عوام کو خیرات نہیں چاہیے…

نہ غربت ختم ہوسکتی ہے نہ عوام کی علاج معالجے سے محرومی ختم ہوسکتی ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہمارا میڈیا آج کل جن اہم مسائل کو شدت کے ساتھ اجاگرکر رہا ہے ان میں غربت، علاج معالجے سے عوام کی محرومی، ذاتی اورروایتی دشمن قوتیں واقعات اوردہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔

میڈیا ان مسائل کو پورے شعور وادرک کے ساتھ پبلک کر رہا ہے یا محض مقابلے کی دھن میں ان مسائل کو ہائی لائٹ کررہا ہے اس کے بارے میں کوئی بات قطعیت کے ساتھ تو نہیں کی جا سکتی لیکن وجہ کچھ بھی ہو یہ پالیسی نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ میڈیا کی یہ دانستہ یا نادانستہ کوشش عوام کو اس طبقاتی،قبائلی اورانتہا پسندانہ مسائل پر سوچنے کی ترغیب فراہم کررہی ہیں۔اس حوالے سے میڈیا کا کردار بلاشبہ مثبت اور قابل ستائش ہے لیکن اس حوالے سے جو واقعات، سانحات ہائی لائٹ کیے جارہے ہیں ان کی نوعیت عموماً انفرادی ہے ۔ خاص طور پر غربت، علاج معالجے سے عوام کی محرومی، ذاتی دشمنیوں اور انتقام کے واقعات میڈیا میں انفرادی یا خاندانی حوالوں سے پیش کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان مسائل کے ماخذ پر عوام کی نظر جاتی ہے نہ خواص کی !

مثلاً غربت کے حوالے سے ملک کے مختلف علاقوں کے عوام کے جن مسائل کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے اس سے ان مسائل کی اجتماعیت اور ان مسائل کی اصل وجہ یعنی طبقاتی استحصالی نظام پس پشت چلاجاتا ہے اور اس ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف اجتماعی جدوجہد کے جذبات بیدار ہونے کے بجائے دیکھنے والوں کے دلوں میں جذبہ رحم پیدا ہوتا ہے اور کوئی بندۂ خدا یا کوئی ادارہ ان غربت کے مارے افراد، فرد یا خاندان کی مدد کرکے ثواب دارین حاصل کر لیتا ہے۔ یوں غربت کا اجتماعی اور طبقاتی مسئلہ انفرادی اور قابل رحم بن جاتا ہے اور استحصال کا اصل چہرہ اس جذبہ رحم میں دب جاتا ہے یہی حال علاج معالجے سے عوام کی محرومی کا ہے ۔ میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا فرد، افراد یا خاندانوں کی مدد کے لیے آگے آتا ہے، یوں یہ اجتماعی اور طبقاتی استحصال کا مسئلہ انفرادی بن کر اپنی اصل حقیقت یعنی طبقاتی استحصال کی شناخت سے محروم ہوجاتا ہے۔

غربت علاج معالجے سے محرومی دنیا کا ایک ایسا اجتماعی مسئلہ ہے جس کی جڑیں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی گہرائی میں اتری ہوئی ہیں۔ جب تک عوام ان بدترین استحصالی نظاموں کو ختم کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے، نہ غربت ختم ہوسکتی ہے نہ عوام کی علاج معالجے سے محرومی ختم ہوسکتی ہے۔ 1917 کے انقلاب روس کے بعد جب سوشلسٹ نظام خم ٹھوک کر سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے سامنے کھڑا ہوگیا تو سرمایہ دارانہ نظام کے نظریہ سازوں کے جسموں میں ایک جُھرجُھری پیدا ہوئی اور عوام کو سوشلزم کی طرف جانے سے روکنے کے لیے انھوں نے ایک پرُفریب ویلفیئر اسٹیٹ کا نظریہ پیش کیا جس میں اس قسم کے مسائل کے حل کی ذمے دای ریاست پر ڈالی گئی ۔


یہ اگرچہ بنیادی طور پر عوام کی توجہ طبقاتی استحصالی نظام سے ہٹانے کی ایک سازش تھی لیکن عوام کی فلاح و بہبود کی ذمے داری بہرحال ریاست پر آگئی۔ اس ''فلاح و بہبود'' میں غربت کی روک تھام علاج معالجے کی سہولتیں بھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب غربت و افلاس کا خاتمہ اور عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں وغیرہ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ٹھہری تو پھر انھیں جذبہ ٔ رحم خیرات زکوۃ کے کنوؤں میں دھکیل کر انسانوں کی عزت نفس کو کیوں مجروح کیا جا رہا ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام کے عیار منصوبہ ساز ایک طرف تو عوام کی بھاری اکثریت کو نان جویں سے محتاج کرتی ہے۔ دوسری طرف ریاست کو عوام کے ان مسائل کے حل کی ذمے دار قرار دیتی ہے۔ اور تیسری طرف خیراتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرکے عوام کی غربت نفس کی دھجیاں اڑاتی ہے اور ہم جیسے احمق سرمایہ دارانہ نظام کے ان خالقوں کی عیاریوں کو سمجھے بغیر خیراتی کاموں خیراتی اداروں کی تعریف و توصیف میں لگ جاتے ہیں ، ہماری اس نادانی کی وجہ سے ایک طرف عوام اس استحصالی طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد سے غافل ہو رہے ہیں تو دوسری طرف خیراتی ادارے حشراۃ الارض کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں اور خیراتی کاموں کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اس احمقانہ افراتفری میں ریاست اپنی ویلفیئرانہ ذمے داریوں سے فرار حاصل کر رہی ہے۔

ذاتی دشمنیاں انتقام جاہلانہ روایات دہشت گردی کا نیا ہولناک کلچر بنیادی طور پر جاگیردارانہ اور قبائلی نظاموں کے عطیات ہیں۔ بلاشبہ ہمارا میڈیا بھرپور طریقے سے ان برائیوں کو منظر عام پر لا رہا ہے لیکن جس طرح یہ برائیاں اجاگر کی جا رہی ہیں اس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ برائیاں فرد افراد خاندان یا کچھ گروہوں کی کارستانیاں ہیں اس تاثر کی وجہ سے ان تمام برائیوں کی جڑ جاگیردارانہ اور قبائلی نظام نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اور ان فرسودہ اور ظالمانہ نظاموں کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور وہ خیرات زکوۃ کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

یہ کس قدراحمقانہ بات ہے کہ باشعور لوگ بھی خیرات و زکوۃ کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی صفت کو بھول کر بل گیٹس، لکشمی متل اور شوکت خانم اسپتال جیسے خیراتی اداروں اور خیراتی کاموں کی تعریف و توصیف میں لگ جاتے ہیں۔ ہر ملک میں اتنی دولت اور اتنی اشیائے صرف پیدا ہوتی ہیں کہ ہر انسان کی بنیادی ضرورتیں بڑی آسانی سے پوری ہوسکتی ہیں لیکن یہ ضرورت اس لیے پوری نہیں ہو رہی ہیں کہ دولت منصفانہ طور پر تقسیم نہیں ہوتی۔

2007 کے بعد ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا ایک بہت بڑی اور موثر طاقت بن کر ابھرا ہے ۔ میڈیا کی اس طاقت سے سریا لگی گردنیں بھی گھبرا رہی ہیں۔ میڈیا میں تعلیم یافتہ اور سمجھدار بلکہ ضرورت سے زیادہ سمجھ دار لوگ بیٹھے ہیں اگر یہ لوگ انفرادی مسائل کو ہائی لائٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کو پیدا کرنے والے نظاموں کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کا کام انجام دیں تو عوام خیرات و زکوۃ کے حصول کی ذلتوں اور خود ہم کرپشن اور لفافوں کی بدنامیوں سے مکتی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس بڑے کام کے لیے چھوٹی ذہنیتوں سے نجات حاصل کرنا ہوگا اور بلاامتیاز بلاجانبداری کے ہر اس خیال ہر اس تحریر کو آگے بڑھانا ہوگا جو عوام میں بیداری کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ذاتی پسند و ناپسند کو پس پشت ڈالے بغیر یہ بڑے کام انجام نہیں دیے جا سکتے۔
Load Next Story