن اور حدیت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اجماع اور قیاس کی بنیاد پر مروجہ قوانین کا جائزہ لینے کے علاوہ حسب ضرورت نئے قوانین وضع کرتے رہے۔ 12 صدی میں یہ عمل مسلم ریاستوں کے بعض اندرونی اسباب کے باعث سست پڑتا چلا گیا۔
جب کہ 1258 میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے بعد سے مکمل طور پر رک گیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ان 9 سو برسوں کے دوران مسلم معاشرے عالمی ارتقائی عمل کے زیراثر خاصے آگے بڑھ چکے ہیں، مگر ان پر نافذالعمل دینوی قوانین اسی مقام پر جامد و ساکت ہیں، جہاں 12 ویں صدی میں یہ سلسلہ رکا تھا۔ اس طرح مسلم معاشروں اور ان پر نافذالعمل قوانین کے درمیان کئی صدیوں پر محیط خلیج حائل ہوگئی ہے۔ حالانکہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ اجماع یا قیاس کے عمل کو کسی مخصوص دور میں جاری نہ رکھنے کے بارے میں کوئی احکام دیے گئے ہوں۔
اس سلسلے میں کویت یونیورسٹی کے پروفیسر بسم عجمی کا کہنا ہے کہ 1258 میں جب تاتاریوں نے بغداد کو تاراج کیا، اس وقت شہر میں ایک ہزار سے زائد تحقیقی مراکز قائم تھے، جو دینوی اور دنیاوی امور پر تحقیق میں مصروف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ نسخے کسی طور محفوظ ہوجاتے تو تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانے میں خاصے معاون ثابت ہوتے۔
مگر بغداد شہر کی تباہی سے صرف اہل علم ودانش کی قتل وغارت گری ہی نہیں ہوئی، بلکہ کتب خانے اور تحقیقی مراکز بھی نذر آتش ہوگئے اور جو بچا وہ دریا برد کردیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد مسلمانوں میں کوئی ایسا محقق پیدا نہیں ہوسکا، جو 1258 میں ٹوٹنے والے سلسلے کی کڑیوں کو دوبارہ جوڑ سکے۔ نتیجتاً مسلمان لکیر کے فقیر بنے 12 ویں صدی تک ہونے والی تحقیق کو ہی حتمی سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے فکری ارتقا کا سلسلہ رک گیا ہے اور مسلم معاشروں میں عقیدہ اور طرز حیات ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے ہیں۔
پروفیسر بسم عجمی کی طرح بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم بھی اس سوچ کے حامل تھے کہ اسلام کی حرکیات (Dynamism) اس کے قانون سازی کے طریقہ کار سے مشروط ہے۔ جس پر قدغن اس کی فعالیت کو متاثر کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فقہے جو اسلام کی تکمیل کے سو برس بعد تشکیل پائے، اس زمانے کے معروضی حالات کا احاطہ کرتے ہیں۔
لیکن دنیا چونکہ تسلسل کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے، اس لیے مسلم معاشروں اور ان پر نافذالعمل فقہی قوانین میں تقریباً ہزار برس کی مسافت پیدا ہوگئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر قوانین آج کے دور کی ضروریات کو پورا کرنے میں قاصرہونے کے سبب Irrelevant ہوچکے ہیں اور تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا اجماع کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ ہوگئی ہے۔ قرآن اور حدیث نے اجماع اور قیاس کو کسی مخصوص زمانے کے ساتھ مشروط نہیں کیا تھا، اس لیے قانون سازی کی ان اہم Sources پر قدغن اور ہزار برس قبل کی گئی تحقیق پر اصرار ناقابل فہم ہے۔
بسم عجمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اٹھارویں صدی میں جنم لینے والے عبدالوہاب نجدی نے ماضی میں ترتیب دیے جانے والے فقہوں سے انکار کرتے ہوئے خود کو غیر مقلد کہا۔ حالانکہ وہ حنبلی فقہہ کے ایک عالم ابن تیمیہ سے خاصے متاثر تھے، جنھوں نے حنبلی فقہہ کو مزید وسعت عطا کی تھی۔ انھوں نے قانون سازی کی اس Dynamics کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا جو اسلامی قوانین کی تشکیل میں قوت محرکہ یعنی Deriving force ہوا کرتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے نزدیک اجماع اور قیاس غیر ضروری ہیں اور صرف انھی قوانین کو حکم تصور کیا جاتا ہے، جن کی تفسیر قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ اس تصور نے مسلمانوں کے عقائد کی تطہیر کے عمل کو تو آگے بڑھایا۔ لیکن مسلم معاشروں کے لیے جدید خطوط پر استوار قوانین کا معاملہ بہرحال جمود کا شکار رہا۔
اس وقت چند سوالات ایسے ہیں، جن پر مسلم ماہرین قوانین (Jurist)، علمائے دین اور سماجی اسکالرز کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، کرہ ارض پر آباد مسلم کمیونٹی، آج جس فکری ہیجان میں مبتلا ہے، اس سے نکلنے اور جدید دنیا کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اسلام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
دوئم، سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں ہر روز جو نئی اور ہوشربا تخلیقات و ایجادات سامنے آرہی ہیں اور جن کے نتیجے میں دنیا کا سیاسی، سماجی، ثقافتی اور انتظامی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے، مسلم معاشرے اس تبدیل ہوتی دنیا میں خود کو Adjust کرنے کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دے سکتے ہیں؟ سوئم، اسلام نے اجماع اور قیاس کی شکل میں قانون سازی کے لیے جو سہولیات مہیا کی ہیں، آیا ان سے استفادہ کرتے ہوئے قوانین کے ایک نئے ڈھانچہ کی تشکیل ضروری ہے؟ یا پھر فقہا نے ہزار برس قبل جو اصول وضوابط طے کردیے تھے، وہی کافی ہیں؟
اس وقت مسلم دنیا میں اتحاد ویگانت کی بہت باتیں کی جاتی ہیں۔ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ OIC کی ناقص کارکردگی اور غیر فعالیت پر رنج وغم کا اظہار بھی معمول کی بات بن گئی ہے۔ مگر 56 مسلم ممالک کی حکومتوں نے باہمی اشتراک سے تمام فقہوں، مسالک اور فرقوں کے علماکو ایک چھت تلے جمع کرکے ان سے جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ متفقہ قوانین کی تشکیل کا کوئی انسٹیٹیوٹ قائم کرنے پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا۔
المیہ یہ ہے کہ کبھی سنی اور شیعہ علما نے ساتھ بیٹھ کر اختلافی قوانین کے لیے درمیانی راستہ نکالنے اور متفقہ قوانین کو جدید بنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں اس وقت ایسے قوانین موجود نہیں، جو جدید دنیا میں ہونے والی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں کا احاطہ کرسکیں۔ جن قوانین کو اسلامی قرار دے کر ان پر عمل کرنے کے لیے اصرار کیا جاتا ہے، وہ عالمی سطح پر فعالیت رکھنے کے بجائے کسی ایک مسلک یا فرقہ کی نمایندگی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اپنے روزمرہ کے امور چلانے کے لیے مغرب میں تشکیل کردہ قوانین کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، جنھیں علما قبول نہیں کرتے۔
آج ان گنت ایسے مسائل اور ایشوز ہیں، جن کا فوری حل کیا جانا معاشرتی ڈھانچے کی فعالیت کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ گھر کے اندر اور باہر ہونے والی زیادتیاں اور بڑھتے ہوئے صنفی امتیازات معاشرتی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی نصف آبادی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں آزادانہ حصہ لینے سے قاصر ہے۔
اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیاں اور قومی پارلیمان اس سلسلے میں قانون سازی کرتی ہیں، تو علما ان قوانین کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں۔ ان کے خاتمہ کے لیے ہر حد تک جانے پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ علما خودکش حملہ کرنے والوں، خواتین پر تیزاب پھینکنے والوں، ان کی سربازار تذلیل کرنے والوں اور کاری قرار دے کر قتل کرنے والوں کے خلاف اس طرح کبھی متحد نہیں ہوئے، جس طرح سماجی ناانصافیوں کے خاتمے کے قوانین کے خلاف ہو رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے عزائم ملک میں ایک مثبت اور ترقی دوست معاشرے کا قیام نہیں بلکہ سماجی جمود کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول ہے۔
یہ 1973-74 کا واقعہ ہے۔ میں LL.B کررہا تھا۔ اصول قانون (Jurisprudence) بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم پڑھایا کرتے تھے۔ وہ ایک بلند پایہ ماہر قانون تھے، جن کی قانونی موشگافیوں اور باریکیوں پر گہری نظر تھی۔ وہ قانون کے ارتقا کے مدارج کی نزاکتوں کا بھی بخوبی ادراک رکھتے تھے۔ بھٹو مرحوم سے ان کی رفاقت 1955 میں اس وقت قائم ہوئی تھی، جب دونوں نے ایک ساتھ اس درسگاہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس زمانے میں آئین سازی کا کام زور شور سے جاری تھا، بھٹو مرحوم آئین کی مختلف شقوں پر ان سے مشاورت کیا کرتے تھے۔
بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جس طرح ہر وکیل ماہر قانون (Jurist) نہیں ہوتا، اسی طرح ہر عالم دین فقیہہ نہیں ہوتا۔ قانونی موشگافیوں کو سمجھتے ہوئے زمان ومکان کی مناسبت سے ان کی تشریح کرنا، قانون کے تحت عدالتوں میں پیروی کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ یہی کچھ معاملہ دین کا ہے۔
دین کے طے شدہ اصولوں کے تحت فتوے جاری کرنا، دین کے اسرار و رموز کی زمان و مکاں میں تبدیلی کے لحاظ سے تشریح و تفہیم کرنا اور دین کے بنیادی احکامات کی روشنی میں مروجہ قوانین میں ترمیم واضافہ کرنا دو الگ معاملات ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ قوانین معاشروں کی ضروریات کے نتیجے میں تشکیل و ترتیب دیے جاتے ہیں۔ جب معاشرہ آگے کی جانب بڑھتا ہے، تو اسے درپیش معاملات کو ہموار انداز میں چلانے کے لیے قوانین کے ڈھانچہ میں ردوبدل لازم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مروجہ پرانے قوانین میں مناسب ترامیم واضافہ کے ساتھ نئے قوانین کی تشکیل ہر زمانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے قانون سازی کی خاصی سہولیات فراہم کی ہیں۔ فقہا کے مطابق قرآن اور حدیث کے علاوہ قانون سازی کے 5 دیگر ذرایع یا Sources بھی ہیں۔ مگر اجماع اور قیاس پر تمام فقہین متفق ہیں۔ 11 ویں صدی تک علما اور فقہا قرآن اور حدیت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اجماع اور قیاس کی بنیاد پر مروجہ قوانین کا جائزہ لینے کے علاوہ حسب ضرورت نئے قوانین وضع کرتے رہے۔ 12 صدی میں یہ عمل مسلم ریاستوں کے بعض اندرونی اسباب کے باعث سست پڑتا چلا گیا۔
جب کہ 1258 میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے بعد سے مکمل طور پر رک گیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ان 9 سو برسوں کے دوران مسلم معاشرے عالمی ارتقائی عمل کے زیراثر خاصے آگے بڑھ چکے ہیں، مگر ان پر نافذالعمل دینوی قوانین اسی مقام پر جامد و ساکت ہیں، جہاں 12 ویں صدی میں یہ سلسلہ رکا تھا۔ اس طرح مسلم معاشروں اور ان پر نافذالعمل قوانین کے درمیان کئی صدیوں پر محیط خلیج حائل ہوگئی ہے۔ حالانکہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ اجماع یا قیاس کے عمل کو کسی مخصوص دور میں جاری نہ رکھنے کے بارے میں کوئی احکام دیے گئے ہوں۔
اس سلسلے میں کویت یونیورسٹی کے پروفیسر بسم عجمی کا کہنا ہے کہ 1258 میں جب تاتاریوں نے بغداد کو تاراج کیا، اس وقت شہر میں ایک ہزار سے زائد تحقیقی مراکز قائم تھے، جو دینوی اور دنیاوی امور پر تحقیق میں مصروف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ نسخے کسی طور محفوظ ہوجاتے تو تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانے میں خاصے معاون ثابت ہوتے۔
مگر بغداد شہر کی تباہی سے صرف اہل علم ودانش کی قتل وغارت گری ہی نہیں ہوئی، بلکہ کتب خانے اور تحقیقی مراکز بھی نذر آتش ہوگئے اور جو بچا وہ دریا برد کردیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد مسلمانوں میں کوئی ایسا محقق پیدا نہیں ہوسکا، جو 1258 میں ٹوٹنے والے سلسلے کی کڑیوں کو دوبارہ جوڑ سکے۔ نتیجتاً مسلمان لکیر کے فقیر بنے 12 ویں صدی تک ہونے والی تحقیق کو ہی حتمی سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے فکری ارتقا کا سلسلہ رک گیا ہے اور مسلم معاشروں میں عقیدہ اور طرز حیات ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے ہیں۔
پروفیسر بسم عجمی کی طرح بیرسٹر کمال فاروقی مرحوم بھی اس سوچ کے حامل تھے کہ اسلام کی حرکیات (Dynamism) اس کے قانون سازی کے طریقہ کار سے مشروط ہے۔ جس پر قدغن اس کی فعالیت کو متاثر کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فقہے جو اسلام کی تکمیل کے سو برس بعد تشکیل پائے، اس زمانے کے معروضی حالات کا احاطہ کرتے ہیں۔
لیکن دنیا چونکہ تسلسل کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے، اس لیے مسلم معاشروں اور ان پر نافذالعمل فقہی قوانین میں تقریباً ہزار برس کی مسافت پیدا ہوگئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر قوانین آج کے دور کی ضروریات کو پورا کرنے میں قاصرہونے کے سبب Irrelevant ہوچکے ہیں اور تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا اجماع کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ ہوگئی ہے۔ قرآن اور حدیث نے اجماع اور قیاس کو کسی مخصوص زمانے کے ساتھ مشروط نہیں کیا تھا، اس لیے قانون سازی کی ان اہم Sources پر قدغن اور ہزار برس قبل کی گئی تحقیق پر اصرار ناقابل فہم ہے۔
بسم عجمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اٹھارویں صدی میں جنم لینے والے عبدالوہاب نجدی نے ماضی میں ترتیب دیے جانے والے فقہوں سے انکار کرتے ہوئے خود کو غیر مقلد کہا۔ حالانکہ وہ حنبلی فقہہ کے ایک عالم ابن تیمیہ سے خاصے متاثر تھے، جنھوں نے حنبلی فقہہ کو مزید وسعت عطا کی تھی۔ انھوں نے قانون سازی کی اس Dynamics کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا جو اسلامی قوانین کی تشکیل میں قوت محرکہ یعنی Deriving force ہوا کرتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے نزدیک اجماع اور قیاس غیر ضروری ہیں اور صرف انھی قوانین کو حکم تصور کیا جاتا ہے، جن کی تفسیر قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ اس تصور نے مسلمانوں کے عقائد کی تطہیر کے عمل کو تو آگے بڑھایا۔ لیکن مسلم معاشروں کے لیے جدید خطوط پر استوار قوانین کا معاملہ بہرحال جمود کا شکار رہا۔
اس وقت چند سوالات ایسے ہیں، جن پر مسلم ماہرین قوانین (Jurist)، علمائے دین اور سماجی اسکالرز کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، کرہ ارض پر آباد مسلم کمیونٹی، آج جس فکری ہیجان میں مبتلا ہے، اس سے نکلنے اور جدید دنیا کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اسلام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
دوئم، سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں ہر روز جو نئی اور ہوشربا تخلیقات و ایجادات سامنے آرہی ہیں اور جن کے نتیجے میں دنیا کا سیاسی، سماجی، ثقافتی اور انتظامی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے، مسلم معاشرے اس تبدیل ہوتی دنیا میں خود کو Adjust کرنے کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دے سکتے ہیں؟ سوئم، اسلام نے اجماع اور قیاس کی شکل میں قانون سازی کے لیے جو سہولیات مہیا کی ہیں، آیا ان سے استفادہ کرتے ہوئے قوانین کے ایک نئے ڈھانچہ کی تشکیل ضروری ہے؟ یا پھر فقہا نے ہزار برس قبل جو اصول وضوابط طے کردیے تھے، وہی کافی ہیں؟
اس وقت مسلم دنیا میں اتحاد ویگانت کی بہت باتیں کی جاتی ہیں۔ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ OIC کی ناقص کارکردگی اور غیر فعالیت پر رنج وغم کا اظہار بھی معمول کی بات بن گئی ہے۔ مگر 56 مسلم ممالک کی حکومتوں نے باہمی اشتراک سے تمام فقہوں، مسالک اور فرقوں کے علماکو ایک چھت تلے جمع کرکے ان سے جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ متفقہ قوانین کی تشکیل کا کوئی انسٹیٹیوٹ قائم کرنے پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا۔
المیہ یہ ہے کہ کبھی سنی اور شیعہ علما نے ساتھ بیٹھ کر اختلافی قوانین کے لیے درمیانی راستہ نکالنے اور متفقہ قوانین کو جدید بنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں اس وقت ایسے قوانین موجود نہیں، جو جدید دنیا میں ہونے والی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں کا احاطہ کرسکیں۔ جن قوانین کو اسلامی قرار دے کر ان پر عمل کرنے کے لیے اصرار کیا جاتا ہے، وہ عالمی سطح پر فعالیت رکھنے کے بجائے کسی ایک مسلک یا فرقہ کی نمایندگی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اپنے روزمرہ کے امور چلانے کے لیے مغرب میں تشکیل کردہ قوانین کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، جنھیں علما قبول نہیں کرتے۔
آج ان گنت ایسے مسائل اور ایشوز ہیں، جن کا فوری حل کیا جانا معاشرتی ڈھانچے کی فعالیت کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ گھر کے اندر اور باہر ہونے والی زیادتیاں اور بڑھتے ہوئے صنفی امتیازات معاشرتی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی نصف آبادی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں آزادانہ حصہ لینے سے قاصر ہے۔
اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیاں اور قومی پارلیمان اس سلسلے میں قانون سازی کرتی ہیں، تو علما ان قوانین کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں۔ ان کے خاتمہ کے لیے ہر حد تک جانے پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ علما خودکش حملہ کرنے والوں، خواتین پر تیزاب پھینکنے والوں، ان کی سربازار تذلیل کرنے والوں اور کاری قرار دے کر قتل کرنے والوں کے خلاف اس طرح کبھی متحد نہیں ہوئے، جس طرح سماجی ناانصافیوں کے خاتمے کے قوانین کے خلاف ہو رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے عزائم ملک میں ایک مثبت اور ترقی دوست معاشرے کا قیام نہیں بلکہ سماجی جمود کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول ہے۔