چین کی حیرت انگیز معاشی ترقی
چین میں سستی بجلی‘ سستی لیبر اور معمولی ٹیکسوں کے باعث صنعتوں کا جال بچھ گیا.
لاہور:
معاشی ایجنسی آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ آیندہ پچاس سالوں کے دوران دنیا میں عالمی معاشی طاقتوں کے توازن میں ڈرامائی حد تک تبدیلی آئے گی۔
چین 2016 تک اقتصادی طور پر امریکا پر برتری حاصل کر لے گا۔ 2060 تک چین اور بھارت کی معیشت مجموعی طور پر دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے برابر یا ان پر برتری حاصل کرلے گی۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں میں جتنی تیزی سے ترقی کی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ ایک انتہائی پسماندہ معیشت سے ایک ترقی یافتہ معیشت تک کا سفر واقعی حیرت ناک ہے۔ بہت کم ملک ایسے ہیں جنہوں نے اتنے مختصر عرصے میں اتنی حیران کن ترقی کی ہو۔چین کی قیادت نے ملکی معیشت کو ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی بدولت چین آج پوری دنیا کو حیران وپریشان کر رہا ہے۔ چین نے اپنے ہاں صنعتوں کے فروغ کے لیے مضبوط انفراسٹرکچر بنایا اور صنعت کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔
اس سے ملکی دولت میں بھی اضافہ ہوا اور روزگار بھی پیدا ہوا۔ چین میں سستی بجلی' سستی لیبر اور معمولی ٹیکسوں کے باعث صنعتوں کا جال بچھ گیا۔ اس طرح چینی کمپنیوں کی پیداواری لاگت انتہائی کم ہو گئی۔ اس کا اثر اشیاء کی قیمتوں پر پڑا اور وہ خاصی کم ہو گئیں۔ چینی اشیا سستی ہونے کے باعث بہت جلد پوری دنیا کی مارکیٹ میں چھا گئیں حتٰی کہ چین نے برآمدات میں امریکا' یورپ اور جاپان کو بھی مات دے دی۔ آج دنیا بھر میں باقاعدہ برآمدات کرنے والے 227 ممالک میں چین سرفہرست ہے۔ مالی سال 2010 کے دوران دنیا بھر میں مجموعی طور پر برآمدات 15 ہزار ارب ڈالر رہیں جن میں چین کا حصہ 1506 ارب ڈالر ہے جب کہ جرمنی 1337 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور امریکا جو عالمی سپرپاور ہے وہ 1270 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔
چین کے بعد ایشیا میں ابھرنے والی دوسری بڑی معاشی طاقت بھارت ہے جو 201 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ 22ویں نمبر پر رہا۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان جو مسلم ممالک میں سب سے پہلی ایٹمی قوت ہے آج ہاتھوں میں کشکول پکڑے غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے سسک رہا ہے۔ اس کی معیشت گزشتہ چند سالوں سے خسارے کے گرداب میں پھنس کر ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق جولائی سے ستمبر 2012کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 1.2 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی پر 73 فیصد اضافے کے بعد رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بجٹ خسارہ 282 ارب روپے سے بھی بڑھ گیا۔ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب صنعتیں زوال پذیر ہیں۔ سرمایہ کار امن وامان کی بگڑتی صورت حال' بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ اور مصنوعات پر بھاری ٹیکسوں سے عاجز آ کر مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہا ہے۔
صنعتی پیداوار کم اور مہنگی ہونے کے سبب آج عالمی سطح پر پاکستان کا برآمدات میں 67واں نمبر ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں چینی اشیا اپنا قبضہ جما چکی ہیں۔ اب بھارت کے ساتھ تجارت شروع ہونے سے بھارتی مال مارکیٹ میں آیا تو پاکستانی مصنوعات ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ حکومت کو ابھی سے اس جانب بہتر اور دوررس منصوبہ بندی کرنی چاہیے ورنہ یہی معاشی پالیسیاں جاری رہیں تو پاکستانی صنعت تباہی کے آخری کنارے پر جا لگے گی۔
معاشی ایجنسی آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ آیندہ پچاس سالوں کے دوران دنیا میں عالمی معاشی طاقتوں کے توازن میں ڈرامائی حد تک تبدیلی آئے گی۔
چین 2016 تک اقتصادی طور پر امریکا پر برتری حاصل کر لے گا۔ 2060 تک چین اور بھارت کی معیشت مجموعی طور پر دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے برابر یا ان پر برتری حاصل کرلے گی۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں میں جتنی تیزی سے ترقی کی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ ایک انتہائی پسماندہ معیشت سے ایک ترقی یافتہ معیشت تک کا سفر واقعی حیرت ناک ہے۔ بہت کم ملک ایسے ہیں جنہوں نے اتنے مختصر عرصے میں اتنی حیران کن ترقی کی ہو۔چین کی قیادت نے ملکی معیشت کو ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی بدولت چین آج پوری دنیا کو حیران وپریشان کر رہا ہے۔ چین نے اپنے ہاں صنعتوں کے فروغ کے لیے مضبوط انفراسٹرکچر بنایا اور صنعت کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔
اس سے ملکی دولت میں بھی اضافہ ہوا اور روزگار بھی پیدا ہوا۔ چین میں سستی بجلی' سستی لیبر اور معمولی ٹیکسوں کے باعث صنعتوں کا جال بچھ گیا۔ اس طرح چینی کمپنیوں کی پیداواری لاگت انتہائی کم ہو گئی۔ اس کا اثر اشیاء کی قیمتوں پر پڑا اور وہ خاصی کم ہو گئیں۔ چینی اشیا سستی ہونے کے باعث بہت جلد پوری دنیا کی مارکیٹ میں چھا گئیں حتٰی کہ چین نے برآمدات میں امریکا' یورپ اور جاپان کو بھی مات دے دی۔ آج دنیا بھر میں باقاعدہ برآمدات کرنے والے 227 ممالک میں چین سرفہرست ہے۔ مالی سال 2010 کے دوران دنیا بھر میں مجموعی طور پر برآمدات 15 ہزار ارب ڈالر رہیں جن میں چین کا حصہ 1506 ارب ڈالر ہے جب کہ جرمنی 1337 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور امریکا جو عالمی سپرپاور ہے وہ 1270 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔
چین کے بعد ایشیا میں ابھرنے والی دوسری بڑی معاشی طاقت بھارت ہے جو 201 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ 22ویں نمبر پر رہا۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان جو مسلم ممالک میں سب سے پہلی ایٹمی قوت ہے آج ہاتھوں میں کشکول پکڑے غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے سسک رہا ہے۔ اس کی معیشت گزشتہ چند سالوں سے خسارے کے گرداب میں پھنس کر ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق جولائی سے ستمبر 2012کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 1.2 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی پر 73 فیصد اضافے کے بعد رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بجٹ خسارہ 282 ارب روپے سے بھی بڑھ گیا۔ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب صنعتیں زوال پذیر ہیں۔ سرمایہ کار امن وامان کی بگڑتی صورت حال' بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ اور مصنوعات پر بھاری ٹیکسوں سے عاجز آ کر مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہا ہے۔
صنعتی پیداوار کم اور مہنگی ہونے کے سبب آج عالمی سطح پر پاکستان کا برآمدات میں 67واں نمبر ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں چینی اشیا اپنا قبضہ جما چکی ہیں۔ اب بھارت کے ساتھ تجارت شروع ہونے سے بھارتی مال مارکیٹ میں آیا تو پاکستانی مصنوعات ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ حکومت کو ابھی سے اس جانب بہتر اور دوررس منصوبہ بندی کرنی چاہیے ورنہ یہی معاشی پالیسیاں جاری رہیں تو پاکستانی صنعت تباہی کے آخری کنارے پر جا لگے گی۔