بُک شیلف
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ زندگی میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ کر کامیاب وکامران ہوتے ہیں
رسول عربیﷺ
مصنف: جی سنگھ دارا
قیمت:480 روپے
ناشر:بک کارنر بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم
'' ایک صاحب کمال آیا، جس نے جلوہ حق دکھایا، جس کسی نے اسے پریم کی آنکھوں سے دیکھا اس کی تمنائے آرزو پوری ہوئی، جس کی نگاہ شوق اس پر پڑی اسے منہ مانگی مراد مل گئی، جس بشر کو اس من موہن نے اپنا درشن دیا اس کا جنم بھر کا پاپ کٹ گیا...''
یہ ابتدائی پیراگراف ہے اس کتاب کا جو ایک سکھ مصنف کا رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت ہے۔ وہ بی ایل ، بیرسٹر ایٹ لاء تھے، سیدسلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:'' داراصاحب نے پیغمبر اسلامﷺ کی سوانح عمری بڑی بے نفسی اور بے تعصبی کے رنگ میں لکھی ہے، کتاب کے حرف حرف سے عشق ومحبت کے آب کوثر کی بوندیں ٹپکتی ہیں اور معلوم ہوتاہے کہ لکھنے والے کا قلم کسی جوش وخروش کے دریا میں بہتا جارہاہے''۔
اس کتاب کی توصیف میں مزید کیا لکھاجائے جب سرعبدالقادر، عبدالماجد دریاآبادی، ابوالاثرحفیظ جالندھری اور سیدسلیمان ندوی اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان ہوں۔ خود جی سنگھ دارا لکھتے ہیں:'' پیغمبر اسلامﷺ کی شان کے خلاف اس نوع کی کہانیاں اور من گھڑت قصے میں نے سنے کہ جس کے سننے سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں...میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی کے حالات پڑھوں اور جوجوباتیں میں نے سنی ہیں، ان کی تصدیق یا تردید کی جستجو کروں۔
پہلی دفعہ جب میں نے اس مضمون پر ایک کتاب دیکھی تو اس کے پڑھنے سے مجھے ازحد دلچسپی پیداہوئی، جوں جوں میرا مطالعہ بڑھتاگیا، اتنی ہی آنحضرتﷺ کی عظمت میرے دل میں بڑھتی گئی۔یہاں تک کہ میرے دل میں ایک آرزو پیدا ہوگئی کہ میں ان سب خیالات کو ایک جگہ اکٹھا کروں، طرح طرح کی کتابوں کے مطالعہ نے جومیں نے اس مضمون میں پڑھی تھیں''۔
جی سنگھ دارا کی تحریر کا اسلوب بھی بہت کمال کا ہے ، قاری کتاب پڑھتاہے، خوب مزہ آتاہے، اور آخرکار تسلیم کرتاہے کہ یہ داستان عشق ومستی ہے جو اس نے تحریرکی ہے۔ بک کارنر نے اس کتاب کو خوبصورت اور بہترین اندازمیں پیش کرنے کا حق اداکردیاہے۔
٭٭٭
وقت کی قدر کیجئے
مصنف: علامہ یوسف القرضاوی
قیمت: درج نہیں
ناشر:مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ ،اردوبازار، لاہور
ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایک برف فروش سے مجھے بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہر لمحہ ہماری عمر بھی برف کی طرح لمحہ بہ لمحہ ختم ہوتی جاتی ہے، اس کی قدر کرو قبل اس کے کہ یہ پگھل کر ختم ہوجائے۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کار کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم ودینار کی حرص سے بھی زیادہ تھی۔حرص کے سبب ان کے لئے علم نافع، عمل صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور اسی کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں اور جس کی شاخیں ہرچہار جانب پھیلی ہوئی ہیں''۔
صنف چاہتے ہیں کہ وہ مسلمان امت کو وقت کی بہترین قدر کرنے والا بنادیں، اسی مقصد کی خاطر انھوں نے یہ مضامین لکھے جو زیرنظرکتاب کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔اس میں سب سے پہلے قرآن وسنت کی روشنی میں وقت کی اہمیت کو بیان کیاگیاہے، اگلے حصے میں بتایاگیاہے کہ وقت کے بارے میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے، تیسرے حصے میں مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کے نظام کا جائزہ لیاگیاہے۔ اگلے حصے کا عنوان ہے:'' انسان کا وقت ماضی ، حال اور مستقبل کے درمیان''۔ اس کے بعد وقت کو برباد کردینے والی آفات سے آگاہ کیاگیاہے اور آخر میں ضیاع وقت کے اسباب کا باب باندھاگیاہے۔
کتاب کا ترجمہ مولانا عبدالحلیم فلاحی نے کیاہے جب کہ تخریج وتصحیح کی ذمہ داری عبداللہ یوسف ذہبی نے اداکی ہے۔ انتہائی خوبصورت ٹائٹل، بہترین سفید کاغذ پر عمدہ طباعت کی حامل یہ مجلد کتاب نہ صرف آپ کے گھر کی لائبریری کا حصہ بننی چاہئے بلکہ ہردوست کو بطورتحفہ بھی پیش کی جانی چاہئے۔ امید ہے کہ اسی کتاب کی صورت میں آپ کے اردگرد وقت کو بہترین اندازمیں گزارنے والوں کا ایک حلقہ قائم ہوجائے گا۔
٭٭٭
دیوان حافظ قادری
کلام: حافظ فتح محمد قادریؒ
حافظ فتح محمد قادریؒ 1835-1937)ء( مدینتہ الاولیاء ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا کی معروف روحانی اور علمی شخصیت تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی تبلیغ دین کا کام کیا اور اس مقصد کے لیے درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے ساتھ شاعری کو بھی ذریعہ اظہار بنایا۔ زیر نظر کتاب ''دیوان حافظ قادری'' میں آپ کا منتخب فارسی، اردو اور سرائیکی کلام شامل کیا گیا ہے۔ حضرت حافظ صاحبؒ نے اپنی شاعری میں حمد باری تعالٰی، نعت رسول ﷺ بیان کی، صحاب اور اہل بیت رسول ﷺ اور بزرگان دین کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ آپ کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے، لیکن سرائیکی میں جتنا کلام موجود ہے، وہ بھی سرائیکی زبان کا خوبصورت سرمایہ ہے۔
حضرت حافظ صاحبؒ نے لوگوں کو معرفت حق کا پیغام دیا اور بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے سامنے دنیا کی سب چیزیں حقیر ہیں۔
جو اپنے دل میں رکھتا ہے تصور ذات احمدؐ کا
کیا ہو گا اس کو اے حافظ خیال رتبہ سلطانی
انہوں نے دنیا کی بے ثباتی کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ ہماری آخرت کا دارومدار اسی زندگی کے اعمال پر ہے۔ چنانچہ ایک سرائیکی شعر میں فرماتے ہیں:
موڑی جے تئیں پلے ہووی کر گھن ونڑج وپار
سودا سود توں گھن چا جلدی بند تھیسی بازار
خوبصورت تشبیہات، علاقائی مناظر کا حسین رنگ، عام فہم زبان کا استعمال آپ کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ شاعری کے علاوہ آپ نے فارسی زبان میں مختلف اسلامی موضوعات پر بھی لکھا، جو کہ غیرمطبوعہ ہے۔251 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مسجد حضرت حافظ صاحبؒ، جلال پور پیر والا کے پتے پر حاصل کی جا سکتی ہے۔
چھونا نہیں(ناول)
مصنفہ: شاہینہ چندامہتاب
قیمت:200 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازار لاہور
شاہینہ چندامہتاب ڈائجسٹوں کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہیں ، عمومی طورپر رومانی داستانیں لکھنا ہی ان کی پہچان ہے۔ سادہ لفظوں سے ایسی فلم تیار کرتی ہیں کہ قاری عش عش کراٹھتاہے۔ انھوں نے کہانی کے تمام کرداروں سے خوب انصاف کیاہے۔ زیرنظرناول حسین اور رنگین رومانی فضا کی بہت خوبصورت تصویر ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے۔
جس نے سچی لگن اور بلند عزم وحوصلے سے طوفان کا رخ موڑ دیاتھا حالانکہ حالات بھی ناموافق تھے۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حالات کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قراردے کر مطمئن ہونے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ناول کی مرکزی کردار بھی بہت سی دیگرلڑکیوں کی طرح نازک اور لطیف احساسات وجذبات کی حامل تھی ، بدگمانی اور شکوک وشبہات کے طوفان مچلتے رہے لیکن اس کے دل میں جلنے والی محبت کی شمع کو بجھانے میں ناکام رہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ زندگی میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ کر کامیاب وکامران ہوتے ہیں۔باقی لوگ خود بھی ناکام ٹھہرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں بھی مسائل ہی پیدا کرتے ہیں۔'چھونا نہیں' ایک ایسی داستان ہے جس سے بہت سے سبق سیکھے جاسکتے ہیں۔ بہت مزے کی کہانی ہے، آپ ضرور پڑھئے گا۔
مصنف: جی سنگھ دارا
قیمت:480 روپے
ناشر:بک کارنر بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم
'' ایک صاحب کمال آیا، جس نے جلوہ حق دکھایا، جس کسی نے اسے پریم کی آنکھوں سے دیکھا اس کی تمنائے آرزو پوری ہوئی، جس کی نگاہ شوق اس پر پڑی اسے منہ مانگی مراد مل گئی، جس بشر کو اس من موہن نے اپنا درشن دیا اس کا جنم بھر کا پاپ کٹ گیا...''
یہ ابتدائی پیراگراف ہے اس کتاب کا جو ایک سکھ مصنف کا رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت ہے۔ وہ بی ایل ، بیرسٹر ایٹ لاء تھے، سیدسلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:'' داراصاحب نے پیغمبر اسلامﷺ کی سوانح عمری بڑی بے نفسی اور بے تعصبی کے رنگ میں لکھی ہے، کتاب کے حرف حرف سے عشق ومحبت کے آب کوثر کی بوندیں ٹپکتی ہیں اور معلوم ہوتاہے کہ لکھنے والے کا قلم کسی جوش وخروش کے دریا میں بہتا جارہاہے''۔
اس کتاب کی توصیف میں مزید کیا لکھاجائے جب سرعبدالقادر، عبدالماجد دریاآبادی، ابوالاثرحفیظ جالندھری اور سیدسلیمان ندوی اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان ہوں۔ خود جی سنگھ دارا لکھتے ہیں:'' پیغمبر اسلامﷺ کی شان کے خلاف اس نوع کی کہانیاں اور من گھڑت قصے میں نے سنے کہ جس کے سننے سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں...میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی کے حالات پڑھوں اور جوجوباتیں میں نے سنی ہیں، ان کی تصدیق یا تردید کی جستجو کروں۔
پہلی دفعہ جب میں نے اس مضمون پر ایک کتاب دیکھی تو اس کے پڑھنے سے مجھے ازحد دلچسپی پیداہوئی، جوں جوں میرا مطالعہ بڑھتاگیا، اتنی ہی آنحضرتﷺ کی عظمت میرے دل میں بڑھتی گئی۔یہاں تک کہ میرے دل میں ایک آرزو پیدا ہوگئی کہ میں ان سب خیالات کو ایک جگہ اکٹھا کروں، طرح طرح کی کتابوں کے مطالعہ نے جومیں نے اس مضمون میں پڑھی تھیں''۔
جی سنگھ دارا کی تحریر کا اسلوب بھی بہت کمال کا ہے ، قاری کتاب پڑھتاہے، خوب مزہ آتاہے، اور آخرکار تسلیم کرتاہے کہ یہ داستان عشق ومستی ہے جو اس نے تحریرکی ہے۔ بک کارنر نے اس کتاب کو خوبصورت اور بہترین اندازمیں پیش کرنے کا حق اداکردیاہے۔
٭٭٭
وقت کی قدر کیجئے
مصنف: علامہ یوسف القرضاوی
قیمت: درج نہیں
ناشر:مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ ،اردوبازار، لاہور
ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایک برف فروش سے مجھے بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہر لمحہ ہماری عمر بھی برف کی طرح لمحہ بہ لمحہ ختم ہوتی جاتی ہے، اس کی قدر کرو قبل اس کے کہ یہ پگھل کر ختم ہوجائے۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کار کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم ودینار کی حرص سے بھی زیادہ تھی۔حرص کے سبب ان کے لئے علم نافع، عمل صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور اسی کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں اور جس کی شاخیں ہرچہار جانب پھیلی ہوئی ہیں''۔
صنف چاہتے ہیں کہ وہ مسلمان امت کو وقت کی بہترین قدر کرنے والا بنادیں، اسی مقصد کی خاطر انھوں نے یہ مضامین لکھے جو زیرنظرکتاب کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔اس میں سب سے پہلے قرآن وسنت کی روشنی میں وقت کی اہمیت کو بیان کیاگیاہے، اگلے حصے میں بتایاگیاہے کہ وقت کے بارے میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے، تیسرے حصے میں مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کے نظام کا جائزہ لیاگیاہے۔ اگلے حصے کا عنوان ہے:'' انسان کا وقت ماضی ، حال اور مستقبل کے درمیان''۔ اس کے بعد وقت کو برباد کردینے والی آفات سے آگاہ کیاگیاہے اور آخر میں ضیاع وقت کے اسباب کا باب باندھاگیاہے۔
کتاب کا ترجمہ مولانا عبدالحلیم فلاحی نے کیاہے جب کہ تخریج وتصحیح کی ذمہ داری عبداللہ یوسف ذہبی نے اداکی ہے۔ انتہائی خوبصورت ٹائٹل، بہترین سفید کاغذ پر عمدہ طباعت کی حامل یہ مجلد کتاب نہ صرف آپ کے گھر کی لائبریری کا حصہ بننی چاہئے بلکہ ہردوست کو بطورتحفہ بھی پیش کی جانی چاہئے۔ امید ہے کہ اسی کتاب کی صورت میں آپ کے اردگرد وقت کو بہترین اندازمیں گزارنے والوں کا ایک حلقہ قائم ہوجائے گا۔
٭٭٭
دیوان حافظ قادری
کلام: حافظ فتح محمد قادریؒ
حافظ فتح محمد قادریؒ 1835-1937)ء( مدینتہ الاولیاء ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا کی معروف روحانی اور علمی شخصیت تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی تبلیغ دین کا کام کیا اور اس مقصد کے لیے درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے ساتھ شاعری کو بھی ذریعہ اظہار بنایا۔ زیر نظر کتاب ''دیوان حافظ قادری'' میں آپ کا منتخب فارسی، اردو اور سرائیکی کلام شامل کیا گیا ہے۔ حضرت حافظ صاحبؒ نے اپنی شاعری میں حمد باری تعالٰی، نعت رسول ﷺ بیان کی، صحاب اور اہل بیت رسول ﷺ اور بزرگان دین کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ آپ کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے، لیکن سرائیکی میں جتنا کلام موجود ہے، وہ بھی سرائیکی زبان کا خوبصورت سرمایہ ہے۔
حضرت حافظ صاحبؒ نے لوگوں کو معرفت حق کا پیغام دیا اور بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے سامنے دنیا کی سب چیزیں حقیر ہیں۔
جو اپنے دل میں رکھتا ہے تصور ذات احمدؐ کا
کیا ہو گا اس کو اے حافظ خیال رتبہ سلطانی
انہوں نے دنیا کی بے ثباتی کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ ہماری آخرت کا دارومدار اسی زندگی کے اعمال پر ہے۔ چنانچہ ایک سرائیکی شعر میں فرماتے ہیں:
موڑی جے تئیں پلے ہووی کر گھن ونڑج وپار
سودا سود توں گھن چا جلدی بند تھیسی بازار
خوبصورت تشبیہات، علاقائی مناظر کا حسین رنگ، عام فہم زبان کا استعمال آپ کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ شاعری کے علاوہ آپ نے فارسی زبان میں مختلف اسلامی موضوعات پر بھی لکھا، جو کہ غیرمطبوعہ ہے۔251 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مسجد حضرت حافظ صاحبؒ، جلال پور پیر والا کے پتے پر حاصل کی جا سکتی ہے۔
چھونا نہیں(ناول)
مصنفہ: شاہینہ چندامہتاب
قیمت:200 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازار لاہور
شاہینہ چندامہتاب ڈائجسٹوں کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہیں ، عمومی طورپر رومانی داستانیں لکھنا ہی ان کی پہچان ہے۔ سادہ لفظوں سے ایسی فلم تیار کرتی ہیں کہ قاری عش عش کراٹھتاہے۔ انھوں نے کہانی کے تمام کرداروں سے خوب انصاف کیاہے۔ زیرنظرناول حسین اور رنگین رومانی فضا کی بہت خوبصورت تصویر ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے۔
جس نے سچی لگن اور بلند عزم وحوصلے سے طوفان کا رخ موڑ دیاتھا حالانکہ حالات بھی ناموافق تھے۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حالات کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قراردے کر مطمئن ہونے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ناول کی مرکزی کردار بھی بہت سی دیگرلڑکیوں کی طرح نازک اور لطیف احساسات وجذبات کی حامل تھی ، بدگمانی اور شکوک وشبہات کے طوفان مچلتے رہے لیکن اس کے دل میں جلنے والی محبت کی شمع کو بجھانے میں ناکام رہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ زندگی میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ کر کامیاب وکامران ہوتے ہیں۔باقی لوگ خود بھی ناکام ٹھہرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں بھی مسائل ہی پیدا کرتے ہیں۔'چھونا نہیں' ایک ایسی داستان ہے جس سے بہت سے سبق سیکھے جاسکتے ہیں۔ بہت مزے کی کہانی ہے، آپ ضرور پڑھئے گا۔