موسیقی کے اثرات
’’یہ ریشمی زلفیں، یہ شربتی آنکھیں… انھیں دیکھ کر جی رہے ہیں سبھی‘‘۔ اس پرانے گانے کی آواز میرے کانوں میں پڑی
''یہ ریشمی زلفیں، یہ شربتی آنکھیں... انھیں دیکھ کر جی رہے ہیں سبھی''۔ اس پرانے گانے کی آواز میرے کانوں میں پڑی، میں نے اس جانب دیکھا تو کچھ دور ایک درمیانی عمر کے صاحب کھڑی گاڑی میں تنہا بیٹھے اس گانے کے سحر میں کھوئے دکھائی دیے۔ ان کے چہرے سے اندازہ ہو رہا تھاکہ وہ اس وقت کن جذبات سے مغلوب تھے۔ ان کی سوچ اس گانے کے بول کے مطابق سفر کرتی فلمی محبتوں کی وادیوں سے گزر رہی تھی، وہ بجھے بجھے، اداس و غمگین سی کیفیت میں اس گانے کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے۔
جانے وہ کون سا ماضی کا دکھ تھا جو اس گانے نے انھیں یاد دلادیا تھا۔ وہ کبھی کبھی سرد آہ بھرتے اور پھر مایوسی سے محبت بھرا وہ گیت سننے لگتے۔ میں اس شخص کے جذبات کو سمجھ سکتا تھا کیونکہ میں بھی کبھی کم عمری کے دور میں اسی طرح کے فلمی گانے، غزلیں شوق سے سنتا تھا اور عموماً اداس اور رومانوی خیالات کی دنیا میں مگن رہتا تھا۔ نہ کھیل کود میں حصہ لیتا، نہ کسی تعمیری مشغلے میں۔ جہاںوقت ملتا، تنہائی میں جاکر مورال ڈاؤن کرنے اور ڈپریس کرنے والی اسی قسم کی موسیقی سننے اور اپنا قیمتی وقت اور صلاحیتیں ضایع کرنے لگتا۔
موسیقی کسی نہ کسی شکل میں ہر زاویے سے ہماری زندگی کو گھیرے ہوئے ہے۔ خواہ وہ انسانی آواز و ساز پر مبنی موسیقی کی صورت میں ہو، نیچر یعنی پرندوں کے چہچہانے، بارش برسنے، بادل گرجنے یا سمندر کی لہروں کی صورت میں، یا پھر دل کھینچنے والی متاثرکن انداز میں دی جانے والی اذان یا تلاوت قرآن کی صورت میں۔ مثبت موسیقی، سر اور بول انسان کی روحانی و جسمانی کایا پلٹنے کا کرشمہ کرسکتے ہیں، نتائج اس کے حق میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
مگر اسی طرح منفی موسیقی اس کے ذہن کو حقیقت سے دور خوابوںکی رنگین دنیا میں گم کرکے اس کے مستقبل کو تاریک بھی کرسکتی ہے۔ قانون قدرت ہے جو بیچ زمین میں بویا جاتا ہے اسی کے مطابق پیداوار باہر آتی ہے، اگر بیج امرود کا ڈالا گیا ہے تو نتیجہ بھی امرود کی صورت میں ہی نکلے گا آم کی نہیں۔ اگر ہمارا اوڑھنا بچھوڑنا منفی، لغو، بے مقصد موسیقی ہے تو ہمارے سوچنے کا انداز بھی تعمیری، منطقی اور بامقصد نہیں ہوسکتا بلکہ غیر حقیقی و فلمی ہوگا۔ جس کے سبب ہم کبھی زندگی اور اپنے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں کرسکتے، لہٰذا دنیاوی و روحانی ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتے۔
موسیقی زندگی کا اہم ترین جز ہے، جس کا ہماری ذہنی و روحانی کارکردگی سے گہرا تعلق ہے۔ موسیقی کا ہماری زندگی میں کیا عمل دخل ہے، یہ کیسے ہماری زندگی کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے، کیسے ہماری کامیابی یا ناکامی میں کردار ادا کرتی ہے، اس کا کچھ اندازہ شاید ہمیں ان چند مثالوں سے ہوجائے۔ پاکستانی ٹیم 1992 کا ورلڈ کپ کیسے جیتی، وسیم اکرم اس راز پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''پاکستانی کرکٹ ٹیم اس ورلڈ کپ میں نصرت فتح علی خان کی قوالیوں کے زبردست زیرِ اثر تھی، اس زمانے میں جاوید میانداد جیسے کرکٹر پہلے ہی خان صاحب کے die-hard فین تھے، ان کا نصرت فتح علی سے تعلق دوستی کی شکل اختیار کرگیا تھا، اس لیے خان صاحب نے بھی ان دنوں کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی اور ان کا پاکستانی ٹیم سے بھی رفاقت کا ایک رشتہ قائم ہوگیا تھا۔
لہٰذا جاوید میانداد کی درخواست پر انھوں نے ٹیم کے لیے ورلڈ کپ میں شرکت سے قبل خصوصی طور پر ''اﷲ ہو'' جیسی قوالیاں اور دیگر کلام ریکارڈ کرایا۔ پاکستانی ٹیم ان کی متاثر کن انداز میں گائی ہوئی اﷲ اور محمدؐ کے پاک ذکر کی پُرجوش اور جذبہ بڑھانے والی قوالیاں ہر وقت سنتی۔ میچ سے پہلے، میچ کے بعد، پریکٹس اور وقفوں کے دوران، اور یقیناً... فتح کی خوشی مناتے وقت بھی، اور ہم سب اس ورلڈ کپ کے نتیجے سے آگاہ ہیں۔ پاکستانی ٹیم فخر سے ورلڈ کپ ٹرافی لیے وطن واپس لوٹی۔
موسیقی کے انقلابی اثرات کی ایک اور بڑی مثال ہمیں 1965 کی جنگ میں گائے گئے ملی نغموں کی صورت میں ملتی ہے، جب پاک فوج کے جوان سرحد پر اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی فوج رکھنے والے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے جامِ شہادت نوش کررہے تھے۔ ایسے میں نورجہاں، امانت علی خان جیسے گائیکوں کے گائے ''اے وطن پاک وطن'' اور ''اے راہِ حق کے شہیدو'' جیسے ایمان افروز ملی نغموںنے پاک فوج کے حوصلوں اور جذبوں کو پہاڑوںکی مانند بلند اور ناقابل شکست بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ فوج کی بے مثال شجاعت کے ساتھ ان نغموں کی بدولت پوری پاکستانی قوم بھی قربانی کے جذبے سے سرشار بزدل دشمن کے خلاف میدان عمل میں اتر آئی اور دشمن کو ناک سے لکیریں کھنچوانے اور ذلت سے لاشیں چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کردیا۔
کامیابی اور سننے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہم کیا سنتے ہیں، اسی سے ہمارے نتائج تشکیل پاتے ہیں۔ اسی پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔ ہم جو سنتے ہیں اسی کے مطابق ہمارے ذہنی، جسمانی و روحانی ردعمل ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر ہم بے مقصد، عشقیہ موسیقی سنتے ہیں تو نتیجہ دل و دماغ پر بوجھ اور مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسی موسیقی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے، ہمیں یاد ماضی میں دھکیل کر مستقبل سے غافل کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
جب کہ مثبت موسیقی، کوئی صوفیانہ کلام مثلاً بھلے شاہ، علامہ اقبال، بابا فرید، سلطان باہو کو سنیں تو وہ قلب کو توانائی اور روشنی عطا کرنے کا باعث بنتے ہیں، انسان کے اندر حقیقت حیات اور قدرت کے اسرار و رموز سمجھنے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں کی موسیقی سننے کے نتیجے میں نہ صرف ہماری باطنی و ذہنی کیفیت مختلف ہوتی ہے بلکہ چہروں اور وجود سے ظاہر ہونے والے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر بھی اس تجربے سے گزرا اور اس فرق کو محسوس کرچکا ہوں۔ مجھ پر یہ انکشاف اس وقت ہوا جب میں ایک بار کام کے سلسلے میں ایک شخص کے پاس پہنچا، جس کے پاس پہلے بھی جایا کرتا تھا، مگر اس روز میں نصرت فتح علی خان کی آواز میں بابا بھلے شاہ کا کلام ''تیرے عشق نچایا'' سنتے ہوئے اس متاثر کن قوالی کے زیرِ اثر وہاں پہنچا۔ وہ قوالی بڑی بھرپور روحانی اثرات کی حامل تھی جس نے میری پوری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی اور مجھے بھی قوالی کے اس صوفیانہ رنگ میں رنگ دیا تھا۔ جب اس شخص نے مجھے دیکھا تو اس کا رویہ پہلے سے مختلف تھا، اس بار اس کی آنکھوں میں میرے لیے ایک مختلف تاثر تھا، غالباً میری اندرونی کیفیت چہرے یا پھر جسم سے اٹھنے والی لہروں کے ذریعے اس تک منتقل ہوگئی تھی۔
اس نے اس روز میرا کا م بھی فوراً کردیا جس کی مجھے توقع نہ تھی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ موسیقی میں کتنی طاقت ہے۔ اس کے ذریعے کتنے موثر طریقے سے اچھے یا برے پیغام آگے منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ کیوں آج دنیا کے کونے کونے میں منفی موسیقی کو سرخی پاؤڈر لگا کر ہر فرد کے کانوں تک پہنچایا جارہا ہے۔مثبت موسیقی انقلاب برپا کرسکتی ہے، شکست کو فتح میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم زہر آلود موسیقی کا انتخاب کرکے اپنی صلاحیتوں اور زندگی کو ضایع کرتے ہیں یا بامقصد موسیقی کے ذریعے بلندیوں کی جانب پرواز کرتے ہوئے نئی دنیائیں دریافت کرتے ہیں۔
جانے وہ کون سا ماضی کا دکھ تھا جو اس گانے نے انھیں یاد دلادیا تھا۔ وہ کبھی کبھی سرد آہ بھرتے اور پھر مایوسی سے محبت بھرا وہ گیت سننے لگتے۔ میں اس شخص کے جذبات کو سمجھ سکتا تھا کیونکہ میں بھی کبھی کم عمری کے دور میں اسی طرح کے فلمی گانے، غزلیں شوق سے سنتا تھا اور عموماً اداس اور رومانوی خیالات کی دنیا میں مگن رہتا تھا۔ نہ کھیل کود میں حصہ لیتا، نہ کسی تعمیری مشغلے میں۔ جہاںوقت ملتا، تنہائی میں جاکر مورال ڈاؤن کرنے اور ڈپریس کرنے والی اسی قسم کی موسیقی سننے اور اپنا قیمتی وقت اور صلاحیتیں ضایع کرنے لگتا۔
موسیقی کسی نہ کسی شکل میں ہر زاویے سے ہماری زندگی کو گھیرے ہوئے ہے۔ خواہ وہ انسانی آواز و ساز پر مبنی موسیقی کی صورت میں ہو، نیچر یعنی پرندوں کے چہچہانے، بارش برسنے، بادل گرجنے یا سمندر کی لہروں کی صورت میں، یا پھر دل کھینچنے والی متاثرکن انداز میں دی جانے والی اذان یا تلاوت قرآن کی صورت میں۔ مثبت موسیقی، سر اور بول انسان کی روحانی و جسمانی کایا پلٹنے کا کرشمہ کرسکتے ہیں، نتائج اس کے حق میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
مگر اسی طرح منفی موسیقی اس کے ذہن کو حقیقت سے دور خوابوںکی رنگین دنیا میں گم کرکے اس کے مستقبل کو تاریک بھی کرسکتی ہے۔ قانون قدرت ہے جو بیچ زمین میں بویا جاتا ہے اسی کے مطابق پیداوار باہر آتی ہے، اگر بیج امرود کا ڈالا گیا ہے تو نتیجہ بھی امرود کی صورت میں ہی نکلے گا آم کی نہیں۔ اگر ہمارا اوڑھنا بچھوڑنا منفی، لغو، بے مقصد موسیقی ہے تو ہمارے سوچنے کا انداز بھی تعمیری، منطقی اور بامقصد نہیں ہوسکتا بلکہ غیر حقیقی و فلمی ہوگا۔ جس کے سبب ہم کبھی زندگی اور اپنے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں کرسکتے، لہٰذا دنیاوی و روحانی ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتے۔
موسیقی زندگی کا اہم ترین جز ہے، جس کا ہماری ذہنی و روحانی کارکردگی سے گہرا تعلق ہے۔ موسیقی کا ہماری زندگی میں کیا عمل دخل ہے، یہ کیسے ہماری زندگی کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے، کیسے ہماری کامیابی یا ناکامی میں کردار ادا کرتی ہے، اس کا کچھ اندازہ شاید ہمیں ان چند مثالوں سے ہوجائے۔ پاکستانی ٹیم 1992 کا ورلڈ کپ کیسے جیتی، وسیم اکرم اس راز پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''پاکستانی کرکٹ ٹیم اس ورلڈ کپ میں نصرت فتح علی خان کی قوالیوں کے زبردست زیرِ اثر تھی، اس زمانے میں جاوید میانداد جیسے کرکٹر پہلے ہی خان صاحب کے die-hard فین تھے، ان کا نصرت فتح علی سے تعلق دوستی کی شکل اختیار کرگیا تھا، اس لیے خان صاحب نے بھی ان دنوں کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی اور ان کا پاکستانی ٹیم سے بھی رفاقت کا ایک رشتہ قائم ہوگیا تھا۔
لہٰذا جاوید میانداد کی درخواست پر انھوں نے ٹیم کے لیے ورلڈ کپ میں شرکت سے قبل خصوصی طور پر ''اﷲ ہو'' جیسی قوالیاں اور دیگر کلام ریکارڈ کرایا۔ پاکستانی ٹیم ان کی متاثر کن انداز میں گائی ہوئی اﷲ اور محمدؐ کے پاک ذکر کی پُرجوش اور جذبہ بڑھانے والی قوالیاں ہر وقت سنتی۔ میچ سے پہلے، میچ کے بعد، پریکٹس اور وقفوں کے دوران، اور یقیناً... فتح کی خوشی مناتے وقت بھی، اور ہم سب اس ورلڈ کپ کے نتیجے سے آگاہ ہیں۔ پاکستانی ٹیم فخر سے ورلڈ کپ ٹرافی لیے وطن واپس لوٹی۔
موسیقی کے انقلابی اثرات کی ایک اور بڑی مثال ہمیں 1965 کی جنگ میں گائے گئے ملی نغموں کی صورت میں ملتی ہے، جب پاک فوج کے جوان سرحد پر اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی فوج رکھنے والے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے جامِ شہادت نوش کررہے تھے۔ ایسے میں نورجہاں، امانت علی خان جیسے گائیکوں کے گائے ''اے وطن پاک وطن'' اور ''اے راہِ حق کے شہیدو'' جیسے ایمان افروز ملی نغموںنے پاک فوج کے حوصلوں اور جذبوں کو پہاڑوںکی مانند بلند اور ناقابل شکست بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ فوج کی بے مثال شجاعت کے ساتھ ان نغموں کی بدولت پوری پاکستانی قوم بھی قربانی کے جذبے سے سرشار بزدل دشمن کے خلاف میدان عمل میں اتر آئی اور دشمن کو ناک سے لکیریں کھنچوانے اور ذلت سے لاشیں چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کردیا۔
کامیابی اور سننے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہم کیا سنتے ہیں، اسی سے ہمارے نتائج تشکیل پاتے ہیں۔ اسی پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔ ہم جو سنتے ہیں اسی کے مطابق ہمارے ذہنی، جسمانی و روحانی ردعمل ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر ہم بے مقصد، عشقیہ موسیقی سنتے ہیں تو نتیجہ دل و دماغ پر بوجھ اور مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسی موسیقی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے، ہمیں یاد ماضی میں دھکیل کر مستقبل سے غافل کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔
جب کہ مثبت موسیقی، کوئی صوفیانہ کلام مثلاً بھلے شاہ، علامہ اقبال، بابا فرید، سلطان باہو کو سنیں تو وہ قلب کو توانائی اور روشنی عطا کرنے کا باعث بنتے ہیں، انسان کے اندر حقیقت حیات اور قدرت کے اسرار و رموز سمجھنے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں کی موسیقی سننے کے نتیجے میں نہ صرف ہماری باطنی و ذہنی کیفیت مختلف ہوتی ہے بلکہ چہروں اور وجود سے ظاہر ہونے والے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر بھی اس تجربے سے گزرا اور اس فرق کو محسوس کرچکا ہوں۔ مجھ پر یہ انکشاف اس وقت ہوا جب میں ایک بار کام کے سلسلے میں ایک شخص کے پاس پہنچا، جس کے پاس پہلے بھی جایا کرتا تھا، مگر اس روز میں نصرت فتح علی خان کی آواز میں بابا بھلے شاہ کا کلام ''تیرے عشق نچایا'' سنتے ہوئے اس متاثر کن قوالی کے زیرِ اثر وہاں پہنچا۔ وہ قوالی بڑی بھرپور روحانی اثرات کی حامل تھی جس نے میری پوری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی اور مجھے بھی قوالی کے اس صوفیانہ رنگ میں رنگ دیا تھا۔ جب اس شخص نے مجھے دیکھا تو اس کا رویہ پہلے سے مختلف تھا، اس بار اس کی آنکھوں میں میرے لیے ایک مختلف تاثر تھا، غالباً میری اندرونی کیفیت چہرے یا پھر جسم سے اٹھنے والی لہروں کے ذریعے اس تک منتقل ہوگئی تھی۔
اس نے اس روز میرا کا م بھی فوراً کردیا جس کی مجھے توقع نہ تھی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ موسیقی میں کتنی طاقت ہے۔ اس کے ذریعے کتنے موثر طریقے سے اچھے یا برے پیغام آگے منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ کیوں آج دنیا کے کونے کونے میں منفی موسیقی کو سرخی پاؤڈر لگا کر ہر فرد کے کانوں تک پہنچایا جارہا ہے۔مثبت موسیقی انقلاب برپا کرسکتی ہے، شکست کو فتح میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم زہر آلود موسیقی کا انتخاب کرکے اپنی صلاحیتوں اور زندگی کو ضایع کرتے ہیں یا بامقصد موسیقی کے ذریعے بلندیوں کی جانب پرواز کرتے ہوئے نئی دنیائیں دریافت کرتے ہیں۔