یہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں
آلودگی ہمارے دور کا سب سے سنگین اور گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے
ISLAMABAD:
ماحولیاتی آلودگی آج ہمارے لیے ایک ایسے سنگین اور خطرناک مسئلے کے طور پر ابھر رہی ہے کہ جس کا سدباب نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ہمارا ماحول اپنے قدرتی اور فطری پن کو کھو بیٹھے گا اور آنے والی نسلیں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوکر معاشرے کو ایک اذیت زدہ معاشرہ بنادے گی، جس طرح ماحولیاتی آلودگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اسی طرح دنیا بھر میں موسمی تبدیلی بھی تیزی سے رونما ہورہی ہے اور ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
آلودگی ہمارے دور کا سب سے سنگین اور گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے، ترقی یافتہ ممالک تو وسائل بروئے کار لاکر کسی حد تک آلودگی پر قابو پانے میں کامیاب ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک جو وسائل کی کمی کا شکار ہیں آلودگی پر قابو پانے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر ایشیائی ممالک تو بری طرح آلودگی کا شکار ہیں اور یہاں کی تقریباً نصف آبادی پر موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔
نیز ایشیائی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مناسب جواب دینے میں ناکام رہی ہیں حالانکہ موحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر خطے کی زد پذیری اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومتیں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی سرکاری مشینری کی استعداد بڑھاتے ہوئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔
ایشیائی حکومتوں کے سامنے یہ امکان واضح ہونے کے بعد کہ خطہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوگا، اولین ترجیح آفات کے خطرات میں کمی کا موثر ترین طریقہ کار اختیار کرنا اور انسانی جانوں کا حتی المقدور تحفظ ہونا چاہیے، ایشیا دنیا میں آفات کے سب سے زیادہ خطرات سے دو چار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اقوام پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہورہاہے جس سے مفر ناممکن ہے۔
لہٰذا موسمیاتی و موحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات پر مکمل قابو تو حضرت انسان کو کبھی تھا اور نا ہی کبھی ہوگا تاہم احتیاطی تدابیر اختیار کرکے جانی و مالی نقصانات کے ممکنہ خدشات سے حتی الامکان بچا جاسکتا ہے اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بھی وہ اہم اور مستقل خطرہ ہے جس پر قابو پانے کا سوال آج ہر ذہن میں گونج رہا ہے کیوں کہ آلودگی اپنے ساتھ جو سنگین مشکلات لے کر آتی ہے اس پر قابو پانا کوئی معمولی بات نہیں اور اس کے نقصانات تو الگ ہیں ہی ہم اپنے ماحول کو خود تباہ کررہے ہیں لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہم تدارک ڈھونڈنے کے بجائے آلودگی کو بڑھارہے ہیں۔
ہمارا ماحول کس طرح تباہ ہورہا ہے، وہ کیا وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے آج ہمارا قدرتی و فطری ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، اس کے لیے ہمیں ان عوامل کا بھی تفصیلی جائزہ لینا ہوگا جو آلودگی کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ کوئلے، گیس اور پٹرولیم کو ہماری زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
یہ تینوں ذرایع توانائی کے ماخذ ہیں۔ گھریلو ضروریات پورا کرنے کے لیے گیس اور مٹی کا تیل اکثر استعمال ہوتا ہے اور یہی ذرایع موٹر گاڑیوں، ریلوے، ٹرین، ہوائی جہاز اور کارخانے چلانے کے کام آتے ہیں، ان کا استعمال بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے ساتھ بڑھتا چلا جارہاہے، توانائی کے انھی ذخیروں کی مدد سے انسان اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوا ہے جیسے جیسے آبادی اور معیار زندگی بڑھ رہا ہے کوئلے، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔
ہزاروں کارخانے، لاکھوں گاڑیاں اور کروڑوں گھر توانائی کے ان ذرایع کو استعمال میں لارہے ہیں اور ان کے استعمال سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس و مادہ فضا میں تحلیل ہورہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف پٹرولیم کی مصنوعات یعنی پٹرول، ڈیزل یا مٹی کا تیل 10 ملین ٹن سے زیادہ ایک سال میں استعمال ہوتے ہیں، کوئلہ، گیس اس کے علاوہ ہیں اب آپ خود اندازہ کرلیجیے کہ جب اتنی بڑی مقدار میں توانائی کے یہ ذرایع استعمال ہورہے ہیں، تو ان کے جلنے سے کتنی بڑی مقدار میں زہریلی گیسز اور ضرر رساں مادے اور کثافتیں فضا میں بکھر کر ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہیں۔
پاکستان میں کوئلہ عام طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کارخانوں کے بوائلروں اور خصوصاً بجلی پیدا کرنے والے تھرمل پلانٹ میں جلایا جارہا ہے، اس کے علاوہ گھروں میں ایندھن کے طور پر جلنے والی گیس عرف عام میں سوئی گیس کا استعمال بھی پاکستان میں عام ہے اس کے استعمال سے دھواں بخارات، فضا، صحت اور عمارات کے لیے مضر اور نقصان دہ ہیں۔
دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں ہر نزدیکی چیز پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کو گندہ کرتی چلی جاتی ہیں، سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے، پودوں کا رنگ سبزی مائل کے بجائے سیاہی مائل اور بعض اوقات پیلا ہوجاتا ہے، صنعتی علاقوں میں اکثر دھند چھاجاتی ہے جسے فوگ (FOG) یا سموگ (SMOG) کہتے ہیں، اس سے دیکھنے اور سانس لینے کے عمل میں مشکلات ہوتی ہیں اور بصارت کم ہوجاتی ہے۔ اس دھند کے محرکات میں آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کے علاوہ صنعتی دھواں بھی شامل ہے، دراصل پانی کے بخارات اس پر جم کر سموگ پیدا کرتے ہیں۔
لندن، لاس اینجلس اور ٹوکیو کے شہر اس وجہ سے خاصے بدنام ہیں۔ پاکستان میں لاہور اور کراچی میں اب یہی صورتحال پیدا ہورہی ہے اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپڑوں کی بیماریاں عام پھیل رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، لاتعداد افراد ان بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں اور بتدریج ہورہے ہیں، یہ زہریلی گیس کس طرح ہمارے ماحول اور ہماری صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں ہم اس کے تدارک کے بجائے دن رات ماحول کو آلودہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب ہمارے سر سے پانی اونچا ہوجاتا ہے تب کہیں جاکر ہمیں ہوش آتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ملک میں جنگلات کے رقبے میں اضافے سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کی جاسکتی ہے بلکہ یہاں کے موسموں کو بھی زیادہ انسان دوست بنانا ممکن ہے، واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور پاکستان پر ان کے اثرات کے حوالے سے ملک کے لیے جنگلات کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ جنگلات سیم و تھور کو روکتے ہیں، ماحول کی آلودگی اور ماحول کو لاحق دیگر خطرات کو روکنے کا فطری و قدرتی ذریعہ ہیں۔ جنگلات کی تیزی سے کٹائی سیلابوں کی وجہ بنتی ہے۔
جنگلات کی وجہ سے قائم ہونے والا ماحولیاتی توازن فصلوں کو طوفان اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ جنگلات فصلوں کی پیداواری اہمیت برقرار رکھتے ہیں، مختلف صنعتوں میں ماحول کو صاف ستھرا اور صحت مند رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سب سے زیادہ جذب کرتے ہیں لہٰذا تمام ممالک بالخصوص ایشیائی ممالک سمیت ہمارے وطن عزیز کو بھی چاہیے کہ وہ جنگلات کے رقبے میں اضافے کو یقینی بنائیں، پریشان کن بات یہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں کم از کم تین فی صد جنگلات کا خاتمہ ہورہاہے، ہماری حکومت بھی جہاں سال میں دو بار شجرکاری مہم کا اہتمام کرتی ہے وہاں اسے چاہیے کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی روکنے کا بھی معقول بندوبست کرے۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق جنگلات ،درخت پودے، سبزہ ہریالی فطرت کے ماحولیاتی نظام کا بہت اہم حصہ ہیں اور ان کے ذریعے بخوبی ماحولیاتی و موسمی آلودگی اور تبدیلیوں پر موثر انداز میں قابو پایا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال اس ضمن میں سنجیدہ، دور رس، طویل المیعاد اور جامع اقدام کی طالب ہے۔