سائبیریا کے شیر کی کلوننگ
معدوم ہوجانے والے جانور کے فوسل پر تحقیق کا آغاز
کلوننگ جینیاتی سائنس کی ایسی تیکنیک ہے، جس میں ایک جان دار کی ہو بہو نقل 'پیدا' کی جاتی ہے۔ اس تیکنیک میں تولیدی خلیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جاندار کی کلوننگ اس کے جسم کے زندہ خلیوں کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے، جو کلوننگ کے لیے موزوں ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ کئی برس پہلے ماہرین نے ان جانوروں کو 'وجود' میں لانے پر غور شروع کردیا تھا جن کی نسلیں صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ڈائنوسار ہے جو لاکھوں سال پہلے کرۂ ارض سے ناپید ہوگیا تھا۔ ڈائنوسار کے ڈھانچے اور انڈے مختلف خطوں میں دریافت ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں، مگر ابھی تک اس قوی الجثہ جانور کا ایسا رکاز (فوسل) دریافت نہیں ہوا جو بہتر حالت میں ہو اور جس میں عضلات بھی موجود ہوں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے رکازوں کے عضلات میں زندہ خلیے موجود ہوسکتے ہیں جنہیں علیحدہ کرکے کلون کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
کرۂ ارض سے جو جانور معدوم ہوچکے ہیں ان میں سائبیریا کا شیر بھی شامل ہے۔ خونخوار ممالیہ کی یہ نسل غاروں میں رہتی تھی۔ اس لیے اسے سائبیریا کے غاروں میں رہنے والا شیر بھی کہا جاتا تھا۔ حال ہی میں سائنس دانوں کو اس نسل کے شیروں کے دو رکاز ملے ہیں جو کافی بہتر حالت میں ہیں۔ شیر کے دو بچوں کے یہ رکاز سائبیریا کے برفانی علاقے میں برف کی دبیز تہ میں دفن تھے۔ جس ٹیم نے یہ رکاز دریافت کیے، وہ کسی اور تحقیقی منصوبے کے سلسلے میں اس علاقے میں کھدائی کررہی تھی۔
ان رکازوں کو جنوبی کوریا کے ماہرین کے حوالے کیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق سائبیریا کے شیر کے بچے بارہ ہزار سال سے برف کے نیچے دفن تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر انھوں نے ایک رکاز سے کھال اور عضلات کے چند نمونے حاصل کیے ہیں، جن کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ دوسرے شیر کے رکاز کو محفوظ کردیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی اور تیکنیک دست یاب ہوں گی تو اس رکاز کو زیر تحقیق لایا جائے گا۔ ڈاکٹر البرٹ پروتویوف کا کہنا ہے کہ تحقیق کے طریقوں میں مسلسل جدت آرہی ہے۔ چند برس کے بعد امید ہے کہ ناپید جانوروں کو عدم سے وجود میں لانا مشکل نہیں رہے گا۔ فی الحال ماہرین کی توجہ شیر کے رکاز سے زندہ خلیے حاصل کرنے پر ہے۔ رکازوں کے عمدہ حالت میں ہونے کی وجہ سے انھیں زیادہ امید ہے کہ اس میں زندہ خلیے موجود ہوں گے، جن کو کلوننگ کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
یہی وجہ ہے کہ کئی برس پہلے ماہرین نے ان جانوروں کو 'وجود' میں لانے پر غور شروع کردیا تھا جن کی نسلیں صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ڈائنوسار ہے جو لاکھوں سال پہلے کرۂ ارض سے ناپید ہوگیا تھا۔ ڈائنوسار کے ڈھانچے اور انڈے مختلف خطوں میں دریافت ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں، مگر ابھی تک اس قوی الجثہ جانور کا ایسا رکاز (فوسل) دریافت نہیں ہوا جو بہتر حالت میں ہو اور جس میں عضلات بھی موجود ہوں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے رکازوں کے عضلات میں زندہ خلیے موجود ہوسکتے ہیں جنہیں علیحدہ کرکے کلون کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
کرۂ ارض سے جو جانور معدوم ہوچکے ہیں ان میں سائبیریا کا شیر بھی شامل ہے۔ خونخوار ممالیہ کی یہ نسل غاروں میں رہتی تھی۔ اس لیے اسے سائبیریا کے غاروں میں رہنے والا شیر بھی کہا جاتا تھا۔ حال ہی میں سائنس دانوں کو اس نسل کے شیروں کے دو رکاز ملے ہیں جو کافی بہتر حالت میں ہیں۔ شیر کے دو بچوں کے یہ رکاز سائبیریا کے برفانی علاقے میں برف کی دبیز تہ میں دفن تھے۔ جس ٹیم نے یہ رکاز دریافت کیے، وہ کسی اور تحقیقی منصوبے کے سلسلے میں اس علاقے میں کھدائی کررہی تھی۔
ان رکازوں کو جنوبی کوریا کے ماہرین کے حوالے کیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق سائبیریا کے شیر کے بچے بارہ ہزار سال سے برف کے نیچے دفن تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر انھوں نے ایک رکاز سے کھال اور عضلات کے چند نمونے حاصل کیے ہیں، جن کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ دوسرے شیر کے رکاز کو محفوظ کردیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی اور تیکنیک دست یاب ہوں گی تو اس رکاز کو زیر تحقیق لایا جائے گا۔ ڈاکٹر البرٹ پروتویوف کا کہنا ہے کہ تحقیق کے طریقوں میں مسلسل جدت آرہی ہے۔ چند برس کے بعد امید ہے کہ ناپید جانوروں کو عدم سے وجود میں لانا مشکل نہیں رہے گا۔ فی الحال ماہرین کی توجہ شیر کے رکاز سے زندہ خلیے حاصل کرنے پر ہے۔ رکازوں کے عمدہ حالت میں ہونے کی وجہ سے انھیں زیادہ امید ہے کہ اس میں زندہ خلیے موجود ہوں گے، جن کو کلوننگ کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔