کراچی کے ساتھ منظم سازش کیوں…

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دہشت گردی، یہ ایسے عفریت ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

لاہور:
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دہشت گردی، یہ ایسے عفریت ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمارے لیے چیلنج بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ ایسا کڑوا سچ ہے جسے تسلیم کرلینا اور ان کے سدباب کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم 'سب کچھ ٹھیک' کا راگ الاپتے رہے تو بچا کھچا جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ طوفان آنے سے پہلے ہی اس کے لیے حفاظتی اقدامات کر لیے جائیں۔ طاقت کی بنیاد پر فیصلہ کرنا اور میاں مٹھو بنے رہنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ اتنا کچھ ہمارے ساتھ ہوا لیکن ہمارے حکمران اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اسی پرانی روش پر قائم ہیں۔ یاد رکھیں! ملک و ملت کو منظم کیے بغیر ہمارا وجود مکمل نہیں ہوتا۔ اگر ہم تندرست رہیں گے تو ہر کام باآسانی سرانجام دے سکتے ہیں۔

ایک قوم بننے کے لیے ہمیں لیڈر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیڈر یعنی راستہ دکھانے والا، وقت اور حالات کا تعین کرنے والا اور تمام رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر احساس کو جگا دینے والا لیڈر کہلاتا ہے۔ جو ہر قسم کی نفسانی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے آپ کو ملک و ملت کے لیے وقف کردیتا ہے۔

دنیا میں یوں تو بہت لیڈر آئے اور چلے گئے لیکن ان میں سے چند ہی لیڈر ایسے تھے جو دنیا کے لیے باعث تقلید بن سکے، جیسے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، مسٹر نیلسن مینڈیلا، ماؤزے تنگ وغیرہ جن کا نام رہتی دنیا تک رہے گا، ان کے علاوہ بھی ملک کو محب وطن لیڈران ملے لیکن انھیں یا تو موقع فراہم نہیں کیا گیا یا پھر کسی سازش کے تحت شہید کردیا گیا، جیسے قائد ملت لیاقت علی خان، نواب خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ملک و ملت کی خاطر سب کچھ قربان کردیا اور غریب و متوسط طبقے کے لیے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔

ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی مشن ہوتا ہے، جسے وہ فرض سمجھ کر ادا کرتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ وغیرہ بنے، لیکن لیڈر بننے کے لیے ایسا کوئی ادارہ نہیں جہاں وہ علم حاصل کرے۔ یہ تو قدرت خداوندی کا عطیہ ہوتا ہے، ایسا ہی عطیہ اس ملک و ملت کو قدرت الٰہی نے اس عظیم لیڈر کی صورت میں عطا کیا ہے جس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنا مشن غریبوں اور ملک و ملت کی خدمت بنایا اور اس کے لیے دن رات ایک کردیے اور اس عظیم ہستی نے اپنی ذات کی پرواہ کیے بغیر اپنی طالبعلمی کے زمانے میں غوروفکر کا ایسا راستہ اختیار کیا جو نہایت کٹھن تھا، لیکن اسی کٹھن راستے پر چلتے ہوئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔

11 جون 1978 (اے پی ایم ایس او)، 18 مارچ 1984 (مہاجر قومی موومنٹ کا قیام)، 26 جولائی 1997 (متحدہ قومی موومنٹ) کے طویل اور تکلیف دہ سفر کو بڑی جانفشانی سے طے کیا اور تحریک کو جلا بخشی۔ ایم کیو ایم کی طرز پر پورے ملک میں کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو غریب و متوسط طبقے کی نمایندگی کرتی ہو، ملک میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں موروثی سیاست کرتی ہیں، جن کا خاندان در خاندان سیاست کی گدی سنبھالے ہوئے ہیں، لیکن موروثی سیاست کرنے والے غریب و متوسط طبقے کو اپنی اجارہ داری کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، چاہیں جتنی قربانی دے دیں لیکن غریب کارکنان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

مظلوم عوام کی حق پرست جماعت ان تمام جماعتوں سے بالاتر ہے جس نے غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو اعلیٰ ایوانوں میں پہنچاکر ان کی خدمت کا عملی ثبوت پیش کیا۔ یہی وہ جرم ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اور ان کے آلہ کار پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کو ہر سطح پر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ظلم چاہے کتنا ہی بڑھ جائے فتح حق کی ہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں جو بھی انسان بستے ہیں۔


ان کا رنگ و نسل، زبان یہاں تک کہ مذاہب بھی الگ الگ ہیں، لیکن جس گھرانے میں وہ پرورش پاتا ہے، وہاں کے لب و لہجہ اور رہن سہن اختیار کرتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ دل و دماغ، یہ دو علیحدہ علیحدہ انسانی اعضا ہیں جو علیحدہ علیحدہ کام سرانجام دیتے ہیں۔

اکثر لوگوں سے دل و دماغ کے معاملے پر بحث کرتے ہوئے سنا ہوگا کہ دل سے نہیں دماغ سے کام لو۔ کسی بھی حقائق کو جاننے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے دل کے ساتھ ساتھ دماغ کی رضامندی ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو کس نظام کے تحت چلایا جارہا ہے؟ کس نظام کی بنیاد پر ملک میں قانون کی بالادستی حاصل ہے؟ لیکن قانون کو نافذ کرنے کے لیے تمام تر قوانین بنانے کے بعد قانون نافذ کرنے والوں کو اختیارات دیے گئے ہیں کہ جو مجرم ہے اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے، غلط اور صحیح کا تعین کرنے کے لیے عدلیہ کو تمام تر اختیارات حاصل ہیں۔

فیصلہ کرنے کے تمام تر اختیارات عدلیہ کو حاصل ہیں۔ کسی بھی قانون نافذ کرنے والے کو یہ اختیارات حاصل نہیں کہ وہ چادر اور چار دیواری کو پامال کرے اور ملزم کو ازخود مجرم قرار دے کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اگر ایسا قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں تو اسے سراسر ظلم و جبر کہا جائے گا۔ جو سراسر قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے حقائق پر مبنی سیکڑوں واقعات عدلیہ میں زیر سماعت ہیں، یہاں تک کہ کسی بھی مجرم یا کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کو گرفتار کرکے لاپتہ کردینا قانون سے رو گردانی کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہی سب کچھ ہوتا رہا تو عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا، ہماری عدلیہ ہی غریبوں کا آخری سہارا ہے کیونکہ حکمراں جماعت عوام کو کسی بھی سطح پر ریلیف دینے کو تیار نہیں ہے۔

الیکشن میں دعوے کرنا، عوام کو سبز باغ دکھانا ان کا وطیرہ رہا ہے اور اسی کی بنیاد پر حکمراں جماعتیں کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انصاف کی فراہمی میں نہ صرف رکاوٹ ڈالی جائے بلکہ ایسا شہر جو پاکستان کا دل ہے، جسے سب تسلیم بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود اس شہر کے باسیوں کے حقوق غصب کیے جائیں، پانی، بجلی، توانائی جیسی بنیادی سہولتیں چھین لی جائیں۔

سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا شہر کراچی ہے، لیکن یہاں کے مستقل باشندوں کو حکومت بلدیاتی سطح پر بھی پاور دینے کو تیار نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کو تقریباً چار ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن اس کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے یوسی چیئرمین اور دیگر سیٹوں پر ابھی تک حکومت سندھ کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور نہ ہی میئر، ڈپٹی میئر کو حلف تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی، اس میں تاخیری حربے حکومت سندھ کی جانب سے استعمال کیے جارہے ہیں، جو سراسر کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظلم ہے۔

انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اسی شہر کے باسیوں سے آپریشن کے نام پر پولیس بھتہ وصول کررہی ہے۔ جہاں کہیں بھی دہرا معیار قائم ہوگا وہاں فساد جنم لے گا اور دہشت گردی کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔ بے روزگاری، مہنگائی، اقربا پروری انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان رکاوٹوں کے سدباب کے لیے انصاف کی فراہمی کو ہر سطح پر ہر خاص و عام کے لیے یکساں بنانا ہوگا۔

جب تک دہرے معیار کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک حالات پر قابو پانا ممکن ہوگا، کیونکہ اس ملک میں بس چند خاندانوں کی حکمرانی ہے جس کی وجہ سے ملک میں دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ نے جنم لیا، جو غریب کو غریب تر بنانے میں مصروف ہے۔ جب تک ملک میں گلے سڑے سسٹم کا خاتمہ عمل میں نہیں لایا جائے گا اس وقت تک کسی بھی فیصلے تک پہنچنا ناممکن ہے۔
Load Next Story