کورس کی کتابیں کس قدر اہم

پنجاب میں کورس کی کتاب میں قومیت کے حوالے سے کچھ ایسا لکھ دیا گیا جو یقیناً ناگوار تھا۔


Shehla Aijaz March 24, 2016
[email protected]

پنجاب میں کورس کی کتاب میں قومیت کے حوالے سے کچھ ایسا لکھ دیا گیا جو یقیناً ناگوار تھا۔ 2010 میں عبدالحمیدتگہ اور عبدالعزیز تگہ کی تحریر کردہ کتاب کے کسی ایک سبق پر اتنے سال کسی کی نگاہ نہ پڑی تھی اور بالآخر پڑی تو میاں شہباز شریف نے سختی سے اس کی انکوائری کا حکم دیا۔ کتابوں کی تحریر، اس کی ایڈیٹنگ اور طباعت ایک بہت اہم فریضہ ہے کہ اس سے دوست دشمن اور اپنے پرائے ہوجاتے ہیں۔

اس کام میں ذمے داری اور حقائق کی شہادت کا معاملہ اتنا آسان نہیں کہ جس کا دل چاہا قلم چلادیا اور صفحے کے صفحے سیاہ کردیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اگر اس اہم فریضے کی ادائیگی کے لیے سختی کا حکم دیا ہے تو لگے ہاتھ تمام جماعتوں کی کورس کی کتابوں کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔

ترقی کے اس دور میں بے شمار پبلشرز کاروبار لیے بیٹھے ہیں کہ بے شمار اسکولز اور کالجز کھلے ہیں جو مناسب کمیشن پر اس کاروبار کو چلوانے میں مدد کر رہے ہیں، بظاہر یہ اتنا مشکل نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت یہ خاصا کٹھن ہے، کیونکہ ان کتابوں کو پڑھ کر نئی نسل کو عملی زندگی میں میدان میں اترنا ہے اور غلط معلومات یا ادھوری معلومات نہایت خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلیمی قابلیت کے حوالے سے پنجاب کا درجہ بہتر ہے۔

وہاں کتب کا معیار بھی اچھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب میرے بھائی کا لاہور جانا ہوا تو انھوں نے وہاں کیمسٹری کی کتابوں کے لیے مختلف دکانوں کا سروے کیا لیکن مطلوبہ کتاب کی کمی کے باعث وہ مل نہ سکی۔

معلوم کرنے پر پتا چلا کہ کسی دوست کے بھانجے کو اس کی ضرورت تھی کیونکہ اس میں زیادہ بہتر طریقے سے لکھا گیا ہے جب کہ کراچی کے کسی کالج میں جہاں وہ زیر تعلیم ہے اس معیار کی کتاب نہیں، اس کا دوست اپنے کزن کی لاہور سے منگوائی کتاب سے مدد لے کر نوٹس بناتا ہے۔

اس طرح کراچی کے بعض اچھے اسکولز میں حساب کی کتاب پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی لگی ہے۔ بات صرف قابلیت کی ہے، چاہے زرخیز ذہن ملک کے کسی بھی حصے سے ہو یا دنیا کے کسی کونے سے ہمیں اسے تسلیم کرلینا چاہیے، لیکن چیکنگ کا نظام بھی اس کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے ہم نے بی ایس سی اور بی کام و گیارہویں اور بارہویں جماعت کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرکے چھپوائیں، اس سے پہلے یہ کتابیں صرف انگریزی میں چھپتی تھیں اور اردو میڈیم کے طالب علموں کو بہت دقت ہوتی تھی، ہمارا یہ تجربہ بہت مقبول ہوا اس کے علاوہ اب ہم بی کیٹ، سی کیٹ اور دوسرے مقابلوں کے لیے بھی کتب چھاپ رہے ہیں۔ یہ کراچی کے ایک بڑے تعلیمی و پبلشر کا کہنا تھا۔

کتابوں کی تصدیق اور مواد کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ''یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے کتابیں لکھوانا مشکل نہیں ہے لیکن اس کی تصدیق، نظرثانی بہت اہم اور نہایت مشکل ہے۔ یقین کریں ہم اتنے دھکے کھاتے ہیں حالانکہ ہمارا نام ہے، ہمارا بڑا کام بھی ہے لیکن خاص کر تحقیقی کتب کے سلسلے میں بہت ٹینشن ہوتی ہے۔ ایک بار ڈاکٹر ابواللیث صدیقی سے نظرثانی کے لیے مواد بھجوایا اور سخت الجھن کہ کیا ہوگا کیونکہ ان کی ایک ناں بہت سے مسائل جنم دے سکتی تھی۔

تمام پروف ریڈنگ، ترجمے اور شروع سے آخر تک بہت سے مراحل ہوتے ہیں پہلی بار بھی تھا، لیکن شکر تھا کہ انھیں ٹائم ملا اور اس طرح کتاب چھپ کر آئی۔ ہمارے لیے یہ آسان ہے کہہ دینا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نظرثانی بہت بڑی ذمے داری ہوتی ہے کیونکہ اگر کچھ غلط ہوا تو پبلشر کے ساتھ ایک بڑے نام پر بھی انگلیاں اٹھیں گی، تخلیقی کام اور کورس کی کتابیں بڑی ذمے داری مانگتی ہیں۔ پبلشر کے نام کے ساتھ نہ تو میرا یا میرے خاندان کا نام نہیں جڑا بلکہ یہ میرے شفیق استاد کا نام ہے جن کی رہنمائی اور ہمت نے اس کام کو کرنے میں مدد دی۔

یہ کہنا تھا کراچی کے ایک بڑے پبلشر کا جن سے کچھ عرصے پہلے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تھی۔ شاید یہ ایک طالب علم کا اپنے استاد سے روحانی رشتے کا اثر ہے کہ ان کی کتب تعلیم کے حوالے سے کئی نسلوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔

پنجاب میں کتب کے معیار کی بات ہو رہی تھی اتفاقاً اپنی عزیز کی بچی کی کتابیں دیکھنے کا موقع ملا۔ کتاب تیسری جماعت کی اسلامیات کی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق سبق تھا اس کتاب میں بت کی تصویر دیکھ کر سخت حیرت ہوئی اسی طرح اسلامیات کی دوسری کلاس کی کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے بارے میں تحریر تھا اور ساتھ ایک سمندر کی تصویر جس میں لوگوں کو پانی میں ڈوبتے دکھایا گیا تھا۔

شاید یہ ہماری ہی کم علمی ہے، بہرحال کتابیں نہایت رنگین اور جماعت کے لحاظ سے خاصی مشکل تھیں، یقیناً پبلشرز کے مقابلے میں اس کتاب کو مشکل دیکھ کر ہی پرائیویٹ اسکول والوں نے اسے منتخب کیا ہوگا، لیکن بعض اوقات ان مقابلوں میں ہم ایک ایسی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں جو ہماری حدود سے بالاتر ہوجاتے ہیں۔ قرآن میں واضح طور پر ہے ''یہ حقیقت ہے کہ کان، آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔'' (بنی اسرائیل۔36)

کراچی کے ایک اعلیٰ اسکول کی نویں جماعت کی اردو کی کتاب میں ''قائد اعظم اور نظم و ضبط'' یہ تھا سبق کا عنوان جس کے اوپر دائیں جانب قدرت اللہ شہاب کا نام لکھا تھا جن سے کون ناواقف ہے۔ قائد اعظم سے انسیت کے باعث اسے بغور پڑھا۔ خاصا دلچسپ تھا لیکن اسے پڑھ کر پہلا خیال جو ابھرا وہ نظم و ضبط سے متعلق نہ تھا، بلکہ ایسا ہی کیوں؟ اتفاق سے خاندان کے کچھ بڑے پرانے مسلم لیگی تھے، مہاتما گاندھی کے حوالے سے بہت کچھ مشہور تھا، سینہ در سینہ منتقل ہوا اب کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے یا نہیں، اس کا علم نہیں لیکن انھیں جس طرح پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک بھارتی فلم میں انھیں اپنے تئیں فرشتہ تک بنادیا، بہرحال بحث اس سے نہیں ہے۔

بات بہت مختصر سی ہے قائداعظم بہت شریف، مخلص اور ایمان دار انسان تھے۔ انھوں نے جو کچھ کیا اپنی قوم کے لیے یہاں تک کہ اپنی سگی اولاد کو بھی چھوڑ دیا۔ اپنی ساری دولت ملک و قوم کے نام کردی لیکن کیا کسی اور انداز میں قائداعظم کی ذات سے نظم و ضبط کا واقعہ لکھنا ممکن نہ تھا قدرت اللہ شہاب کی حب الوطنی کو سلام۔ قائداعظم کی قوم سے محبت کو سلام۔ بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں، پھر شک کا عنصر اس طرح سے کیوں چھوڑا گیا۔

معصوم ذہنوں میں نجانے کس طرح کس انداز میں اپنے قائد کا تصور قائم ہو۔ شاید چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ پر بات جب میرے قائداعظم کی ہو تو کیا کریں کہ رہا نہیں جاتا، لیکن جو ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے اس سے پہلو تہی نہ کریں کیونکہ ہمیں اپنی قوم بنانی ہے، بگاڑنی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں