اب مزید دیر نہ کی جائے
امریکی صدر بارک اوباما نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کی حکومت کی لیبیا میں مداخلت بے جا تھی
امریکی صدر بارک اوباما نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کی حکومت کی لیبیا میں مداخلت بے جا تھی اور کرنل قذافی کی حکومت کو ختم کرانا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف امریکی حکومت کی مدد کرنا ان کی تاریخی غلطی تھی، مگر یہ غلطی امریکی سی آئی اے کی غلط معلومات فراہم کرنے پر کی گئی تھی۔
اس سے قبل امریکی سابق صدر جونیئر بش بھی سی آئی اے کی غلطی کو اپنی حکومت کی غلطی تسلیم کر چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی تباہ کن غلطیاں مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں کی جاتی ہیں اور اب شام کو تباہ کرنے کی غلطی کیوں کی گئی ہے اور اس غلطی کا سہرا کس کے سر ہے؟ بظاہر تو یہ تباہی و بربادی کا کھیل امریکی ایما پر ہی کھیلا گیا ہے مگر حال ہی میں صدر اوباما نے الزام لگایا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی تباہی میں سعودی حکومت کی اپنے پڑوسیوں سے عدم برداشت کی پالیسی کا عمل دخل رہا ہے۔
صدر اوباما کے اس بیان پر سعودی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے مگر سعودی عرب کے ایک خاص اتحادی امریکی حکومت کی طرف سے اس کی تنقید ایک تاریخی واقعہ ہے، تاہم مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں سعودی حکومت کی حکمت عملی ایک معمے سے کم نہیں ہے۔ ایک طرف وہ مشرق وسطیٰ کو دہشت گردی سے پاک کر کے وہاں دائمی استحکام کے لیے کام کر رہی ہے تو دوسری جانب شام کے معاملے میں مغربی ممالک کا ساتھ دے رہی ہے۔
ادھر ایران سے اس کے تعلقات میں تلخی برقرار ہے، تاہم اب اس کی جانب سے ایران پر واضح کیا گیا ہے کہ اگر وہ شام میں مداخلت بند کر دے تو سعودی حکومت اس سے برادرانہ تعلقات پھر سے بحال کر سکتی ہے۔ اب جب کہ امریکا نے ایٹمی تنازعے کو ختم کر کے ایران سے اپنے تعلقات کو بہتر کرنا شروع کر دیا ہے تو سعودی حکومت امریکا کے ایران سے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے اور اس طرح وہ امریکا کی ایران کے بارے میں نئی پالیسی سے کشمکش کا شکار نظر آتی ہے۔
سعودی حکومت دراصل ایران کے بارے میں امریکی پالیسی سے اس لیے بھی تشویش کا شکار ہے کیونکہ ایران اور اس کی حامی ملیشیا حزب اللہ اب بھی بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم اب روس کی شام میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں تو بشارالاسد کی حکومت کو ہلانا مغربی ممالک کے بھی بس میں نہیں رہا ہے۔
روسی حکومت کی شام میں کارروائی کے بعد مغربی ممالک پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ کیونکہ وہ روس سے براہ راست ٹکر لینا نہیں چاہتے انھوں نے یوکرین کے تنازعے میں بھی روس سے براہ راست ٹکر لینے سے گریز کیا تھا البتہ یوکرین حکومت نے اپنے مشرقی حصے کریمیا کے روس کا حصہ بننے کی وجہ سے روس سے خود ہی اپنی بھڑاس نکالی تھی اور روس کے خلاف فوجی کارروائی کے علاوہ یورپی ممالک کو جانے والی گیس پائپ لائن کو بند کر دیا تھا جس سے روس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔
ادھر مغربی ممالک نے روس پر مختلف قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں شاید مغربی ممالک نے روس سے یوکرین کا بدلہ اس کے پرانے ساتھی شام سے لینے کے لیے اسے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے ادھر انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر روس کے ایک اور پرانے دوست ملک یمن میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کے لیے اس پر بھی یلغار کر دی جس کے نتیجے میں یمن بھی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں مگر شام میں ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
تباہی سے بچنے کے لیے اس کے لاکھوں شہری مختلف ممالک میں پناہ لے چکے ہیں سب سے زیادہ لوگ یورپ کی جانب گئے ہیں مگر وہاں تک پہنچنے سے قبل ہی ہزاروں پناہ گزین بحیرۂ روم کی خوفناک موجوں کا لقمہ بن چکے ہیں ان ہی لوگوں میں شام کا وہ بدقسمت خاندان بھی شامل تھا جو کشتی کے ڈوبنے کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہو گیا تھا اس میں ایک معصوم بچہ الان کُردی بھی تھا جس کی بے کسی میں ہلاکت پر یورپی ممالک بھی آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے تھے اور اس کی موت سے متاثر ہو کر انھوں نے شامی مہاجرین کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی تھی۔
شام کی تباہی نے اصل فائدہ اسرائیل کو پہنچایا ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں عراق کے بعد شام ہی اس کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جو کام اسرائیل کو کرنا چاہیے تھا وہ خود اسلامی ممالک نے کر دکھایا تاہم ترکی اور سعودی عرب اب بھی اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں شامل ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ شام اور عراق کی تباہی کے بعد اب سعودی عرب اسرائیل کے براہ راست نشانے پر ہے اور اب سعودی عرب اپنی تنہائی کو خود ہی شدت سے محسوس کرنے لگا ہے، شاید اسی تناظر میں اس نے 34 اسلامی ممالک کی ایک مشترکہ فوج بنانے کا خیال پیش کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ عالم اسلام کو دہشت گرد ممالک سے محفوظ بنانے کے لیے ایک بہترین تجویز ہے تاہم اس میں او آئی سی کے تمام ہی ممبر ممالک کو شامل کرنا چاہیے۔ چونکہ اس اتحاد کے قیام سے اسرائیل ضرور خوفزدہ ہو گا چنانچہ مغربی ممالک اس کے قیام کی راہ میں ضرور روڑے اٹکائیں گے وہ او آئی سی کو پہلے ہی غیر فعال بنا چکے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ مجوزہ اسلامی فوجی اتحاد کو نیٹو کی طرز پر استوار کیا جانا چاہیے مگر ایسا کرنے کے لیے اول تو تمام مسلم ممالک کے درمیان پائیدار اتحاد کا قیام ناگزیر ہے انھیں اپنے باہمی جھگڑوں کو یکسر بھلانا ہو گا۔ اس اہم تجویز کو پیش کرنے کا اعزاز یقینا سعودی حکومت نے حاصل کر لیا ہے۔
اس نے حال ہی میں اپنی سرزمین پر ''نارتھ تھنڈر'' نامی عظیم فوجی مشقوں کا اہتمام کیا تھا یہ مشقیں بارہ روز تک جاری رہیں جن میں 21 اسلامی ممالک کی افواج نے بھرپور حصہ لیا اور آپس میں بہترین کمبینیشن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان مشقوں کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے کئی اسلامی ممالک کے سربراہان موجود تھے وہ سب ہی ان بے مثال مشقوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی اس تنظیم کا 1969ء میں قیام ایک انقلابی اقدام تھا افسوس کہ اس کے قیام کے جو مقاصد متعین کیے گئے تھے وہ پورے نہ ہو سکے۔ اس تنظیم کے مقاصد میں اسلامی مشترکہ منڈی کا قیام بھی شامل تھا مگر یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا اگر یورپی یونین کی طرز پر یہ قائم ہو جاتی تو مسلم ممالک کو آج اپنی تجارت کو وسعت دینے کے لیے مغربی ممالک کی منت سماجت نہ کرنا پڑتی۔ تاہم اب فوجی اتحاد کے ساتھ ساتھ مشترکہ منڈی کے قیام کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
اس فوجی اتحاد کے قیام کے ویسے تو بہت سے فوائد ہیں مگر سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اسلامی ممالک سامراجی ممالک کی نگاہ سے ضرور محفوظ ہو جائیں گے اور اپنے معاملات کو بغیر کسی مداخلت کے اپنے طور پر حل کر سکیں گے۔