کرکٹ کا زوال پاکستان میں ملال
تقریباً 20 برس گزر گئے، راج کپور اپنے بیڈ روم میں بیٹھے اور کچھ لیٹے سے تھے،
تقریباً 20 برس گزر گئے، راج کپور اپنے بیڈ روم میں بیٹھے اور کچھ لیٹے سے تھے، بقول اہل خانہ کے چونک کے زور سے بولے ''مل گیا؟'' اہل خانہ نے پوچھا کون سا جواہر مل گیا، کہا انارکلی لاہور کا ڈرامہ، زیبا بختیار کو کئی برس ڈھونڈنے میں لگ گئے، میری فلم حناؔ کی تیاری زیبا بختیار، ذرا سوچیے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے لوگ کس طرح ایکٹ کرتے ہیں نہ کہ چڑیا مار کر فضائی خبریں لانے والے کرکٹ کے جواہر تلاش کر رہے ہیں اور اپنی کوتاہی پر نظر ہی نہیں۔
جس ملک کی عورتوں کی ٹیم جیت گئی آخر مردوں کی ٹیم کیوں ہاری اس کو دیکھنے کے لیے ان کے ذمے داروں اور سہولت کاروں کا بغور جائزہ لیں، لیکن میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ کرکٹ پر میرا یہ پہلا تبصرہ ہے۔
کیونکہ عام طور پر سیاست پر ہی لکھا کرتا یا تھوڑا بہت ادب پر، مگر ان دنوں بار بار پاکستان کی شکست دیکھ کر پاکستانیت کی رگ جاگی اور اسٹوڈنٹس لائف میں کراچی کے علاقے صدر جہانگیر پارک میں حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور کبھی کبھی امتیاز احمد نے لڑکپن میں کھیلنا سکھایا، مشتاق محمد 2 برس سینئر تھے کئی برس ان اکابرین کرکٹ کے ساتھ کھیلا مگر دادی مرحومہ نے کہا کہ دن بھر کھیلو گے تو پڑھو گے کب۔ 1963ء سے کرکٹ چھوڑی تو اب گلی کوچوں میں رک کر دیکھ لیتا یا کسی دوست کے ساتھ کبھی اسٹیڈیم چلا جاتا۔ میرے کلاس میٹ حسینی صاحب نے تو اسپورٹس کو اپنا لیا اور وہ کرکٹ پر ہی لکھتے رہے۔
رہ گیا میں تو شب و روز سیاست میں گزرے۔ طالب علمی کے خاتمے پر ڈیڑھ 2 برس عملی سیاست پر خاموش تماشائی یا قلم کی زبان شورِ دل کی حرارت نے کرکٹ پر لکھنے کو مجبور کیا کہ پاکستان کی کرکٹ پر کچھ لکھا جائے۔
سو آیئے چلتے ہیں اسٹیڈیم کی طرف، بلندی اور فاصلے پر ہزارہا کرسیاں بلندیوں اور اطراف میں لگی ہیں، پرجوش شائقین 22 کھلاڑیوں کی موجودگی میں 13 سرگرم، ہزاروں تماشبین ٹی وی کیمرے دنیا کی نگاہیں شائقین تو کبھی تالیاں بجا کر بھڑاس نکال رہے ہیں کامریڈوں کی تربیت گاہ جیوتی باسو کا علاقہ بھارت کا لبرل علاقہ سراج الدولہ کی راج دہانی کی کیا بات، بنگال کی خواہ مشرق ہو یا مغرب جس پر آفریدی کو کہنا پڑا کہ بے تحاشا محبت ملی زبردست کراؤڈ (crowd) نہ رنگ و نسل کی نفرت نہ مذہب کی آگ کھیل میں، کھیل کو کھیل ہی رہنا تھا اور وہ کھیل رہا یہ نہیں کہ ہمارے اینکروں نے کھیل کو طبل جنگ کہنا شروع کیا۔
کھیل تو کھیل ہے ہر ملک اپنے ڈسپلن اور انصاف کی بنیاد پر بہتر پرفارمنس کرتا ہے یہ نہیں کہ چڑی مار اپنے سے گفتگو کی جائے تمام چینلوں کو دیکھیے تبصرہ نگار شترِ بے مہار بنے گفتگو کر رہے ہیں کون سی زمین گنوا بیٹھی کس کو تو ہارنا ہوتا ہے چھوٹے اور بڑے ملک کا مسئلہ نہیں یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہاں لوگوں کو میرٹ پر لیا گیا، چھانٹ پھٹک کے جانچا گیا اور سب سے بڑھ کر میرٹ، یہاں ایسا لگتا ہے کہ 24 گھنٹے لوگوں کو کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا کے رکھا جائے۔
بس یہ غالباً حکومتی پالیسی کا حصہ ہے کیوں کہ پاکستان کو حکومت نے مسائلستان بنا دیا ہے سو کرکٹ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جہاں لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے پھر یہ کاروباری ممالک میں خبروں میں صرف مشکل سے 2 منٹ دیے جاتے ہیں یہاں پچاسوں چینل رات دن کرکٹ، کرکٹ کرتے رہتے ہیں اور اس موضوع پر ٹیکنیکل گفتگو نام کو نہیں کہ کس کی پرفارمنس کیسی تھی، فاسٹ باؤلر درکار تھے۔
پچ پر میڈیم پیس یا کہ اسپنر درکار تھے زیادہ دن نہ ہوئے تھے نیوزی لینڈ اور بھارت کا مقابلہ ہوا تو گھر میں گھس کر نیوزی لینڈ نے ان کو شکست فاش دی کیوں کہ انھوں نے وکٹ ٹیسٹنگ کی اور چیک کر لیا کہ یہاں اسپنر کی ضرورت ہے اور انھوں نے 3 اسپنر لگائے اور بھارت کو ڈھیر کر دیا مگر ہمارے یہاں ہر وقت شور و غوغا، دھمال اور جلال سے کام لیا جاتا رہا، پنجابی نژاد سوڈھی نے نیوزی لینڈ کی جانب سے انتہائی کمال پرفارمنس دی۔ معاملہ میرٹ اور کس وکٹ پر کیا اور کیسے کرنے کا نعرہ بازی ہر مسئلے کا حل نہیں، نیوزی لینڈ نے 3 اسپنر لگائے اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے دیکھیے کہ افغانستان ساؤتھ افریقہ کی ٹیم کو شکست دیتے دیتے رہ گیا، معاملہ ہنر مندی، زیرکی اور دانشمندی کا ہے اور جب ٹیم میں کمزوری پیدا ہوتا ہے تو آپس میں نفاق پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کی ٹیم کو محض لعن طعن کی ضرورت نہیں بلکہ سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور اچھا ٹیلنٹ چننے کی ضرورت ہے بلوچستان سے ٹیلنٹ کا چناؤ از حد ضروری ہے اس کی ایک وجہ بلوچستان کی ٹیم میں نمایندگی، دوم ان کے یہاں با کمال لڑکے موجود ہیں جو مسلسل نظر انداز کیے جا رہے ہیں کم از کم ایک دو لڑکے وہاں سے لینے کی ضرورت ہے خواہ اس میں رسک فیکٹر ہی سے نہ گزرنا پڑے۔
اس سے صوبائیت کی نفی بھی ضروری ہے کہ بلوچستان سے کوئی نمایندہ ٹیم میں شامل نہیں ہے وہاں کے ٹیلنٹ کو ہمارے کوچ حضرات آگے بڑھائیں یقینا ٹیم کو منظم کریں ہمارے میڈیا کو بھی ضبط و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے یہ نہیں کہ 24 گھنٹے کوئی کام نہیں بس ہر وقت کمنٹری، بے وزن گفتگو ایسا نہیں کہ ہماری ٹیم بے وزن اور بے عمل ہے ہمارے وکٹ کیپر ایک اچھے وکٹ کیپر کے علاوہ اچھے بیٹسمین ہیں۔ عام طور پر وکٹ کیپر اچھے بیٹسمین ہوتے ہیں جیسا کہ 50ء کی دہائی میں امتیاز احمد، بھارتی بیٹسمین کرن مورے۔ پاکستان میں میڈیا کی ہولناکی کی وجہ سے یا تو لوگوں کو بلند کر کے اوج ثریا پر چڑھا دیا جاتا ہے یا پاتال میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شعیب ملک، ثانیہ کے شوہر ہونے کی بنیاد پر ہدف بنے ہیں یہ تو اچھا ہوا وہ ''را'' کے ایجنٹ نہ کہلائے ورنہ آج کل اگر کچھ سمجھ میں نہ آئے تو ''را'' کے ایجنٹ کا اسٹیکر لگا دیا جائے تو تمام مسائل کا واحد حل یہی ہے۔ اب تک جو پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سلیکشن میں میرٹ کی جگہ سفارش نے لے رکھی ہے یا مفادات کا پہلو ہے۔ ٹی وی کو دیکھیے ہر آدمی بے سرو پیر کی اڑا رہا ہے اور لوگوں کو ایسا جیسے آمادہ جنگ کر رہا ہو نہ کہ کھیل سے سیکھنا ضروری ہے اور اصلاح کر کے ترقی کرنی ہے۔
آئیے! چند منٹ فٹ بال کی طرف بھی، جو عالم میں نمبر 1 تفریح کا ذریعہ ہے، لیاری میں یہاں عالمی ٹیلنٹ ہے مگر یہ تو غریبوں کی بستی ہے جو سب سے جدا ہے۔ انٹرنیٹ پر 8 سالہ بچے نے جو لیاری سے تھا اس نے شرٹ بدلتے ہوئے فٹ بال کو پاؤں سے گرنے نہ دیا اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے لیکن پاکستان میں میرٹ دشمن قوتیں برسر اقتدار ہیں۔