بیوہ ہندو عورتوں نے بھی ہولی کا تہوار منایا
اگر وہ رنگین کپڑے پہن لیں یا ماتھے پر بندیا لگا لیں تو معاشرہ انھیں حقارت سے دیکھتا ہے۔
ہندوؤں کے ساتھ ایک بہت غیر معمولی لیکن بہت ہی قابل تعریف چیز ہوئی ہے۔ دہلی سے تقریباً 110 کلو میٹر کے فاصلے پر ورن دھاون نامی قصبہ میں بیوہ عورتوں نے 400 سال کی روایت کو توڑتے ہوئے ہولی کا تہوار منایا جس میں ناچتے ہوئے ایک دوسرے پر رنگ پھینکے جاتے ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ قومی میڈیا نے اس اتنی شاندار تبدیلی کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں دی۔ ہندو مذہب میں بیوہ عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
اگر وہ رنگین کپڑے پہن لیں یا ماتھے پر بندیا لگا لیں تو معاشرہ انھیں حقارت سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید میں، جو بائبل سے بھی زیادہ پرانی ہے، واضح طور پر لکھا ہے کہ بیوہ عورتوں کو معمول کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے لیکن ہندو مذہب کے اجارہ دار برہمنوں نے بیوہ عورتوں کو ایسی زندگی کی طرف دھکیل دیا جو کہ موت سے بھی بدتر ہے۔
اگرچہ بھارت کا آئین آزاد خیالی کا علمبردار ہے لیکن وہ اس تعصب کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکا جب کہ بیوہ ہندو عورتوں کو صدیوں سے ظلم و ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ورن دھاون کی بیوہ عورتوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے برہمنوں کی مرضی کے خلاف رنگوں کے تہوار میں حصہ لیا جب کہ برہمن لوگ بھیگی بلی بنے یہ سب دیکھتے رہے۔ اس سے بیوہ عورتوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوا ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ بیوہ عورتیں اپنی برابری کا حق مانگنے کے لیے جوش و خروش سے جدوجہد کریں گی جیسا کہ وہ مختلف مندروں میں زبردستی داخلے کے لیے کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ بھارت میں آزادی کے وقت سیکولر راستہ اختیار کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب بیوہ عورتوں کی اس نئی لہر نے تنگ نظری کے تالاب میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ بھارت اب کسی حد تک سیکولر ازم کو قبول کرتا محسوس ہونے لگا ہے اگرچہ ابھی کوئی مثالی صورت حال تو نمایاں نہیں ہوئی لیکن لگتا ہے کہ وہ اقلیتوں کو تھوڑی گنجائش دینے لگا ہے۔
جب ''بھارت ماتا کی جے'' کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو اس گنجائش میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اس حوالے سے دو واقعات منظرعام پر آئے ہیں جو باعث تشویش ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں جو کہ ایک ترقی پسند ریاست گردانی جاتی ہے ایک رکن اسمبلی کو اس بنا پر معطل کر دیا گیا کہ اس نے 'بھارت ماتا کی جے' کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔
اس بات کی تو وضاحت نہیں ہو سکی کہ یہ نعرہ لگانا کیوں ضروری تھا کیونکہ نہ تو یہ قومی ترانہ (جنا گنا منا کا حصہ ہے) اور نہ ہی قومی گیت جیسے کہ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' حتیٰ کہ اگر کوئی قومی ترانہ بجتے وقت کھڑا ہونے سے انکار کر دے تو اسے عدم تعظیم یا بدمزگی تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کوئی جرم نہیں۔ ایسا کرنے پر کسی کو قید یا جرمانے کی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ بھارتی آئین ایک لبرل دستاویز ہے جو آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے۔
آئین شکنی تو ناپسندیدہ فعل ہو سکتی ہے لیکن ایک جمہوری معاشرے میں لوگوں کو اس بنا پر سزا دینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ ان کی رائے ہی آئین کی ضمانت ہے نہ کہ ان کے خلاف تعزیرات کی کارروائی کی جائے۔ اگر لوگوں کو یہ کہا جائے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو تو یہ صریحاً جمہوریت کی روح کے منافی ہو گا۔ یہ عوام کا استحقاق ہے کہ وہ کسی تجویز کی حمایت کرتے ہیں یا اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ کوئی چیز ان پر ٹھونسی نہیں جا سکتی۔ وہ اپنی مرضی کے آپ مالک ہیں۔اس پس منظر میں یہ بہت عجیب بات لگتی ہے کہ بھگت سنگھ کی ''شہادت'' کا دن، جسے کہ برطانوی حکمرانوں نے پھانسی دیدی تھی' یکسر فراموش کر دیا گیا۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لادین تھا چنانچہ اپنی مذہبی شناخت کو بہت زیادہ اہمیت دینے والے لوگوں نے اس کی موت کے دن کو درخوراعتناء نہیں سمجھا۔ یہ لوگ عوام کو آزادی سے سوچنے کی اجازت بھی دینا نہیں چاہتے۔ ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ انسانوں پر اچھوت ہونے کا جو عذاب ڈال دیا گیا ہے اسے کس طرح اتارا جائے جسے ہندو مذہب کا بنیادی جزو سمجھا جاتا ہے۔
اس اکیسویں صدی میں بھی ہندو لوگ بالخصوص عورتیں چھوت چھات پر بہت پکا یقین رکھتی ہیں اور کسی کا چھونا تو درکنار کسی اچھوت کا سایہ بھی پڑ جائے تو ان کا مذہب بھرشٹ ہو جاتا ہے حالانکہ قانوناً چھوت چھات ممنوع ہے لیکن اس کے باوجود اس قبیح روایت کو ختم نہیں کیا گیا بالخصوص دیہی بھارت میں اس پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ ہندو معاشرے کو اپنے اندر جھانک کر یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر نچلی ذاتوں کے بارے میں وہ اسقدر بے حس کیوں ہے۔
ایک طرف گائے جیسے جانور کو مقدس درجہ دیا جاتا ہے دوسری طرف انسان کو جانور سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ ہندو گائے کے مارنے پر کہیں زیادہ غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں جب کہ دلت کو مارنا ان کے نزدیک کوئی برا کام نہیں۔ آر ایس ایس جو بھارت کو صرف ہندوؤں کی ریاست بنانا چاہتی ہے اس کو چاہیے کہ انسانوں کے درمیان اسقدر امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی کوشش کرے جس نے سیکڑوں سال سے ہندو معاشرے کو اسیر بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف اسلام میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ وہ سارے ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ اب اسلام میں بھی امتیازی سلوک کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان پر ہندوؤں کی ذات پات کے اثرات مرتب ہو گئے ہیں جس سے کہ اسلام کا چہرہ گہنا گیا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دوسرے ممالک کے مسلمان بھارتی مسلمانوں کو اپنے سے اس بنا پر کمتر خیال کرتے ہیں کہ ان پر ہندوؤں کے اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔ شہنشاہ اکبر جو کہ مغل اعظم کہلاتا ہے جس نے آدھی صدی سے زیادہ عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی اس نے دین الٰہی کے نام سے ایک نیا مذہب ایجاد کر لیا تھا جس میں اس کا دعویٰ تھا کہ اسلام اور ہندو ازم دونوں کی اچھی اچھی چیزیں شامل کر لی گئی ہیں لیکن اس نئے مذہب کو قبولیت حاصل نہ ہو سکی کیونکہ دونوں مذہب اپنی صدیوں پرانی روایات کے پابند تھے۔
اگرچہ ہندو ازم کوئی مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے اور سوچنے کا ایک طریقہ ہے لیکن یہ بعض ایسے عقائد کا اسیر بن چکا ہے جو کسی آزاد خیال معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ آر ایس ایس ہندو ازم کو اور زیادہ سخت گیر بنانے کی اپنی سی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن کئی دہائیوں کی سخت کوششوں کے باوجود اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب معاشرے میں صبر و تحمل اور برداشت پہلے کی نسبت بہت کم ہو چکی ہے۔
ایک بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین، جس نے اپنے ملک سے جلا وطن ہونے کے بعد کولکتہ میں پناہ لے رکھی ہے، اس کا کہنا ہے کہ اگر ہندو اتنے برداشت کرنیوالے نہ ہوتے تو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہر وقت فسادات ہوتے رہتے۔ تسلیمہ نسرین کی اس بات پر ہمیں بطور خاص غور کرنے کی ضرورت ہے۔بہرحال تسلیمہ نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں دو الگ الگ قوموں کی طرح رہتے ہیں۔
ان دونوں میں سماجی سطح پر بہت کم رابطہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے آبائی شہر سیالکوٹ میں ہم ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے اور اس وقت ہم نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا تھا کہ ہم دو مختلف لوگ ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے تھے' اکٹھے کھاتے پیتے تھے اور عید' دیوالی اور ہولی مل کر مناتے تھے۔ لیکن پاکستان کے مطالبے کے بعد یہ صورت حال بدل گئی اور اب جب کہ مذہب کی ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے تو دونوں ملکوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔
کیا تقسیم بہترین حل تھا؟ یہ سوال قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کے سامنے بھی اٹھایا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تقسیم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں کیا۔ تو کیا ان دونوں قوموں کو آپس میں قریب لانے کے لیے کوئی اور راستہ ہو سکتا تھا؟
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اگر وہ رنگین کپڑے پہن لیں یا ماتھے پر بندیا لگا لیں تو معاشرہ انھیں حقارت سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید میں، جو بائبل سے بھی زیادہ پرانی ہے، واضح طور پر لکھا ہے کہ بیوہ عورتوں کو معمول کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے لیکن ہندو مذہب کے اجارہ دار برہمنوں نے بیوہ عورتوں کو ایسی زندگی کی طرف دھکیل دیا جو کہ موت سے بھی بدتر ہے۔
اگرچہ بھارت کا آئین آزاد خیالی کا علمبردار ہے لیکن وہ اس تعصب کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکا جب کہ بیوہ ہندو عورتوں کو صدیوں سے ظلم و ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ورن دھاون کی بیوہ عورتوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے برہمنوں کی مرضی کے خلاف رنگوں کے تہوار میں حصہ لیا جب کہ برہمن لوگ بھیگی بلی بنے یہ سب دیکھتے رہے۔ اس سے بیوہ عورتوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوا ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ بیوہ عورتیں اپنی برابری کا حق مانگنے کے لیے جوش و خروش سے جدوجہد کریں گی جیسا کہ وہ مختلف مندروں میں زبردستی داخلے کے لیے کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ بھارت میں آزادی کے وقت سیکولر راستہ اختیار کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب بیوہ عورتوں کی اس نئی لہر نے تنگ نظری کے تالاب میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ بھارت اب کسی حد تک سیکولر ازم کو قبول کرتا محسوس ہونے لگا ہے اگرچہ ابھی کوئی مثالی صورت حال تو نمایاں نہیں ہوئی لیکن لگتا ہے کہ وہ اقلیتوں کو تھوڑی گنجائش دینے لگا ہے۔
جب ''بھارت ماتا کی جے'' کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو اس گنجائش میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اس حوالے سے دو واقعات منظرعام پر آئے ہیں جو باعث تشویش ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں جو کہ ایک ترقی پسند ریاست گردانی جاتی ہے ایک رکن اسمبلی کو اس بنا پر معطل کر دیا گیا کہ اس نے 'بھارت ماتا کی جے' کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔
اس بات کی تو وضاحت نہیں ہو سکی کہ یہ نعرہ لگانا کیوں ضروری تھا کیونکہ نہ تو یہ قومی ترانہ (جنا گنا منا کا حصہ ہے) اور نہ ہی قومی گیت جیسے کہ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' حتیٰ کہ اگر کوئی قومی ترانہ بجتے وقت کھڑا ہونے سے انکار کر دے تو اسے عدم تعظیم یا بدمزگی تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کوئی جرم نہیں۔ ایسا کرنے پر کسی کو قید یا جرمانے کی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ بھارتی آئین ایک لبرل دستاویز ہے جو آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے۔
آئین شکنی تو ناپسندیدہ فعل ہو سکتی ہے لیکن ایک جمہوری معاشرے میں لوگوں کو اس بنا پر سزا دینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ ان کی رائے ہی آئین کی ضمانت ہے نہ کہ ان کے خلاف تعزیرات کی کارروائی کی جائے۔ اگر لوگوں کو یہ کہا جائے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو تو یہ صریحاً جمہوریت کی روح کے منافی ہو گا۔ یہ عوام کا استحقاق ہے کہ وہ کسی تجویز کی حمایت کرتے ہیں یا اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ کوئی چیز ان پر ٹھونسی نہیں جا سکتی۔ وہ اپنی مرضی کے آپ مالک ہیں۔اس پس منظر میں یہ بہت عجیب بات لگتی ہے کہ بھگت سنگھ کی ''شہادت'' کا دن، جسے کہ برطانوی حکمرانوں نے پھانسی دیدی تھی' یکسر فراموش کر دیا گیا۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لادین تھا چنانچہ اپنی مذہبی شناخت کو بہت زیادہ اہمیت دینے والے لوگوں نے اس کی موت کے دن کو درخوراعتناء نہیں سمجھا۔ یہ لوگ عوام کو آزادی سے سوچنے کی اجازت بھی دینا نہیں چاہتے۔ ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ انسانوں پر اچھوت ہونے کا جو عذاب ڈال دیا گیا ہے اسے کس طرح اتارا جائے جسے ہندو مذہب کا بنیادی جزو سمجھا جاتا ہے۔
اس اکیسویں صدی میں بھی ہندو لوگ بالخصوص عورتیں چھوت چھات پر بہت پکا یقین رکھتی ہیں اور کسی کا چھونا تو درکنار کسی اچھوت کا سایہ بھی پڑ جائے تو ان کا مذہب بھرشٹ ہو جاتا ہے حالانکہ قانوناً چھوت چھات ممنوع ہے لیکن اس کے باوجود اس قبیح روایت کو ختم نہیں کیا گیا بالخصوص دیہی بھارت میں اس پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ ہندو معاشرے کو اپنے اندر جھانک کر یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر نچلی ذاتوں کے بارے میں وہ اسقدر بے حس کیوں ہے۔
ایک طرف گائے جیسے جانور کو مقدس درجہ دیا جاتا ہے دوسری طرف انسان کو جانور سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ ہندو گائے کے مارنے پر کہیں زیادہ غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں جب کہ دلت کو مارنا ان کے نزدیک کوئی برا کام نہیں۔ آر ایس ایس جو بھارت کو صرف ہندوؤں کی ریاست بنانا چاہتی ہے اس کو چاہیے کہ انسانوں کے درمیان اسقدر امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی کوشش کرے جس نے سیکڑوں سال سے ہندو معاشرے کو اسیر بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف اسلام میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ وہ سارے ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ اب اسلام میں بھی امتیازی سلوک کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان پر ہندوؤں کی ذات پات کے اثرات مرتب ہو گئے ہیں جس سے کہ اسلام کا چہرہ گہنا گیا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دوسرے ممالک کے مسلمان بھارتی مسلمانوں کو اپنے سے اس بنا پر کمتر خیال کرتے ہیں کہ ان پر ہندوؤں کے اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔ شہنشاہ اکبر جو کہ مغل اعظم کہلاتا ہے جس نے آدھی صدی سے زیادہ عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی اس نے دین الٰہی کے نام سے ایک نیا مذہب ایجاد کر لیا تھا جس میں اس کا دعویٰ تھا کہ اسلام اور ہندو ازم دونوں کی اچھی اچھی چیزیں شامل کر لی گئی ہیں لیکن اس نئے مذہب کو قبولیت حاصل نہ ہو سکی کیونکہ دونوں مذہب اپنی صدیوں پرانی روایات کے پابند تھے۔
اگرچہ ہندو ازم کوئی مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے اور سوچنے کا ایک طریقہ ہے لیکن یہ بعض ایسے عقائد کا اسیر بن چکا ہے جو کسی آزاد خیال معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ آر ایس ایس ہندو ازم کو اور زیادہ سخت گیر بنانے کی اپنی سی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن کئی دہائیوں کی سخت کوششوں کے باوجود اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب معاشرے میں صبر و تحمل اور برداشت پہلے کی نسبت بہت کم ہو چکی ہے۔
ایک بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین، جس نے اپنے ملک سے جلا وطن ہونے کے بعد کولکتہ میں پناہ لے رکھی ہے، اس کا کہنا ہے کہ اگر ہندو اتنے برداشت کرنیوالے نہ ہوتے تو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہر وقت فسادات ہوتے رہتے۔ تسلیمہ نسرین کی اس بات پر ہمیں بطور خاص غور کرنے کی ضرورت ہے۔بہرحال تسلیمہ نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں دو الگ الگ قوموں کی طرح رہتے ہیں۔
ان دونوں میں سماجی سطح پر بہت کم رابطہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے آبائی شہر سیالکوٹ میں ہم ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے اور اس وقت ہم نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا تھا کہ ہم دو مختلف لوگ ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے تھے' اکٹھے کھاتے پیتے تھے اور عید' دیوالی اور ہولی مل کر مناتے تھے۔ لیکن پاکستان کے مطالبے کے بعد یہ صورت حال بدل گئی اور اب جب کہ مذہب کی ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے تو دونوں ملکوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔
کیا تقسیم بہترین حل تھا؟ یہ سوال قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کے سامنے بھی اٹھایا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تقسیم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں کیا۔ تو کیا ان دونوں قوموں کو آپس میں قریب لانے کے لیے کوئی اور راستہ ہو سکتا تھا؟
(ترجمہ: مظہر منہاس)