سیکولر ازم کا پاکستانی برانڈ
اسلام اور پاکستان یہ دو ایسے تصورات ہیں کہ جنھیں آپ ساتھ ساتھ ادا کریں تو کتنے ماتھوں پر بل پڑتے ہیں۔
SUKKUR:
اسلام اور پاکستان یہ دو ایسے تصورات ہیں کہ جنھیں آپ ساتھ ساتھ ادا کریں تو کتنے ماتھوں پر بل پڑتے ہیں' کتنی زبانیں آگ اگلنے لگتی ہیں' کتنے لہجے تلخ ہو جاتے ہیں اور آپ پر طرح طرح کے سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے۔
پاکستان روشن خیال' سیکولر' لبرل یا پھر وہ لوگ جو اپنے آپ کو عقلی طور پر ملحد یعنی Atheist کہتے ہیں' ان سب کے پاس آپ سے پوچھنے کے لیے سوالات کرنے کی ایک لسٹ ہے جس میں چند گھڑے گھڑائے فقرے ہیں جو تاریخی جھوٹ پر مبنی ہیں' کچھ تصوراتی انجمنیں ہیں اور باقی اسلام اور پاکستان سے شدید نفرت میں بجھے ہوئے زہر آلود سوال۔ جمہوریت' انسانی حقوق اور عالمی برادری کا نعرہ لگانے والوں کو اپنے سیکولر ازم' لبرل ازم یا الحاد کی اتنی فکر نہیں ہوتی جسقدر اسلام اور پھر پاکستان کو بدنام کرنے کی آرزو ہوتی ہے۔
اگر آپ ان کی تنقید اور سوالات کی کل کائنات کو جمع کریں تو ان کی فہرست دو درجن سوالات اور تنقیدی جملوں کے آس پاس ہی رہتی ہے' ان کا سب سے بڑا نعرہ اور سب سے اہم تصور ''قائداعظم کا پاکستان'' ہے۔
اس کے لیے ان کے نزدیک قائداعظم کا تصور ایک ڈکٹیٹر یا آمر مطلق کا سا ہے۔ یعنی اگر قائداعظم کے زمانۂ گورنر جنرلی میں قانون ساز اسمبلی میں کوئی منتخب وزیراعظم خواہ وہ لیاقت علی ہی کیوں نہ ہوتا' قرار داد مقاصد پیش کرنے کی اجازت مانگتا تو قائداعظم اسے فوراً ایک شٹ اپ کال دے دیتے اور اگر اراکین اسمبلی میں ایسی ہی قرار داد مقاصد اسمبلی میں پیش کر بیٹھتے تو قائداعظم فوراً قانون ساز اسمبلی میں تشریف لاتے' اپنی گرجدار آواز میں کہتے خبردار کسی قسم کی کوئی قرار داد لانے کی ضرورت نہیں ''قرار داد لاہور ہی قرار داد مقاصد ہے''۔
اس کے باوجود بھی اگر اسمبلی قرار داد مقاصد منظور کر لیتی تو قائداعظم فوراً اس جمہوری عمل پر خط تنسیخ پھیر دیتے اور ایک آمر کی طرح فرماتے میں جس طرح کا پاکستان چاہتا ہوں ویسا ہی بنے گا' کسی کو اپنی مرضی کا پاکستان بنانے کی اجازت نہیں ہو گی خواہ مخالف اس ملک کی اکثریت ہی کیوں نہ ہو۔ قرارداد مقاصد وہ دستاویز ہے جو ہر اسلام دشمن شخص کے گلے کی پھانس ہے اور وہ ہر وقت اس کی چبھن محسوس کرتا ہے۔
اس لیے کہ اس قرارداد میں انسانوں پر اللہ کی حاکمیت کا اعلان ہے۔ یہ لوگ صرف اعلان سے ہی اسقدر خوفزدہ ہیں کہ اپنی پوری توانائیاں اسے ختم کرنے پر صرف کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے سوالات بہت ہی مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ قرارداد لاہور 23 مارچ کو پیش ہوئی اور 24 مارچ کو منظور ہوئی تو پھر آپ 23 مارچ کو یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں۔ قرارداد میں تو ایک ریاست نہیں بلکہ ریاستوں کا ذکر ہے' اس میں تو پاکستان کا نام بھی نہیں ہے۔
اگر قائداعظم علیحدہ ملک چاہتے تھے تو انھوں نے کیبنٹ مشن پلان کیوں منظور کر لیا جس میں مرکز کے اندر محدود اختیارات والی حکومتیں تھیں' وہ تو نہرو اور پٹیل نے نا منظور کیا اور پاکستان بن گیا' گویا اصل میں پاکستان نہرو اور پٹیل نے بنایا ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ اس طرح وہ قائداعظم کو ایک دوغلا قسم کا سیاستدان ثابت کر دیں کیونکہ ان کی اصل نفرت قائداعظم سے ہے' وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح گزشتہ تین سو سالوں کی تعلیم نے دنیا بھر کو یقین دلا دیا تھا کہ قومیں رنگ' نسل' زبان اور علاقے سے بنتی ہیں لیکن قائداعظم نے ان کے مبلغ علم پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے نہ صرف مذہب کی بنیاد پر قومیت کا نعرہ بلند کیا بلکہ چند سالوں میں نعرے اور اس خواب کو ایک آزاد خود مختار اور اسلامی سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ قائداعظم کا یہ جرم چھوٹا نہیں۔ آکسفورڈ کیمرج اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں میں سیاسیاست' سماجیات اور بشریات وغیرہ جیسے علوم کی کتابیں رد کر دی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے پہلے دن سے یہ طبقہ پاکستان میں موجود مختلف زبانیں بولنے والوں یا مختلف نسلی بنیادوں پر تقسیم کی کوشش میں رہتا ہے۔ قائداعظم کے پاکستان کا انکار اگلا تصور یہ ہے کہ یہ دراصل ایک معمولی سی لکیر کھینچی گئی تھی جس سے دو ملک وجود میں آ گئے تھے۔
ورنہ تو دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہاں بھی مسلمان' ہندو' سکھ اور عیسائی مل جل کر رہتے ہیں اور یہاں بھی' اس لیے یہ مذہب وغیرہ کا ریاست کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس سادہ سی لکیر کے پیچھے وہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کو بھول جاتے ہیں۔ لکیر کے آر پار دس لاکھ انسانوں کی لاشوں کو فراموش کر دیتے ہیں جو اس لیے قتل کر دیے گئے کہ کلمہ پڑھتے تھے یا نہیں پڑھتے تھے۔ یہی وہ قربانی ہے جو اس لکیر کو آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی سیکولر نہیں ہونے دیتی اور یہی میرے ان کرمفرماؤں کا المیہ ہے۔
ان کا قائداعظم کے بارے میں آخری وار یہ ہے کہ وہ شخص سر سے لے کر پاؤں تک مغربی لباس اور مغربی تہذیب میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسا شخص بھلا کسی ملک میں اسلام کو نافذ کر سکتا تھا۔ وہ تو اپنے چھ فٹ کے قد پر اسلام نافذ نہیں کر سکا۔ میرے ان سیکولر اور لبرل دوستوں کے نزدیک سوٹ پہننا' ٹائی لگانا' کرسی پر بیٹھنا یا کار میں سفر کرنا لبرل' سیکولر اور مغربی ہونے کی علامتیں ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں کہ ایک آدمی مسلمان یا ملحد اپنے نظریے کی بنیاد پر ہوتا ہے لباس کی بنیاد پر نہیں۔ اگر مسلمان ہندوستان اور ایران وغیرہ فتح کرنے کے بجائے یورپ کو فتح کرنے چل پڑتے اور وہاں کا اکثریتی مذہب اسلام ہو جاتا تو آج شلوار قمیض کافروں اور پینٹ کوٹ مسلمانوں کا لباس ہوتے۔
قائداعظم سے بڑا مغربی تہذیب و معاشرت اور معاشیات کا ناقد پورے برصغیر میں کوئی نہ تھا۔ کسی کو یقین نہیں آتا تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان افتتاح کے موقع پر ان کی تقریر پڑھ لے۔ یہ ان کی آخری تقریر ہے اور آج بھی اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
اس میں جہاں وہ سود سے پاک بینکاری نظام کے قیام کی بات کرتے ہیں وہیں وہ یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ مغرب کے طرز معیشت و سیاست نے اس قدر تباہی پھیلا دی ہے کہ اب اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ قائداعظم کے بارے میں میرے ان دوستوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے اصل جذبات کا اظہار کریں' ورنہ ان کی ممدوح ملالہ یوسف زئی نے تو اپنی کتاب میں لکھ یا لکھوا دیا کہ ''قائداعظم دراصل ایک رئیل اسٹیٹ یعنی پلاٹ وغیرہ کے لیے جدوجہد کر رہے تھے ریاست کے لیے نہیں۔
پاکستان سے پہلے میرے ان دوستوں کا ہدف صرف اور صرف اسلام ہوتا ہے۔ ان کے ارد گرد دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں۔ اسی ملک میں عیسائی' سکھ' ہندو اور پارسی بھی رہتے ہیں لیکن ان کا ہدف صرف اور صرف اسلام کے پیروکار ہوں گے۔ یہ سید الانبیاء کی ذات کے بارے میں تو بظاہر گفتگو نہیں کرتے لیکن آپ ان کے فیس بک پیج وغیرہ دیکھ لیں تو ان کی نفرت اور غیظ زبانوں کا اندازہ ہو جائے گا۔
وہاں چونکہ یہ چھپے ہوتے ہیں اس لیے ان کے اندر کا بغض اور غلاظت سامنے آتی ہے۔ اسلام کے اصول و قواعد پر بھی بحث کم کرتے ہیں بس اصل نشانہ مولوی ہوتا ہے۔ مولوی کا تمسخر اڑاؤ' اسے جاہل' گنوار' اجڈ' جدید دنیا سے لا علم اور متشدد ثابت کرو اور پھر آخر میں یہ فقرہ بول دو یہ ہے ان کا اسلام''۔ اگر سیکولر ازم یا لبرل ازم ہر مذہب سے انکار اور بیزاری کا نام ہے تو پھر اس ملک میں بسنے والے کسی پادری' کسی سکھ گرنتھی یا ہندو پنڈت کے حوالے سے گفتگو کیوں نہیں ہوتی۔ عیسائی راہبائیں بھی حجاب پہنتی ہیں لیکن پردے کی بات آئے گی تو تنقید اسلام پر کریں گے۔
آپ ان سے گفتگو کریں یہ آپ کو اپنے نظریے کے حق میں دلائل بہت کم لا کر دیں گے بس آپ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیں گے۔ شراب اس لیے نہیں پئیں گے کہ ان کا ذائقہ انھیں اچھا لگتا ہے' انھیں علم ہے کہ دنیا پوری اس کے نقصانات پر روز گفتگو کرتی ہے لیکن اس لیے پئیں گے کہ اس سے اسلام کے ایک مسلم اصول کی نفی ہوتی ہے۔
یہ کمال کے لوگ ہیں عورت کے حقوق و احترام کی باتیں کرتے ہیں لیکن کسی فیشن شو میں بیٹھے ہوں تو ہر ماڈل کو یوں ناپ تول رہے ہوتے ہیں جیسے وہ کسی دکان پر سجا ہوا کوئی مال ہو۔ ان کے ہاں آمریت کی مخالفت اور جمہوریت کی حمایت بھی منافقت سے بھری ہوئی ہے۔ ضیاء الحق کی آمریت کو گالی دیتے ہیں اور پرویز مشرف کی آمریت کو سراہتے ہیں۔ بھارت کی مسلم کش جمہوریت کے گیت گاتے ہیں لیکن مصر میں اسلام پسند جمہوریت کو گالی دیتے ہیں۔ کس بلا کے یہ لوگ ہیں۔
اسلام اور پاکستان یہ دو ایسے تصورات ہیں کہ جنھیں آپ ساتھ ساتھ ادا کریں تو کتنے ماتھوں پر بل پڑتے ہیں' کتنی زبانیں آگ اگلنے لگتی ہیں' کتنے لہجے تلخ ہو جاتے ہیں اور آپ پر طرح طرح کے سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے۔
پاکستان روشن خیال' سیکولر' لبرل یا پھر وہ لوگ جو اپنے آپ کو عقلی طور پر ملحد یعنی Atheist کہتے ہیں' ان سب کے پاس آپ سے پوچھنے کے لیے سوالات کرنے کی ایک لسٹ ہے جس میں چند گھڑے گھڑائے فقرے ہیں جو تاریخی جھوٹ پر مبنی ہیں' کچھ تصوراتی انجمنیں ہیں اور باقی اسلام اور پاکستان سے شدید نفرت میں بجھے ہوئے زہر آلود سوال۔ جمہوریت' انسانی حقوق اور عالمی برادری کا نعرہ لگانے والوں کو اپنے سیکولر ازم' لبرل ازم یا الحاد کی اتنی فکر نہیں ہوتی جسقدر اسلام اور پھر پاکستان کو بدنام کرنے کی آرزو ہوتی ہے۔
اگر آپ ان کی تنقید اور سوالات کی کل کائنات کو جمع کریں تو ان کی فہرست دو درجن سوالات اور تنقیدی جملوں کے آس پاس ہی رہتی ہے' ان کا سب سے بڑا نعرہ اور سب سے اہم تصور ''قائداعظم کا پاکستان'' ہے۔
اس کے لیے ان کے نزدیک قائداعظم کا تصور ایک ڈکٹیٹر یا آمر مطلق کا سا ہے۔ یعنی اگر قائداعظم کے زمانۂ گورنر جنرلی میں قانون ساز اسمبلی میں کوئی منتخب وزیراعظم خواہ وہ لیاقت علی ہی کیوں نہ ہوتا' قرار داد مقاصد پیش کرنے کی اجازت مانگتا تو قائداعظم اسے فوراً ایک شٹ اپ کال دے دیتے اور اگر اراکین اسمبلی میں ایسی ہی قرار داد مقاصد اسمبلی میں پیش کر بیٹھتے تو قائداعظم فوراً قانون ساز اسمبلی میں تشریف لاتے' اپنی گرجدار آواز میں کہتے خبردار کسی قسم کی کوئی قرار داد لانے کی ضرورت نہیں ''قرار داد لاہور ہی قرار داد مقاصد ہے''۔
اس کے باوجود بھی اگر اسمبلی قرار داد مقاصد منظور کر لیتی تو قائداعظم فوراً اس جمہوری عمل پر خط تنسیخ پھیر دیتے اور ایک آمر کی طرح فرماتے میں جس طرح کا پاکستان چاہتا ہوں ویسا ہی بنے گا' کسی کو اپنی مرضی کا پاکستان بنانے کی اجازت نہیں ہو گی خواہ مخالف اس ملک کی اکثریت ہی کیوں نہ ہو۔ قرارداد مقاصد وہ دستاویز ہے جو ہر اسلام دشمن شخص کے گلے کی پھانس ہے اور وہ ہر وقت اس کی چبھن محسوس کرتا ہے۔
اس لیے کہ اس قرارداد میں انسانوں پر اللہ کی حاکمیت کا اعلان ہے۔ یہ لوگ صرف اعلان سے ہی اسقدر خوفزدہ ہیں کہ اپنی پوری توانائیاں اسے ختم کرنے پر صرف کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے سوالات بہت ہی مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ قرارداد لاہور 23 مارچ کو پیش ہوئی اور 24 مارچ کو منظور ہوئی تو پھر آپ 23 مارچ کو یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں۔ قرارداد میں تو ایک ریاست نہیں بلکہ ریاستوں کا ذکر ہے' اس میں تو پاکستان کا نام بھی نہیں ہے۔
اگر قائداعظم علیحدہ ملک چاہتے تھے تو انھوں نے کیبنٹ مشن پلان کیوں منظور کر لیا جس میں مرکز کے اندر محدود اختیارات والی حکومتیں تھیں' وہ تو نہرو اور پٹیل نے نا منظور کیا اور پاکستان بن گیا' گویا اصل میں پاکستان نہرو اور پٹیل نے بنایا ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ اس طرح وہ قائداعظم کو ایک دوغلا قسم کا سیاستدان ثابت کر دیں کیونکہ ان کی اصل نفرت قائداعظم سے ہے' وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح گزشتہ تین سو سالوں کی تعلیم نے دنیا بھر کو یقین دلا دیا تھا کہ قومیں رنگ' نسل' زبان اور علاقے سے بنتی ہیں لیکن قائداعظم نے ان کے مبلغ علم پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے نہ صرف مذہب کی بنیاد پر قومیت کا نعرہ بلند کیا بلکہ چند سالوں میں نعرے اور اس خواب کو ایک آزاد خود مختار اور اسلامی سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ قائداعظم کا یہ جرم چھوٹا نہیں۔ آکسفورڈ کیمرج اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں میں سیاسیاست' سماجیات اور بشریات وغیرہ جیسے علوم کی کتابیں رد کر دی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے پہلے دن سے یہ طبقہ پاکستان میں موجود مختلف زبانیں بولنے والوں یا مختلف نسلی بنیادوں پر تقسیم کی کوشش میں رہتا ہے۔ قائداعظم کے پاکستان کا انکار اگلا تصور یہ ہے کہ یہ دراصل ایک معمولی سی لکیر کھینچی گئی تھی جس سے دو ملک وجود میں آ گئے تھے۔
ورنہ تو دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہاں بھی مسلمان' ہندو' سکھ اور عیسائی مل جل کر رہتے ہیں اور یہاں بھی' اس لیے یہ مذہب وغیرہ کا ریاست کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس سادہ سی لکیر کے پیچھے وہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کو بھول جاتے ہیں۔ لکیر کے آر پار دس لاکھ انسانوں کی لاشوں کو فراموش کر دیتے ہیں جو اس لیے قتل کر دیے گئے کہ کلمہ پڑھتے تھے یا نہیں پڑھتے تھے۔ یہی وہ قربانی ہے جو اس لکیر کو آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی سیکولر نہیں ہونے دیتی اور یہی میرے ان کرمفرماؤں کا المیہ ہے۔
ان کا قائداعظم کے بارے میں آخری وار یہ ہے کہ وہ شخص سر سے لے کر پاؤں تک مغربی لباس اور مغربی تہذیب میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسا شخص بھلا کسی ملک میں اسلام کو نافذ کر سکتا تھا۔ وہ تو اپنے چھ فٹ کے قد پر اسلام نافذ نہیں کر سکا۔ میرے ان سیکولر اور لبرل دوستوں کے نزدیک سوٹ پہننا' ٹائی لگانا' کرسی پر بیٹھنا یا کار میں سفر کرنا لبرل' سیکولر اور مغربی ہونے کی علامتیں ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں کہ ایک آدمی مسلمان یا ملحد اپنے نظریے کی بنیاد پر ہوتا ہے لباس کی بنیاد پر نہیں۔ اگر مسلمان ہندوستان اور ایران وغیرہ فتح کرنے کے بجائے یورپ کو فتح کرنے چل پڑتے اور وہاں کا اکثریتی مذہب اسلام ہو جاتا تو آج شلوار قمیض کافروں اور پینٹ کوٹ مسلمانوں کا لباس ہوتے۔
قائداعظم سے بڑا مغربی تہذیب و معاشرت اور معاشیات کا ناقد پورے برصغیر میں کوئی نہ تھا۔ کسی کو یقین نہیں آتا تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان افتتاح کے موقع پر ان کی تقریر پڑھ لے۔ یہ ان کی آخری تقریر ہے اور آج بھی اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
اس میں جہاں وہ سود سے پاک بینکاری نظام کے قیام کی بات کرتے ہیں وہیں وہ یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ مغرب کے طرز معیشت و سیاست نے اس قدر تباہی پھیلا دی ہے کہ اب اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ قائداعظم کے بارے میں میرے ان دوستوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے اصل جذبات کا اظہار کریں' ورنہ ان کی ممدوح ملالہ یوسف زئی نے تو اپنی کتاب میں لکھ یا لکھوا دیا کہ ''قائداعظم دراصل ایک رئیل اسٹیٹ یعنی پلاٹ وغیرہ کے لیے جدوجہد کر رہے تھے ریاست کے لیے نہیں۔
پاکستان سے پہلے میرے ان دوستوں کا ہدف صرف اور صرف اسلام ہوتا ہے۔ ان کے ارد گرد دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں۔ اسی ملک میں عیسائی' سکھ' ہندو اور پارسی بھی رہتے ہیں لیکن ان کا ہدف صرف اور صرف اسلام کے پیروکار ہوں گے۔ یہ سید الانبیاء کی ذات کے بارے میں تو بظاہر گفتگو نہیں کرتے لیکن آپ ان کے فیس بک پیج وغیرہ دیکھ لیں تو ان کی نفرت اور غیظ زبانوں کا اندازہ ہو جائے گا۔
وہاں چونکہ یہ چھپے ہوتے ہیں اس لیے ان کے اندر کا بغض اور غلاظت سامنے آتی ہے۔ اسلام کے اصول و قواعد پر بھی بحث کم کرتے ہیں بس اصل نشانہ مولوی ہوتا ہے۔ مولوی کا تمسخر اڑاؤ' اسے جاہل' گنوار' اجڈ' جدید دنیا سے لا علم اور متشدد ثابت کرو اور پھر آخر میں یہ فقرہ بول دو یہ ہے ان کا اسلام''۔ اگر سیکولر ازم یا لبرل ازم ہر مذہب سے انکار اور بیزاری کا نام ہے تو پھر اس ملک میں بسنے والے کسی پادری' کسی سکھ گرنتھی یا ہندو پنڈت کے حوالے سے گفتگو کیوں نہیں ہوتی۔ عیسائی راہبائیں بھی حجاب پہنتی ہیں لیکن پردے کی بات آئے گی تو تنقید اسلام پر کریں گے۔
آپ ان سے گفتگو کریں یہ آپ کو اپنے نظریے کے حق میں دلائل بہت کم لا کر دیں گے بس آپ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیں گے۔ شراب اس لیے نہیں پئیں گے کہ ان کا ذائقہ انھیں اچھا لگتا ہے' انھیں علم ہے کہ دنیا پوری اس کے نقصانات پر روز گفتگو کرتی ہے لیکن اس لیے پئیں گے کہ اس سے اسلام کے ایک مسلم اصول کی نفی ہوتی ہے۔
یہ کمال کے لوگ ہیں عورت کے حقوق و احترام کی باتیں کرتے ہیں لیکن کسی فیشن شو میں بیٹھے ہوں تو ہر ماڈل کو یوں ناپ تول رہے ہوتے ہیں جیسے وہ کسی دکان پر سجا ہوا کوئی مال ہو۔ ان کے ہاں آمریت کی مخالفت اور جمہوریت کی حمایت بھی منافقت سے بھری ہوئی ہے۔ ضیاء الحق کی آمریت کو گالی دیتے ہیں اور پرویز مشرف کی آمریت کو سراہتے ہیں۔ بھارت کی مسلم کش جمہوریت کے گیت گاتے ہیں لیکن مصر میں اسلام پسند جمہوریت کو گالی دیتے ہیں۔ کس بلا کے یہ لوگ ہیں۔