اسلام کا تصوّرِ لباس

رسول اکرم ﷺ کی وجاہت اور رہن سہن کو بیان کرنے سے اظہار و الفاظ قاصر ہیں۔

رسول اکرم ﷺ کی وجاہت اور رہن سہن کو بیان کرنے سے اظہار و الفاظ قاصر ہیں۔ فوٹو: فائل

رسول اکرم ﷺ کی وجاہت اور رہن سہن کو بیان کرنے سے اظہار و الفاظ قاصر ہیں۔ اپنے لباس مبارک میں آپؐ شرعی حدود و قیود کے ساتھ اسی طرح کے کپڑے زیب تن فرماتے تھے، جس کا رواج اُس علاقے اور قوم میں تھا۔

آپؐ تہبند باندھتے، چادر اوڑھتے، کرتا پہنتے، عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے۔ آپؐ کے کپڑے اکثر اوقات معمولی اور سادہ ہوتے اور کبھی کبھار دوسرے ملکوں اور علاقوں کے ایسے اعلیٰ کپڑے بھی پہن لیتے، جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔ اسی طرح کبھی یمن کی بہت خوش نما چادریں بھی استعمال کرتے تھے، جو اس زمانے میں بہت خوش پوش لباس تصور ہوا کرتی تھیں۔ آپؐ نے اپنے زبانی ارشادات کے علاوہ اپنے عمل سے بھی امت کو یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے معاملے میں بھی شریعت میں وسعت ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ہم کو ایک موٹی دہری چادر اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکال کے دکھایا اور ہمیں بتایا کہ ان ہی دونوں کپڑوں میں رسول اکرمؐ کا وصال ہوا تھا۔ (یعنی دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت رسول اﷲ ﷺ کے جسم اطہر پر یہی دو کپڑے تھے)۔

( صحیح بخاری و مسلم)

حضر ت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو لباس میں کرتا زیادہ پسند تھا۔

(جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو کپڑوں میں حبرہ (چادر) پہننا بہت پسند تھا۔

( صحیح بخاری و صحیح مسلم)


حبرہ یمن کی بنی ہوئی ایک خاص سوتی چادر ہوتی تھی، جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں، یہ اس وقت اوسط درجے کی اچھی چادروں میں شمار کی جاتی تھی۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک دفعہ رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔

(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اکثر دوسری روایتوں میں اسے شامی جُبہ کہا گیا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ شام اس زمانے میں چوں کہ رومی حکومت کے زیر اقتدار تھا، اس لیے وہاں کی چیزوں کو رومی بھی کہہ دیا جاتا تھا اور شامی بھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسری قوموں کے بنائے ہوئے اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے کپڑے استعمال کیے جاسکتے ہیں اور خود حضور ﷺ نے استعمال فرمائے۔



حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے طیلسان کا بنا ہوا ایک کسروانی جبہ نکال کر دکھایا اس کا گریبان، دیباج (ریشم) سے بنا ہوا تھا اور دونوں چاکوں کے کناروں پر بھی دیباج لگا ہوا تھا (یعنی گریبان اور جبہ کے آگے پیچھے چاکوں پر دیباج کا حاشیہ تھا) اور حضرت اسماء ؓ نے بتایا کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کا جبہ مبارک ہے۔ یہ (میری بہن) عائشہ صدیقہ ؓ ( ام المومنینؓ) کے پاس تھا، جب ان کا انتقال ہوگیا تو میں نے لے لیا (یعنی میراث کے حساب میں مجھے مل گیا)۔ حضورؐ اس کو زیب تن فرمایا کرتے تھے اور اب ہم اس کو مریضوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس کے ذریعے شفاء حاصل کرتے ہیں۔ ( صحیح بخاری)

یہاں یہ بات قابل ذکر اور بعض دوسری احادیث کی تشریح میں اور علمائے کرام نے ان کی وضاحت کی ہے کہ مَردوں کے لیے ریشم کا حاشیہ دوچار انگل کا تو جائز ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ دوسری خاص بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرامؓ ہی کے زمانے میں رسول اکرم ﷺ کے استعمال شدہ کپڑوں سے یہ برکت بھی حاصل کی جاتی تھی کہ انہیں پانی میں بھگو کر اس پانی کو شفایابی کے لیے مریضوں پر چھڑکا جاتا اور انہیں پلایا جاتا تھا۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ اﷲ عزوجل کی مقر ر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جاسکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے کے لوگ شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے علاقے کا پسندیدہ لباس پہن سکتے ہیں۔

کیوں کہ لباس ایسی چیز ہے کہ معاشرتی ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہی اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اسی طرح مختلف علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثرانداز ہوتی ہیں، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس ایک ہی ہو یا کسی قوم یا علاقے کا لباس ہمیشہ ایک جیسا رہے۔ اس لیے شریعت نے کسی خاص قسم اور خا ص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا، البتہ ایسے سنہری اصول و ضوابط اور احکامات دیے ہیں، جن کی ہر زمانے اور ہر جگہ سہولت کے ساتھ پابندی کی جاسکتی ہے۔
Load Next Story