جتنی جلدی ممکن ہو نجکاری کردیں
پی آئی اے کے ملازمین کی تحریک اور اپوزیشن پارٹیوں کی سخت مخالفت کی وجہ سے التوا کا شکار ہے
ہمارے وزیر نجکاری محمد زبیر نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملزکی نجکاری کا فیصلہ جتنی جلد ہو کرلیا جائے کہ اس سے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ اسٹیل ملزکے ملازمین کا فائدہ منسلک ہے۔ محترم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اظہار خیال کررہے تھے۔ ریٹائرڈ ملازمین سمیت اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں۔ 18.5 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکیج خام مال کی خریداری، یوٹیلٹی بلز اور تنخواہوں کی ادائیگی میں خرچ کردیا گیا۔
پی آئی اے کی نجکاری، پی آئی اے کے ملازمین کی تحریک اور اپوزیشن پارٹیوں کی سخت مخالفت کی وجہ سے التوا کا شکار ہے اور اب حکومت نے اس التوا کو توڑنے اور پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کو جمہوری بنانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس گزشتہ روز بلایا کیونکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ناکامی کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہی وہ فورم رہ جاتا ہے جہاں حکومت اس بل کی منظوری کے لیے ممکنہ طور پر عددی برتری حاصل کرکے اپنے اس ''قومی مفاد'' کے منصوبے پر عملدرآمد کرسکتی ہے، لیکن اس بار جو کچھ ہوا اس سے حکومت کی امیدوں پر کافی حد تک پانی پھیر گیا ۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اور احتجاج کے باعث حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنے کا بل مزید تین ہفتوں تک موخر کرنا پڑا۔دس رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار حکومتی اور چھ اپوزیشن ارکان شامل کیے گئے ہیں ، یہ کمیٹی سات اپریل تک اپنی رپورٹ دے گی،ہمارے جمہوری نظام میں بڑی دانائی سے یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ حکومت کو ایک مرحلے پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو دوسرے مرحلے پر اس کے لیے کامیابی کے امکانات رہتے ہیں۔
بلاشبہ پارلیمنٹ جمہوریت کا سب سے زیادہ بااختیار فورم ہوتا ہے لیکن اس تلخ حقیقت سے بھلا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ منتخب ارکان کی حمایت یا مخالفت میں قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی اور جماعتی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے، اس کلچر کی وجہ جو سرمایہ دارانہ جمہوریت میں مروج ہے عوامی اور قومی مفادات پس پشت چلے جاتے ہیں۔
مسئلہ صرف پی آئی اے یا اسٹیل ملز کی نجکاری کا نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر سرمایہ دارانہ نظام کی وہ ذہنیت کارفرما ہے، جس کا واحد مقصد قوموں کے نہیں افراد یا گروہوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ جن قومی اداروں کی نجکاری کی جاتی ہے انھیں اس مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ وہ ملک و ملت پر بوجھ بن جاتے ہیں، لیکن اس حوالے سے جو جواز فراہم کیے جاتے ہیں وہ عذر لنگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اصل مقصد اداروں کو قومی ملکیت سے نکال کر سرمایہ داروں کے حوالے کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ دونوں ہاتھوں سے قومی اداروں کو لوٹ سکیں۔
اس حوالے سے ذرا گہرائی میں جا کر نجکاری کے فلسفے پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس فلسفے کا اصل مقصد ارتکاز زر ہوتا ہے، یعنی دولت کو قومی ملکیت سے نکال کر سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں دے دینا کہ وہ جس طرح چاہیں قومی اداروں اور قومی دولت کا استعمال کریں۔ اس لوٹ مار کو روکنے ہی کے لیے قومی ملکیت کا فلسفہ لایا گیا کہ اس طرح سرمایہ داروں کی بے مہار لوٹ مار کو روکا جائے لیکن سوشلسٹ ملکوں میں قومی ملکیت کے اداروں میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں یا ایک جامع سازش کے ذریعے پیدا کردی گئیں، اسے بہانہ بناکر اس قومی اور عوامی مفاد کے پورے نظام ہی کو تہس نہس کردیا گیا۔ آج ساری دنیا میں نجی ملکیت کی بے مہار آزادی کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک فرد واحد 78 کھرب روپوں کا مالک بنا بیٹھا ہے اور اربوں انسان ان مٹھی بھر امرا کی وجہ سے بدحالی، بھوک، بیماری، بے کاری جیسی مصیبتوں کا شکار ہیں۔
پاکستان میں بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے اور اس جمہوریت کے رکھوالوں کا یہ طبقاتی فرض ہے کہ وہ اپنی اولین ذمے داری کے طور پر جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردیں۔ ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس جمہوریت میں بیچنے اور خریدنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔
اس طرح دودھ اور پانی یک جان بن جاتے ہیں۔ ادارے قومی ملکیت سے نکل کر حکمران طبقات کے بھائی بندوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں اور حکمرانوں کو بڑے پیمانے پر لوٹ مار کا ایک اور وسیلہ حاصل ہوجاتا ہے، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس حوالے سے کئی قومی ادارے ہماری سیاست کے آسمان پر سورج اور چاند کی طرح چمک رہے ہیں ان سب کے پیچھے ''چمک'' ہی مشترکہ محرک ہے۔
ہمارے وزیر نجکاری کو اسٹیل ملز کی مزید تباہ کاریوں کا غم کھائے جا رہا ہے اور وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو اس حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اسٹیل ملز کی نجکاری یا فروخت میں جتنی جلدی ممکن ہے کریں۔ لگتا ہے کہ اسٹیل ملز کو فروخت کرنے کی جلدی ہمارے وزیر نجکاری کا ''قومی منصب'' ہے اور ان کی یہ تشویش بھی بجا ہے کہ اگر اسٹیل ملز کی نجکاری میں اور دیر کردی گئی تو ملک و ملت کو اور زیادہ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن کیا وہ اس خسارے کی حقیقی ذمے داری کا تعین ایمانداری اور غیر جانبداری سے کرسکتے ہیں۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ 18.5 ارب کا بیل آؤٹ جو اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے دیا گیا تھا اسے خام مال کی خریداری، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے میں لگا دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیک کام کیا اسٹیل ملز کے مزدوروں نے کیا؟ یہ ایسے سوال ہیں جو پی آئی اے سے لے کر اسٹیل ملز اور ان تمام بیسیوں قومی اداروں میں کھڑے ہوئے ہیں، جنھیں اونے پونے انتہائی بددیانتی سے نجی ملکیت کے مالکان یعنی سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔
کہا جارہا ہے کہ جس قومی ادارے کو چار پانچ ہزارکارکن چلا سکتے ہیں ان اداروں میں 16-16 ہزار مزدوروں کو رکھا گیا۔ کیا یہ رونا رونے والے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ چار پانچ ہزار مزدوروں کی جگہ سولہ سترہ ہزار مزدور کس نے بھرتی کیے اور کیسے بھرتی کیے؟ آج پورا میڈیا حکمران طبقات اور ان کے حواریوں کے کارناموں سے بھرا ہوا ہے، پندرہ ہزار پولیس والوں کی بھرتی کی جگہ بے تحاشا بھرتیاں کس نے کیں، سندھ کے آئی جی کو سپریم کورٹ نے کیوں ملازمت سے نکال دیا۔
ڈاکٹر عاصم پر کس قسم کے الزامات ہیں اور ڈاکٹر عاصم اس میں کس کس کو شامل کر رہے ہیں اور یہ الزامات کیا ہیں؟ بظاہر تو ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والے چند افراد ہی نظر آتے ہیں لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو ان جرائم کا اصل ذمے دار وہ نظام ہے جس میں حصول دولت زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے اور ہر شخص ایک دوسرے کو دھکے مارتا ہوا ایک دوسرے کا حق مارتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری، پی آئی اے کے ملازمین کی تحریک اور اپوزیشن پارٹیوں کی سخت مخالفت کی وجہ سے التوا کا شکار ہے اور اب حکومت نے اس التوا کو توڑنے اور پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کو جمہوری بنانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس گزشتہ روز بلایا کیونکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ناکامی کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہی وہ فورم رہ جاتا ہے جہاں حکومت اس بل کی منظوری کے لیے ممکنہ طور پر عددی برتری حاصل کرکے اپنے اس ''قومی مفاد'' کے منصوبے پر عملدرآمد کرسکتی ہے، لیکن اس بار جو کچھ ہوا اس سے حکومت کی امیدوں پر کافی حد تک پانی پھیر گیا ۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اور احتجاج کے باعث حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنے کا بل مزید تین ہفتوں تک موخر کرنا پڑا۔دس رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار حکومتی اور چھ اپوزیشن ارکان شامل کیے گئے ہیں ، یہ کمیٹی سات اپریل تک اپنی رپورٹ دے گی،ہمارے جمہوری نظام میں بڑی دانائی سے یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ حکومت کو ایک مرحلے پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو دوسرے مرحلے پر اس کے لیے کامیابی کے امکانات رہتے ہیں۔
بلاشبہ پارلیمنٹ جمہوریت کا سب سے زیادہ بااختیار فورم ہوتا ہے لیکن اس تلخ حقیقت سے بھلا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ منتخب ارکان کی حمایت یا مخالفت میں قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی اور جماعتی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے، اس کلچر کی وجہ جو سرمایہ دارانہ جمہوریت میں مروج ہے عوامی اور قومی مفادات پس پشت چلے جاتے ہیں۔
مسئلہ صرف پی آئی اے یا اسٹیل ملز کی نجکاری کا نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر سرمایہ دارانہ نظام کی وہ ذہنیت کارفرما ہے، جس کا واحد مقصد قوموں کے نہیں افراد یا گروہوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ جن قومی اداروں کی نجکاری کی جاتی ہے انھیں اس مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ وہ ملک و ملت پر بوجھ بن جاتے ہیں، لیکن اس حوالے سے جو جواز فراہم کیے جاتے ہیں وہ عذر لنگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اصل مقصد اداروں کو قومی ملکیت سے نکال کر سرمایہ داروں کے حوالے کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ دونوں ہاتھوں سے قومی اداروں کو لوٹ سکیں۔
اس حوالے سے ذرا گہرائی میں جا کر نجکاری کے فلسفے پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس فلسفے کا اصل مقصد ارتکاز زر ہوتا ہے، یعنی دولت کو قومی ملکیت سے نکال کر سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں دے دینا کہ وہ جس طرح چاہیں قومی اداروں اور قومی دولت کا استعمال کریں۔ اس لوٹ مار کو روکنے ہی کے لیے قومی ملکیت کا فلسفہ لایا گیا کہ اس طرح سرمایہ داروں کی بے مہار لوٹ مار کو روکا جائے لیکن سوشلسٹ ملکوں میں قومی ملکیت کے اداروں میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں یا ایک جامع سازش کے ذریعے پیدا کردی گئیں، اسے بہانہ بناکر اس قومی اور عوامی مفاد کے پورے نظام ہی کو تہس نہس کردیا گیا۔ آج ساری دنیا میں نجی ملکیت کی بے مہار آزادی کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک فرد واحد 78 کھرب روپوں کا مالک بنا بیٹھا ہے اور اربوں انسان ان مٹھی بھر امرا کی وجہ سے بدحالی، بھوک، بیماری، بے کاری جیسی مصیبتوں کا شکار ہیں۔
پاکستان میں بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے اور اس جمہوریت کے رکھوالوں کا یہ طبقاتی فرض ہے کہ وہ اپنی اولین ذمے داری کے طور پر جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردیں۔ ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس جمہوریت میں بیچنے اور خریدنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔
اس طرح دودھ اور پانی یک جان بن جاتے ہیں۔ ادارے قومی ملکیت سے نکل کر حکمران طبقات کے بھائی بندوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں اور حکمرانوں کو بڑے پیمانے پر لوٹ مار کا ایک اور وسیلہ حاصل ہوجاتا ہے، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس حوالے سے کئی قومی ادارے ہماری سیاست کے آسمان پر سورج اور چاند کی طرح چمک رہے ہیں ان سب کے پیچھے ''چمک'' ہی مشترکہ محرک ہے۔
ہمارے وزیر نجکاری کو اسٹیل ملز کی مزید تباہ کاریوں کا غم کھائے جا رہا ہے اور وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو اس حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اسٹیل ملز کی نجکاری یا فروخت میں جتنی جلدی ممکن ہے کریں۔ لگتا ہے کہ اسٹیل ملز کو فروخت کرنے کی جلدی ہمارے وزیر نجکاری کا ''قومی منصب'' ہے اور ان کی یہ تشویش بھی بجا ہے کہ اگر اسٹیل ملز کی نجکاری میں اور دیر کردی گئی تو ملک و ملت کو اور زیادہ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن کیا وہ اس خسارے کی حقیقی ذمے داری کا تعین ایمانداری اور غیر جانبداری سے کرسکتے ہیں۔ موصوف نے فرمایا ہے کہ 18.5 ارب کا بیل آؤٹ جو اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے دیا گیا تھا اسے خام مال کی خریداری، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے میں لگا دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیک کام کیا اسٹیل ملز کے مزدوروں نے کیا؟ یہ ایسے سوال ہیں جو پی آئی اے سے لے کر اسٹیل ملز اور ان تمام بیسیوں قومی اداروں میں کھڑے ہوئے ہیں، جنھیں اونے پونے انتہائی بددیانتی سے نجی ملکیت کے مالکان یعنی سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔
کہا جارہا ہے کہ جس قومی ادارے کو چار پانچ ہزارکارکن چلا سکتے ہیں ان اداروں میں 16-16 ہزار مزدوروں کو رکھا گیا۔ کیا یہ رونا رونے والے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ چار پانچ ہزار مزدوروں کی جگہ سولہ سترہ ہزار مزدور کس نے بھرتی کیے اور کیسے بھرتی کیے؟ آج پورا میڈیا حکمران طبقات اور ان کے حواریوں کے کارناموں سے بھرا ہوا ہے، پندرہ ہزار پولیس والوں کی بھرتی کی جگہ بے تحاشا بھرتیاں کس نے کیں، سندھ کے آئی جی کو سپریم کورٹ نے کیوں ملازمت سے نکال دیا۔
ڈاکٹر عاصم پر کس قسم کے الزامات ہیں اور ڈاکٹر عاصم اس میں کس کس کو شامل کر رہے ہیں اور یہ الزامات کیا ہیں؟ بظاہر تو ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والے چند افراد ہی نظر آتے ہیں لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو ان جرائم کا اصل ذمے دار وہ نظام ہے جس میں حصول دولت زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے اور ہر شخص ایک دوسرے کو دھکے مارتا ہوا ایک دوسرے کا حق مارتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔