نئے اضلاع اور تحصیلیں

کوئی زمانہ تھا کہ تعلیمی نصاب میں جغرافیہ نامی ایک مضمون پڑھایا جاتا تھا۔

کوئی زمانہ تھا کہ تعلیمی نصاب میں جغرافیہ نامی ایک مضمون پڑھایا جاتا تھا۔ پہلے اس تحصیل کا جغرافیہ پڑھایا جاتا تھا، جس میں بچے رہتے تھے، تیسری جماعت میں اس ضلعے کا، چوتھی جماعت میں صوبے کا، پانچویں جماعت میں پاکستان کا اس کے بعد دنیا کا۔ اس مضمون میں اہم شہر اور گاؤں، ان کی صنعتوں، معدنیات، زراعت اور دوسری مشہور یا قابل ذکر چیزوں کے متعلق معلومات ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں بدایوں کے پیڑے مشہور تھے، سندھ میں نصرپور (تحصیل ٹنڈو اللہ یار، ضلع حیدرآباد، آج کل ضلع ٹنڈو اللہ یار) میں واقع ہے، وہاں کے بھی پیڑے بھی مشہور ہیں۔

اس میں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ کونسا شہر یا گاؤں کونسے ضلعے یا تحصیل میں واقع ہے۔ آج اگر کسی بچے سے پوچھا جائے کہ کونسا شہر یا گاؤں کس ضلعے میں واقع ہے یا فلاں ملک کا صدرمقام کونسا ہے، تو نہیں بتا سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مکمل مضمون کو اب سوشل اسٹڈیز میں ایک غیر اہم اور مختصر حصے کے طور پر ضم کر دیا گیا ہے۔

قارئین کی خدمت میں عرض کروں گا کہ انگریزوں نے 19 ویں صدی میں پورے ہندوستان پر قبضہ جمانے کے بعد صوبہ سندھ کو بمبئی میں ضم کر دیا، جس میں اسمبلی سے لے کر تمام اہم ادارے بمبئی میں تھے، جس وجہ سے سندھ کے لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پورے سندھ میں صرف 2 یا 3 ضلعے بنائے گئے، شکارپور، حیدرآباد اور کراچی۔ سندھ کے لوگوں نے بڑی جدوجہد کے بعد 1936ء میں بمبئی سے علیحدگی حاصل کی اور اپنے ادارے بنائے۔ مقصد یہ تھا کہ اسمبلی سے لے کر ہر ادارہ سندھ میں ہی ہو، تا کہ لوگوں کو سہولیات میسر ہوں۔ اس کے بعد سندھ میں نئے اضلاع بھی قائم کیے گئے۔

پاکستان سے پہلے سندھ میں 8 ضلعے تھے۔ جیکب آباد، سکھر (سکھر سندھی زبان کا لفظ، جس کے معنے ہیں خوشحال)، لاڑکانہ، نواب شاہ، دادو، تھرپارکر (صدر مقام میرپور خاص)، حیدرآباد اور کراچی۔

سندھ میں سب سے پہلے سانگھڑ کو تختہ مشق بنایا گیا۔ ضلع تھرپارکر اور نواب شاہ کی کچھ تحصیلیں ملا کر ضلع سانگھڑ بنایا گیا۔ ایک دو سال بعد سوچا گیا کہ وہ تجربہ صحیح نہیں تھا، اس لیے وہ ضلع ختم کر دیا گیا۔ پھر ایک مرتبہ اور یہ تجربہ کیا گیا اور اس کے بعد وہ ضلع قائم رہا (کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ دو بارکیا گیا تھا)

اس کے بعد کراچی سے کچھ تحصیلیں لے کر ٹھٹہ کو ضلع بنایا گیا (یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ، بلکہ ٹی وی پر بھی، اسے ٹھٹھہ کہتے ہیں، جب کہ وہ غلط ہے۔ اردو میں ٹھٹھہ کے معنے ہوتے ہیں طنز۔ صحیح لفظ ٹھٹہ ہی ہے)۔ اسی طرح سندھ خواہ پورے پاکستان میں وقتا فوقتا نئے ڈویژن، ضلعے اور تحصیلیں بن رہی ہیں اور بنتی رہیں گی۔ اس کی ایک وجہ تو ملک کی بڑھتی آبادی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ نئے اضلاع عوام کے لیے بنائے جاتے رہے ہیں؟ اصولی طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی نیا ضلع بنانے سے پہلے اس کا ایک خاکہ بنایا جاتا ہے جس کے تحت ان میں سب سے پہلے صحت اور عدلیہ کا نظام بنایا جاتا ہے تا کہ لوگوں کو علاج معالجہ اور انصاف کے حصول کے لیے دور تک نہ جانا پڑے۔ اس کے علاوہ دیگر محکموں کے دفاتر، عملہ، سامان وغیرہ مہیا کیا جاتا ہے۔


مجھے ایک نہایت معتبر ذریعے سے معلوم ہوا کہ سندھ میں عمرکوٹ ضلع کو قائم ہوئے 12، 13 سال ہوئے ہیں، لیکن وہاں کے اسپتال میںایکس رے مشین یا تو ابھی تک فراہم نہیں کی گئی یا جو فراہم کی گئی تھی وہ کچھ عرصہ بعد خراب ہو گئی اور ابھی تک مرمت نہیں کی گئی۔ لوگوں کو اس کے لیے میرپور خاص جانا پڑتا ہے۔ اس طرح لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ کے لیے بھی۔ تقریبا یہی حال دیگر نئے اضلاع کا بھی ہے اور اس قسم کی شکایات اخبارات اور اب تو ٹی وی میں باقی صوبوں کے نئے اضلاع کے بارے میں آتی رہتی ہیں۔ بہت سارے اضلاع میں ایمبیولنس اینٹوں پر کھڑی پائی گئی ہیں۔

جن کے لیے یہ اضلاع (بلکہ ریاستیں) بنائے جاتے ہیں وہ صاحبان تو اپنے علاج معالجے کے لیے بیرونی ممالک میں جاتے ہیں۔ وہ تو اپنی ان ریاستوں کے اسپتالوں میں جھانک کر بھی دیکھتے کہ وہاں کیا سہولیات میسر کی گئی ہیں۔ اسی طرح ان صاحبان کو تعلیم سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتیں ان کے گودام اور مویشی کے آرام کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

کوئی وقت تھا کہ پرائیویٹ اسکول خال خال ہوتے تھے۔ اگر ہوتے تھے تو بھی بڑے شہروں میں۔ عام طور پر سرکاری اسکولوں ہوتے تھے جہاں غریبوں اور امیروں کے بچے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ہمارے ملک کی بہت ساری شخصیتیں سرکاری اسکولوں سے ہی فارغ التحصیل ہوئی ہیں اور ملک کے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔

انسان دوسری چیزوں سے تو گزارہ کر سکتا ہے، لیکن صحت کے معاملے میں سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا گزارہ بہت مشکل ہے۔ چلیے اور نہیں تو کم از کم اتنا تو کرنا چاہیے کہ ہر ضلع کے صدر مقام میں مکمل اسپتال قائم ہوں، تا کہ مریضوں کی جان بچائی جا سکے۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ لوگوں کو کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد آنا پڑتا ہے، جہاں کے اسپتالوں کے باہر مریضوں کے تیماردار زمین پر چادریں بچھا کر رہ رہے ہو تے ہیں۔

انھیں سفری اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں، جس کے لیے انھیں گھر کی قیمتی چیزیں، مویشی وغیرہ بیچنا پڑتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کا یہ حال ہے کو وہاں ڈاکٹر غائب ہوتے ہیں، ادویات ناپید ہوتی ہیں، لیبارٹری کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ کراچی سے پشاور تک قومی شاہراہ والے قصبوں اور دیہات میں ڈاکٹر اکثر غائب ہوتے ہیں، ایمبیولنس موجود نہیں ہوتی۔ حادثات کی صورت میں لوگوں کو طبی امداد نہیں ملتی اور زخمیوں کو جائے حادثہ سے منتقل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

صحت کے ضمن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ملک کو معرض وجود میں آئے 69 سال ہونے کو آئے ہیں، لیکن ابھی تک صاف پانی فراہم نہیں جا سکا ہے، جب کہ سب سے پہلا کام یہی کرنا چاہیے تھا، کیونکہ 90 فی صد بیماریاں صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اکثر پینے کے پانی میں گٹر کے پانی کی آمیزش کی شکایات عام ہیں (گٹروں کے ڈھکنوں کی کہانی الگ ہے)۔ اس کے علاوہ کچرا صاف کرنا تا کہ ان پر مچھر، مکھیاں اور دوسرے مہلک کیڑے مکوڑے پیدا نہ ہو سکیں۔ جن کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے دن سے ہی شعبہ صحت کی طرف توجہ کی جاتی، کیونکہ جس قوم کے لوگ زیادہ طور پر صحت کی سہولیات سے محروم ہوں، وہ ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے۔

تھر کے شہر مٹھی کے ضلعی اسپتال میں اس سال بچوں کے مرنے کی 2 سے زیادہ سنچریاں ہو چکی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب وہاں سے ایک یا دو بچوں کے مرنے کی خبر نہیں آتی۔ اس معاملے کو اتنا متنازع بنا دیا گیا ہے کہ حقائق سامنے نہیں آ رہے۔ خدارا ان بچوں اور ان کی ماؤں پر رحم فرمائیں۔
Load Next Story