مسلم ملکوں کے حکمرانوں کا وژن

سعودی عرب میں نارتھ تھنڈر کے نام سے مسلم ملکوں کی جو مشترکہ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں


Zaheer Akhter Bedari March 24, 2016
[email protected]

KARACHI: سعودی عرب میں نارتھ تھنڈر کے نام سے مسلم ملکوں کی جو مشترکہ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں اس کا ایک مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس خصوصی فوجی مشق کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ مشکل کی کسی بھی گھڑی میں مسلم ملک متحد ہیں۔ دنیا میں مسلم ملکوں کی تعداد 57 بتائی جاتی ہے، سعودیہ میں 21 مسلم ملکوں کے سربراہ جمع ہوئے اور ان سربراہوں نے اکٹھے ہو کر جمعہ کی نماز ادا کی۔ بلاشبہ یہ ایک منفرد واقعہ ہے، اس سے قبل بھٹو کے دور میں مسلم ملکوں کے سربراہوں کا جو اجلاس لاہور میں ہوا تھا وہ بھی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا۔

اس قسم کی تاریخی تقاریب کی بذات خود ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کے اجتماعات کا اہتمام کرنے والوں کے بھی کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں جمع ہونے والے 21 مسلم ملکوں کے سربراہوں کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کو اس اجتماع کے ذریعے یہ پیغام دینا ہے کہ مشکل کی کسی گھڑی میں مسلم ملک متحد ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک کامیاب اجتماع ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ''مشکل وقت'' کی تعریف یا تعین کس طرح کیا جائے گا؟

آج کل ساری دنیا جس مشکل وقت سے گزر رہی ہے وہ دہشت گردی ہے اور اتفاق سے دہشت گردی مسلم ملکوں اور نام نہاد مسلم انتہا پسندوں کے ذریعے ہی پہچانی جا رہی ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو اس بلا سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے 34 مسلم ملکوں کا ایک اتحاد پہلے ہی سے بنا لیا ہے۔ کیا سعودی عرب میں ہونے والا 21 مسلم ملکوں کا یہ اجتماع اور اس حوالے سے ہونے والی فوجی مشقوں کو اسی اتحاد کا ایک حصہ سمجھا جانا چاہیے؟

اس حوالے سے میڈیا میں یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ 34 ملکوں کے اتحاد میں ایران، عراق اور یمن جیسے ملک کیوں شامل نہیں، اسی تناظر میں اس اتحاد کو ایران کے خلاف اتحاد کہا جا رہا ہے۔ چونکہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی برادرانہ ہیں اس لیے پاکستان کا اہل علم اور اہل فکر طبقہ اور اعتدال پسند سیاستدان اس حوالے سے پاکستان کے حکمران طبقے کو محتاط رہنے اور اس جھگڑے سے دور رہنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی انتہاپسندی اور اس کا بائی پروڈکٹ دہشت گردی ساری دنیا کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندوں کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار مسلم ملک اور مسلمان ہی کیوں ہو رہے ہیں؟

اگر مذہبی انتہا پسند دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہیں تو سب سے زیادہ مظالم فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت کر رہا ہے ان دو مسلمان دشمن ملکوں کے خلاف دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار خودکش حملے ان دو ملکوں کے خلاف کیوں نہیں کیے جا رہے ہیں صرف اور صرف مسلم ملکوں پر ہی یہ عذاب کیوں نازل ہے؟ آج یمن، شام، عراق، پاکستان، افغانستان اور افریقہ کے مسلم ملک ہی کیوں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہیں؟

امریکا اور مغربی ملکوں میں بھی پٹھان کوٹ کی طرح اکا دکا حملے ہوتے رہتے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں صبح دہشت گردی سے ہوتی ہے اور شام دہشت گردی کے جلو میں رات میں بدلتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا اس پس منظر میں سعودی عرب کی فوجی مشقیں اور 21 مسلم ملکوں کے سربراہوں کا اجلاس دہشت گردوں کو خوفزدہ کر سکتا ہے؟ اگر یہ فوجی مشقیں مذہبی انتہا پسندوں کے لیے وارننگ نہیں ہیں تو پھر کس کے لیے وارننگ ہیں؟

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کو اسپانسر کرنے والی طاقتیں کون سی ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ داعش جیسی تنظیم اس قدر طاقتور اور اس قدر بڑے نیٹ ورک کے ساتھ کس کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے کہ آج ملک کے ملک اس کی زد میں آتے چلے جا رہے ہیں۔ اور ہر آنے والے دن میں اس کا پھیلاؤ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے؟ شام میں لڑی جانے والی لڑائی کا تعلق بھی اگر مذہبی انتہا پسندی ہی سے ہے تو پھر یہاں روس اور امریکا کیوں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نظر آتے ہیں اور یمن میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے حریف کیوں نظر آتے ہیں؟

مجھے بار بار اس حقیقت کی نشان دہی کرنی پڑتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جیسے جیسے دنیا کے غریب عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست عوام کی اس بے چینی کا رخ بڑے ماہرانہ اور عیارانہ طریقے سے دوسری سمت موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کا ایک واضح ثبوت یا مثال مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے کہ آج یہ عفریت ساری دنیا کی توجہ کا مرکز ہی نہیں بنی ہوئی ہے بلکہ اس کی وجہ سے مسلمان فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ دنیا کے 21 مسلم ملکوں کے سربراہ سعودی عرب میں جمع ہوئے یہ ایک اچھی مثال ہے۔

سعودی عرب میں نارتھ تھنڈر کے نام سے منفرد فوجی مشقیں ہوئیں یہ بھی قابل تعریف بات ہے لیکن کسی مسلم ملک کی طرف سے یہ تجویز آئی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی اس سازش کے خلاف دنیا بھر کے مسلم مفکروں عالموں کی کوئی کانفرنس ہونی چاہیے جس کا واحد مقصد یا ایجنڈا مسلمانوں کی فرقوں میں تقسیم کے اسباب کا پتہ چلانا اور اس تقسیم کو ختم کر کے مسلمانوں کو متحد کرنا ہو؟

جنگیں خواہ کسی نوعیت کی ہوں کسی مقصد کے تحت لڑی جا رہی ہوں ان میں اسلحے کا استعمال لازمی ہوتا ہے اور اسلحے کی صنعت اور تجارت دونوں ہی مغربی ملکوں کے ہاتھوں میں ہے جس سے یہ ملک کھربوں ڈالر کما رہے ہیں۔

سعودی عرب میں ہونے والی نارتھ تھنڈر فوجی مشقوں میں جو ہتھیار استعمال کیے گئے وہ ان ہی ترقی یافتہ ملکوں کی ہتھیاروں کی صنعت کے فراہم کردہ ہیں۔ کیا کسی مسلم ملک کے سربراہ نے کبھی یہ تجویز پیش کی ہے کہ کوئی ایسی کانفرنس بلائی جائے جس میں مسلم ملکوں کو ہتھیاروں کی صنعتیں لگانے کے واحد ایجنڈے پر غور کیا جائے اور مغربی ملکوں سے اربوں کھربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے پر اپنا بھاری زرمبادلہ خرچ کرنے کے بجائے مسلم ملکوں کو ہر قسم کے اسلحے میں خودکفیل ہونے کی ترغیب فراہم کی جائے؟ ایسا اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ مسلم ملکوں کے حکمران طبقات کو قوم ملک کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان کی واحد دلچسپی زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول اور اقتدار پر موروثی قبضہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں