سبق پڑھ پھر این آر او کا
آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا کہ کون اسے لے جائے
MIRANSHAH:
ابوسعید خدریؓ سے روایت کردہ ایک حدیث نبوی ہے، جس کے مطابق نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ''بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کیے تھے، پھر وہ نادم ہو کر معافی کی خواہش لے کر مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک درویش کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کیا اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سن کر اور اپنی جبلت سے مجبور ہو کر اس نے اس درویش کو بھی قتل کر دیا اور سو خون پورے کر دیے۔
پھر وہ دوسروں سے پوچھنے لگا کہ کیا کوئی معافی کی صورت ہے۔ آخر اس کو ایک درویش نے بتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا۔ معافی کی امید میں وہ بستی کی طرف چلا۔ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ منزل تک پہنچنے اور معافی کی شدید خواہش میں مرتے مرتے اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا۔
آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا کہ کون اسے لے جائے۔ اس کے رب کی رضا کچھ اور تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو (جہاں وہ توبہ کے لیے جارہا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اب دونوں کا فاصلہ دیکھو اور جب ناپا تو اس بستی کو جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا ایک بالشت نعش سے نزدیک پایا، اس لیے وہ بخش دیا گیا۔
تاریخ کے اس قدیم ترین حقیقی واقعے کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا وحی سے اپنے نبی کو علم دینے کا مقصد یہ تھا کہ گناہ گار اور معصوم کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں برابر موجود ہے اور اس کے وضع کردہ پیمانے کے باوجود صرف وہی ذات باری ہے جو لوگوں کو ان کے انتہائی گناہوں کے باوجود معاف کرنے کا حق، اختیار اور مرضی رکھتی ہے۔ کسی اور ہستی یا انسان کو یہ حق، اختیار اور مرضی رہتی دنیا تک حاصل نہیں ہو سکتا۔ روزِ قیامت میدان حشر میں میزان عدل نصب کر کے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔
کتاب مبین میں اسلامی معاشروں کے لیے جزا و سزا کے بہترین طریقہ کار کا علم انسانوں کو دیا ہے، جس کی بہت ہی مختصر اور جامع ترین مثال آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور قصاص ہے۔ تاہم بدقسمتی سے معاشروں کا نظام عدل و انصاف ناقص بشری علمیت اور اہلیت سمیت دنیاوی معیارات سے اٹا پڑا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کو کتاب الہی میں وضع کردہ احکامات کی روشنی میں عدل و انصاف کو رائج کرنے اور فروغ دینے کا کہا گیا ہے، اس کے باوجود چونکہ انسان کئی منفی اور مثبت بشری تقاضوں کی بنا پر جزا و سزا کے ٹھیک ٹھیک فیصلے کرنے سے معذور ہے اور اس کمزوری کی وجہ سے وہ مدبرانہ فیصلے کرنے سے قاصر رہتا ہے، اس لیے معاشروں میں مظلوم اور گناہگار کے درمیان انصاف کے عمل میں انسانی ساختہ معیارات اور ضروریات اور مفادات کی بنیادوں پر افراط و تفریط اور امتیاز برتنا عام ہے، جس کی بڑی مثال ہمارا وطن عزیز ہے۔
مذکورہ صورتحال سے معاشرہ گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں شدید طبقاتی کشمکش اور سماجی سطح پر بے چینی پھیل جاتی ہے۔ ناحق قتل کرنے والے کو حیلوں بہانوں اور قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچا لیا جاتا ہے یا پھر سیاسی مفادات یا مصلحت اور نظریہ ضرورت کے تحت قاتلوں اور ظالموں کو آزادی دی جاتی ہے۔ جب معاشرے میں انصاف کے اصولوں کو صرف اپنے سیاسی، سماجی اور دیگر مفادات کی خاطر قربان کر دیا جائے تو نتیجہ قتل و غارت گری، خون ریزی، لوٹ مار، ناجائز اعمال اور حرام کاری، دنگا فساد کا لچر، بیہودہ اور غیر محفوظ ماحول کی صورت میں سامنے آتا ہے، جس میں عام شہری نشانہ بنتے ہیں۔
وحشت اور اذیت کا کتنا طویل سفر کر کے شہر قائد کے باسی آج اس مقام پر پہنچے ہیں کہ ان کے سامنے خوف و دہشت کی علامت بڑے بڑے بت ٹوٹ رہے ہیں۔ وہ بت اور ان کے صنم کدے جن کے مٹنے کا کوئی تصور ہی محال ہوتا تھا۔ اندھے یقین اور تقلید کی وہ ناؤ جس میں بیٹھ کر وہ بڑے فخر سے لسانیت، مظلومیت اور حقوق کی جنگ کے چپو چلاتے تھے اور اپنی فرقہ وارانہ وابستگی کا غلغلہ بلند کرتے تھے، آج انھی کے ناخداؤں کے ہاتھوں ڈوب رہی ہے۔
نہ وہ این آر او ہوتا اور نہ ہی بدترین لوگ قوم کی رہنمائی کے درجے پر فائز ہوتے۔ نہ ہی مفاہمت کی سیاست ہوتی اور نہ ہی دشمنوں کے فنڈز پر پلنے والی سازشیں تین عشروں تک کراچی میں کشت و خون کا بازار گرم رکھتیں۔ اس کے باوجود اب پھر ایک ایسے بے نام این آر او کی سڑانڈ محسوس ہو رہی ہے جو شاید قاتلوں کو بچانے کے لیے ہے۔ قاتلان عام و خاص اور ان کے حامی و مددگار فتنہ تمام تر سرکردہ گناہوں کے باوجود محض اعتراف گناہ اور ماضی کی غلطیوں سے پر زندگی سے تائب ہو کر نام نہاد نئی راہوں پر دوبارہ سفر شروع کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔
آزمائے ہوئے کی دوبارہ آزمائش کرنا اور ہر شیریں زبان کو دوست سمجھ لینے کا عمل ہر دور اور ہر معاشرے میں خطرناک ثابت ہوا ہے۔ غلطی ہر کسی سے ہوتی ہے۔ انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی حیثیت میں بھی۔ جتنی بڑی غلطی ہوتی ہے اتنا ہی بڑا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ غلطیاں قوموں کی زندگیوں میں بھی آتی ہیں مگر کھبی کبھار کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو قوموں کے عروج اور زوال کا باعث بن جاتی ہیں۔ باضمیر اور قوت ادراک کو اپنی تعمیر اور ترقی میں صرف رکھنے والی قومیں غلطیوں سے سیکھ کر انھیں نہ دہرانے کا عزم کرتی ہیں یا آیندہ اس غلطی سے بچنے کی پوری کوشش یا التزام کرتی ہیں۔
لیکن ٹھہریئے! یہاں اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں اور گرہ سے باندھ لیں کہ غلطی میں اور سازش میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ غلطی کا موجب غیر ارادی پن، لاعلمیت، نسیان، معصومیت، خلاف فطرت طرز عمل اور فکر تو ہو سکتے ہیں لیکن سازش کے پیچھے مکمل انسانی ارادہ، مکمل علم، طرز فکر و خیال اور ہوش و حواس ذریعہ بنتے ہیں۔
سازش کے ٹرینکلائزر کھا کر جھوٹی خوابیدہ مدہوشی میں لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرنا، ان کی املاک پر قبضے جما لینا، بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنا اور انھیں کمتر اور ہیچ سمجھنا، لوگوں کی جمع پونجی کو جبراً اور سر راہ لوٹ لینے والے کو کون بیوقوف اور نادان سونے والا سمجھے گا۔
بعض گناہ اور سیاہ کاریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی ہر حال میں سزا بنتی ہے اور مصلحت یا مجبوری یا کسی بھی وجہ سے سزا معاف نہیں ہو سکتی، جن میں سے ایک ناحق قتل ہے۔ اسلامی قانون ایسے کسی شخص کو بخشنے والا نہیں جس نے کسی انسان کو ناحق، اپنی کسی ذاتی غرض یا اس کے بغیر یا کسی کے کہنے پر صرف دنیاوی فائدے یا فائدے کے لالچ میں کیا ہو۔
قتل کے قانون میں اﷲ کے ہاں اس کے اٹل فیصلے سے کوئی برتر ہے نہ فائق۔ لہٰذا کوئی ایک قتل کرنے والا ہو یا ننانوے... اﷲ کے ہاں ایسے شخص کے لیے واضح فیصلہ موجود ہے اور وہ ہے سر قلم۔ دوسرے لفظوں میں پھانسی، یعنی زندگی کا خاتمہ۔ چونکہ کسی قاتل کے اعتراف گناہ، ندامت اور سچی توبہ سے ان لمحوں کا مداوا نہیں ہو سکتا جس میں کسی ماں کا کلیجہ اپنے قتل ہونے والے بیٹے کے لیے پھٹتا ہے۔
نوجوان بیٹے کے جنازے کو کاندھا دینے والا باپ غم کی تصویر بنتا ہے، جب کوئی بہن اپنے بھائی کے قتل پر اپنے حواس کھو دیتی ہے اور جب شوہر کے قتل پر ایک بیوی کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور اس کے بچے حسرت و یاس میں ڈوب جاتے ہیں۔ بھلا کسی قاتل کے آنسو اور ندامت مقتول کی ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں کے غم اور عظیم نقصان کا مداوا ہو سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔
ابوسعید خدریؓ سے روایت کردہ ایک حدیث نبوی ہے، جس کے مطابق نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ''بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کیے تھے، پھر وہ نادم ہو کر معافی کی خواہش لے کر مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک درویش کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کیا اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سن کر اور اپنی جبلت سے مجبور ہو کر اس نے اس درویش کو بھی قتل کر دیا اور سو خون پورے کر دیے۔
پھر وہ دوسروں سے پوچھنے لگا کہ کیا کوئی معافی کی صورت ہے۔ آخر اس کو ایک درویش نے بتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا۔ معافی کی امید میں وہ بستی کی طرف چلا۔ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ منزل تک پہنچنے اور معافی کی شدید خواہش میں مرتے مرتے اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا۔
آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا کہ کون اسے لے جائے۔ اس کے رب کی رضا کچھ اور تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو (جہاں وہ توبہ کے لیے جارہا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اب دونوں کا فاصلہ دیکھو اور جب ناپا تو اس بستی کو جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا ایک بالشت نعش سے نزدیک پایا، اس لیے وہ بخش دیا گیا۔
تاریخ کے اس قدیم ترین حقیقی واقعے کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا وحی سے اپنے نبی کو علم دینے کا مقصد یہ تھا کہ گناہ گار اور معصوم کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں برابر موجود ہے اور اس کے وضع کردہ پیمانے کے باوجود صرف وہی ذات باری ہے جو لوگوں کو ان کے انتہائی گناہوں کے باوجود معاف کرنے کا حق، اختیار اور مرضی رکھتی ہے۔ کسی اور ہستی یا انسان کو یہ حق، اختیار اور مرضی رہتی دنیا تک حاصل نہیں ہو سکتا۔ روزِ قیامت میدان حشر میں میزان عدل نصب کر کے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔
کتاب مبین میں اسلامی معاشروں کے لیے جزا و سزا کے بہترین طریقہ کار کا علم انسانوں کو دیا ہے، جس کی بہت ہی مختصر اور جامع ترین مثال آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور قصاص ہے۔ تاہم بدقسمتی سے معاشروں کا نظام عدل و انصاف ناقص بشری علمیت اور اہلیت سمیت دنیاوی معیارات سے اٹا پڑا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کو کتاب الہی میں وضع کردہ احکامات کی روشنی میں عدل و انصاف کو رائج کرنے اور فروغ دینے کا کہا گیا ہے، اس کے باوجود چونکہ انسان کئی منفی اور مثبت بشری تقاضوں کی بنا پر جزا و سزا کے ٹھیک ٹھیک فیصلے کرنے سے معذور ہے اور اس کمزوری کی وجہ سے وہ مدبرانہ فیصلے کرنے سے قاصر رہتا ہے، اس لیے معاشروں میں مظلوم اور گناہگار کے درمیان انصاف کے عمل میں انسانی ساختہ معیارات اور ضروریات اور مفادات کی بنیادوں پر افراط و تفریط اور امتیاز برتنا عام ہے، جس کی بڑی مثال ہمارا وطن عزیز ہے۔
مذکورہ صورتحال سے معاشرہ گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں شدید طبقاتی کشمکش اور سماجی سطح پر بے چینی پھیل جاتی ہے۔ ناحق قتل کرنے والے کو حیلوں بہانوں اور قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچا لیا جاتا ہے یا پھر سیاسی مفادات یا مصلحت اور نظریہ ضرورت کے تحت قاتلوں اور ظالموں کو آزادی دی جاتی ہے۔ جب معاشرے میں انصاف کے اصولوں کو صرف اپنے سیاسی، سماجی اور دیگر مفادات کی خاطر قربان کر دیا جائے تو نتیجہ قتل و غارت گری، خون ریزی، لوٹ مار، ناجائز اعمال اور حرام کاری، دنگا فساد کا لچر، بیہودہ اور غیر محفوظ ماحول کی صورت میں سامنے آتا ہے، جس میں عام شہری نشانہ بنتے ہیں۔
وحشت اور اذیت کا کتنا طویل سفر کر کے شہر قائد کے باسی آج اس مقام پر پہنچے ہیں کہ ان کے سامنے خوف و دہشت کی علامت بڑے بڑے بت ٹوٹ رہے ہیں۔ وہ بت اور ان کے صنم کدے جن کے مٹنے کا کوئی تصور ہی محال ہوتا تھا۔ اندھے یقین اور تقلید کی وہ ناؤ جس میں بیٹھ کر وہ بڑے فخر سے لسانیت، مظلومیت اور حقوق کی جنگ کے چپو چلاتے تھے اور اپنی فرقہ وارانہ وابستگی کا غلغلہ بلند کرتے تھے، آج انھی کے ناخداؤں کے ہاتھوں ڈوب رہی ہے۔
نہ وہ این آر او ہوتا اور نہ ہی بدترین لوگ قوم کی رہنمائی کے درجے پر فائز ہوتے۔ نہ ہی مفاہمت کی سیاست ہوتی اور نہ ہی دشمنوں کے فنڈز پر پلنے والی سازشیں تین عشروں تک کراچی میں کشت و خون کا بازار گرم رکھتیں۔ اس کے باوجود اب پھر ایک ایسے بے نام این آر او کی سڑانڈ محسوس ہو رہی ہے جو شاید قاتلوں کو بچانے کے لیے ہے۔ قاتلان عام و خاص اور ان کے حامی و مددگار فتنہ تمام تر سرکردہ گناہوں کے باوجود محض اعتراف گناہ اور ماضی کی غلطیوں سے پر زندگی سے تائب ہو کر نام نہاد نئی راہوں پر دوبارہ سفر شروع کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔
آزمائے ہوئے کی دوبارہ آزمائش کرنا اور ہر شیریں زبان کو دوست سمجھ لینے کا عمل ہر دور اور ہر معاشرے میں خطرناک ثابت ہوا ہے۔ غلطی ہر کسی سے ہوتی ہے۔ انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی حیثیت میں بھی۔ جتنی بڑی غلطی ہوتی ہے اتنا ہی بڑا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ غلطیاں قوموں کی زندگیوں میں بھی آتی ہیں مگر کھبی کبھار کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو قوموں کے عروج اور زوال کا باعث بن جاتی ہیں۔ باضمیر اور قوت ادراک کو اپنی تعمیر اور ترقی میں صرف رکھنے والی قومیں غلطیوں سے سیکھ کر انھیں نہ دہرانے کا عزم کرتی ہیں یا آیندہ اس غلطی سے بچنے کی پوری کوشش یا التزام کرتی ہیں۔
لیکن ٹھہریئے! یہاں اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں اور گرہ سے باندھ لیں کہ غلطی میں اور سازش میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ غلطی کا موجب غیر ارادی پن، لاعلمیت، نسیان، معصومیت، خلاف فطرت طرز عمل اور فکر تو ہو سکتے ہیں لیکن سازش کے پیچھے مکمل انسانی ارادہ، مکمل علم، طرز فکر و خیال اور ہوش و حواس ذریعہ بنتے ہیں۔
سازش کے ٹرینکلائزر کھا کر جھوٹی خوابیدہ مدہوشی میں لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرنا، ان کی املاک پر قبضے جما لینا، بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنا اور انھیں کمتر اور ہیچ سمجھنا، لوگوں کی جمع پونجی کو جبراً اور سر راہ لوٹ لینے والے کو کون بیوقوف اور نادان سونے والا سمجھے گا۔
بعض گناہ اور سیاہ کاریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی ہر حال میں سزا بنتی ہے اور مصلحت یا مجبوری یا کسی بھی وجہ سے سزا معاف نہیں ہو سکتی، جن میں سے ایک ناحق قتل ہے۔ اسلامی قانون ایسے کسی شخص کو بخشنے والا نہیں جس نے کسی انسان کو ناحق، اپنی کسی ذاتی غرض یا اس کے بغیر یا کسی کے کہنے پر صرف دنیاوی فائدے یا فائدے کے لالچ میں کیا ہو۔
قتل کے قانون میں اﷲ کے ہاں اس کے اٹل فیصلے سے کوئی برتر ہے نہ فائق۔ لہٰذا کوئی ایک قتل کرنے والا ہو یا ننانوے... اﷲ کے ہاں ایسے شخص کے لیے واضح فیصلہ موجود ہے اور وہ ہے سر قلم۔ دوسرے لفظوں میں پھانسی، یعنی زندگی کا خاتمہ۔ چونکہ کسی قاتل کے اعتراف گناہ، ندامت اور سچی توبہ سے ان لمحوں کا مداوا نہیں ہو سکتا جس میں کسی ماں کا کلیجہ اپنے قتل ہونے والے بیٹے کے لیے پھٹتا ہے۔
نوجوان بیٹے کے جنازے کو کاندھا دینے والا باپ غم کی تصویر بنتا ہے، جب کوئی بہن اپنے بھائی کے قتل پر اپنے حواس کھو دیتی ہے اور جب شوہر کے قتل پر ایک بیوی کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور اس کے بچے حسرت و یاس میں ڈوب جاتے ہیں۔ بھلا کسی قاتل کے آنسو اور ندامت مقتول کی ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں کے غم اور عظیم نقصان کا مداوا ہو سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔