اوباما کا تاریخی دورہ کیوبا برسوں کی دشمنی دوستی میں بدلنے لگی
امریکی صدر کے 3 روزہ دورے نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید بہتری کی امید بڑھادی
کسی شاعر نے کہا ہے کہ
دشمنی لاکھ سہی، ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملیں یا نہ ملیں ہاتھ ملاتے رہیے
اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون حقیقت میں دل کے قریب ہے یا صرف دنیا داری ہورہی تھی لیکن اس وقت امریکی صدر اوباما کے دورۂ کیوبا نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ گذشتہ ہفتے امریکی صدر کے 3 روزہ دورے نے امریکا اور کیوبا کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کی فضا کو دوستی کی ہوا کے جھونکوں سے بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اوباما کا دورہ اس وقت ہورہا ہے جب واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ ساتھ کیوبا کے صدر راؤل کاسترو اور عوام بھی امریکا سے محاذ آرائی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہے کہ کیوبا امریکا سے دوستی کرکے عالمی برادری میں واشنگٹن کے دوستوں کی حیثیت سے جانا جائے نہ کہ اُس کا نام مخالفین کی فہرست میں ہو۔
اوباما جب اپنی اہلیہ مشعل اور دونوں صاحب زادیوں کے ساتھ تاریخی دورے پر ہوانا پہنچے تو بارش ہورہی تھی، جس کی وجہ سے موسم بھی خوش گوار ہوگیا تھا جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید خوش گواری آنے کی نوید سنائی۔
اوباماکا یہ دورہ کسی بھی امریکی صدر کا 88 سال میں کیوبا کا پہلا دورہ ہے، جسے عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے، لیکن سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اوباما کیوبا کا سفر گذشتہ سال کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا، کیوںکہ اس وقت اوباما کا دور صدارت ختم ہونے والا ہے، اسی سال الیکشن ہورہے ہیں اور امریکا بھر میں صدارتی انتخابات کی مہم چلی ہوئی ہے۔
صدارتی امیدوار خاص طور پر اوباما کے مخالفین اُن کے دورۂ کیوبا کو بھی اپنی انتخابی مہم میں بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور حکومت پر تنقید کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ جیسے انتہاپسند ذہن رکھنے والے جب مسلمانوں کے اولین دشمن بنے ہوئے ہیں تو وہ کیوبا جیسے ملک کو بھی کوئی رعایت نہیں دیں گے جس نے کئی دہائیوں تک امریکا کی مخالفت مول لیے رکھی اور مختلف فورمز پر واشنگٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
کیوبا کے سابق سربراہ فیڈل کاسترو کے برعکس موجودہ صدر راؤل کاسترو امریکا سے بہتر تعلقات کے خواہاں نظر آتے ہیں اور انھوں نے مختلف پلیٹ فارم پر تنازعات ختم کرنے اور دوستی کے ذریعے عالمی برادری کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
امریکی صدر اور راؤل کاسترو کی ملاقات میں دونوں راہ نماؤں نے سیاسی و اقتصادی تعلقات کو بہتر سے بہترین کرنے پر اتفاق کیا۔ اوباما نے اپنے طور پر کیوبا کو واپس عالمی برادری میں لانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے جو خوش آئند ہے لیکن ابھی بہت سے بنیادی اقدامات کرنا ہوں گے، جو بتائیں گے کہ امریکی پالیسی ساز کیا سوچ رہے ہیں۔
عالمی رپورٹس کے مطابق کیوبا چاہتا ہے کہ امریکا اُس پر عائد پابندیاں بھی ختم کرے، تاکہ اسے معاشی بحرانوں سے نکلنے میں مدد ملے۔ صدر اوباما نے بھی اپنے اس دورے کو تاریخی اور اہم قرار دیا ہے۔ دسمبر2014ء میں امریکا اور کیوبا کے درمیان ہونے والا سمجھوتا دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب پہلا قدم قرار دیا جارہا تھا، جسے اب اوباما کے دورے نے مزید جلا بخشی ہے اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر دونوں ممالک نے نیک نیتی سے قدم بڑھائے تو باہمی تعلقات بہت اچھے ہوسکتے ہیں لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔
اوباما کے ہوانا پہنچنے سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان 50 سال بعد براہ راست ڈاک کا رابطہ قائم بھی ہو گیا۔ کیوبا کی ایک خاتون نے امریکی صدر کو کیوبا میں اپنے گھر مدعو کیا تھا، جس کا جواب انھیں صدر کی جانب سے مل گیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق 76 سالہ الینا یرزا نے اوباما کو 18فروری میں ایک خط لکھا تھا، جس میں انھیں اپنے گھر ''ایک پیالی کیوبن کافی'' پینے کے لیے بلایا تھا۔ اوباما نے خاتون کو جوابی خط میں لکھا کہ ''یہ خط دونوں ممالک کے درمیان روشن مستقبل کے ایک نئے باب کی یاد دہانی کراتا ہے۔'' دوسری جانب مختلف حلقے اوباما کے دورے کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔
اوباما کے آنے سے قبل ہوانا میں حکومت مخالف ایک گروپ 'لیڈیز اِن وائٹ' کی درجنوں ارکان کو پولیس نے حراست میں لے لیا جنھیں بعد ازاں رہا کردیا گیا ، یہ خواتین اوباما کے دورے کو امریکی سازش سے تعبیر کرکے اس کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ50 برسوں سے جاری سرد جنگ کے باعث کسی بھی امریکی صدر یا امریکی شہری کے لیے کیوبا کی سرزمین پر قدم رکھنا ناقابل تصور تھا، امریکا کے تعلقات کیوبا کے ساتھ اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب 1961ء میں فیڈل کاسترو کے انقلاب کے بعد کمیونزم کے مغرب میں پھیل جانے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، سماجی، معاشی رابطے نہ ہونے کے برابر تھے اور کیوبا کی قیادت امریکا کو اپنا دشمن نمبر ایک گردانتی تھی تو دوسری طرف وائٹ ہاؤس کے مکین بھی کیوبا کے خلاف اقدامات سے نہیں چوکتے تھے۔
کیوبا امریکیوں کے لیے اور امریکا کیوبا کے باشندوں کے لیے نوگوایریا بنا ہوا تھا اور دونوں ممالک کے سربراہ بھی کسی طرح اپنے رویوں میں لچک لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے، جس کا نتیجہ امریکی عوام نے کم اور کیوبا کے لوگوں نے زیادہ بھگتا اور اُن کا ملک ترقی کی دوڑ اور عالمی تعلقات کے میدان میں کافی پیچھے رہ گیا اور کیوبا سے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی بہت آگے نکل گئے۔ امریکا سے کشیدگی حالات کو انتہائی سنگین سطح پر لے گئی، جس پر شاید دونوں ملکوں کے راہ نماؤں کو پشیمانی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اب کیوبا میں بھی سوچ بدل رہی ہے اور امریکا میں بھی سنجیدہ حلقے دشمنی کی باتوں کے بجائے دوستی اور مفاہمت کی فضا کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہیں۔
اوباما کا شان دار استقبال، مہمان نوازی، خیرمقدم اور امریکی اداروں کا کیوبا میں سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ، سب اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن ابھی اختلافات کی آگ بجھی نہیں ہے ۔ ابھی بہت سے معاملات پر بات کرنی ہوگی۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اوباما نے یہ دورہ اپنے دور اقتدار کے آخری مہینوں میں کیا ہے ۔
لوگ تو یہ امید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ اوباما اس دورے میں کیوبا کے سابق لیڈر فیڈل کاسترو سے بھی ملاقات کریں گے، یہ سطور لکھے جانے تک ایسا نہیں ہوا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ 2016 کی ایک بہت بڑی خبر ہوگی۔ یہ کسی خواب سے کم نہیں ہوگا کہ رائل کاسترو اور اوباما کی طرح اوباما اور فیڈل کاسترو بھی ایک جگہ بیٹھ کر میڈیا سے گفتگو کریں اور آپس کے اختلافات ختم کرنے کی بات دہرائیں، لیکن ایسا ہوتا ہے یا نہیں، اس کا پتا زیر مضمون پڑھنے سے قبل چل جائے گا۔
کچھ ماہ بعد ہی (شاید نئے سال کے اوائل میں) وائٹ ہاؤس میں نیا امریکی صدر آجائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اوباما کے بعد وائٹ ہاؤس کا نیا مہمان بھی کیوبا کی طرف اسی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے یا نہیں۔ واشنگٹن اور ہوانا کے اچھے تعلقات خطے کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہوں گے۔ خاص طور پر کیوبا کے عوام کو اوباما کے اس دورے سے بہت امیدیں وابستہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اب محاذ آرائی اور کشیدگی کا خاتمہ ہو، اوباما کیوبا سے کیا لے کر واپس لوٹتے ہیں، اس کا فیصلہ دونوں ملکوں کے آئندہ دنوں میں تعلقات کریں گے لیکن دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی کوشش کرنی ہوگی کہ تقریباً ایک صدی سے کچھ عرصہ کم تک چلنے والی کشیدہ صورت حال ختم ہوجائے۔
وہ بااثر ملک جن کی بات امریکا بھی سنتا ہے، اگر نیک نیتی سے کیوبا اور امریکا کے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے تو نتائج یقینی طور پر خوش گوار نکلیں گے۔ ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک سے وابستہ ہے، کہیں سماجی معاملات ہیں تو کہیں تجارتی اور معاشی مفادات ہوتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان موجود کشیدگی کو بڑھنے سے روکا جائے یا کشیدگی کو ختم کیا جائے تو یہ مجموعی طور پر پوری دنیا کے لیے انتہائی مثبت ثابت ہوگا۔
عالمی سطح پر امن کے لیے اور مختلف علاقوں میں جاری جنگ و جدل کے ماحول کو مزید علاقوں تک پھیلنے سے روکنے کے لیے عالمی تنازعات کو گفت و شنید اور مذاکرات سے حل کرنا بہت ضروری ہے۔ شاید اسی سوچ کے ساتھ اوباما نے کیوبا کا سفر اختیار کیا، کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے، تو ممکن ہے کہ اوباما کے اس دورے سے امن کو کام یابی ملے اور دنیا ایک اور بڑی محاذآرائی سے چھٹکارا حاصل کرلے۔
دشمنی لاکھ سہی، ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملیں یا نہ ملیں ہاتھ ملاتے رہیے
اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون حقیقت میں دل کے قریب ہے یا صرف دنیا داری ہورہی تھی لیکن اس وقت امریکی صدر اوباما کے دورۂ کیوبا نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ گذشتہ ہفتے امریکی صدر کے 3 روزہ دورے نے امریکا اور کیوبا کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کی فضا کو دوستی کی ہوا کے جھونکوں سے بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اوباما کا دورہ اس وقت ہورہا ہے جب واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ ساتھ کیوبا کے صدر راؤل کاسترو اور عوام بھی امریکا سے محاذ آرائی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہے کہ کیوبا امریکا سے دوستی کرکے عالمی برادری میں واشنگٹن کے دوستوں کی حیثیت سے جانا جائے نہ کہ اُس کا نام مخالفین کی فہرست میں ہو۔
اوباما جب اپنی اہلیہ مشعل اور دونوں صاحب زادیوں کے ساتھ تاریخی دورے پر ہوانا پہنچے تو بارش ہورہی تھی، جس کی وجہ سے موسم بھی خوش گوار ہوگیا تھا جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید خوش گواری آنے کی نوید سنائی۔
اوباماکا یہ دورہ کسی بھی امریکی صدر کا 88 سال میں کیوبا کا پہلا دورہ ہے، جسے عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے، لیکن سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اوباما کیوبا کا سفر گذشتہ سال کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا، کیوںکہ اس وقت اوباما کا دور صدارت ختم ہونے والا ہے، اسی سال الیکشن ہورہے ہیں اور امریکا بھر میں صدارتی انتخابات کی مہم چلی ہوئی ہے۔
صدارتی امیدوار خاص طور پر اوباما کے مخالفین اُن کے دورۂ کیوبا کو بھی اپنی انتخابی مہم میں بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور حکومت پر تنقید کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ جیسے انتہاپسند ذہن رکھنے والے جب مسلمانوں کے اولین دشمن بنے ہوئے ہیں تو وہ کیوبا جیسے ملک کو بھی کوئی رعایت نہیں دیں گے جس نے کئی دہائیوں تک امریکا کی مخالفت مول لیے رکھی اور مختلف فورمز پر واشنگٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
کیوبا کے سابق سربراہ فیڈل کاسترو کے برعکس موجودہ صدر راؤل کاسترو امریکا سے بہتر تعلقات کے خواہاں نظر آتے ہیں اور انھوں نے مختلف پلیٹ فارم پر تنازعات ختم کرنے اور دوستی کے ذریعے عالمی برادری کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
امریکی صدر اور راؤل کاسترو کی ملاقات میں دونوں راہ نماؤں نے سیاسی و اقتصادی تعلقات کو بہتر سے بہترین کرنے پر اتفاق کیا۔ اوباما نے اپنے طور پر کیوبا کو واپس عالمی برادری میں لانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے جو خوش آئند ہے لیکن ابھی بہت سے بنیادی اقدامات کرنا ہوں گے، جو بتائیں گے کہ امریکی پالیسی ساز کیا سوچ رہے ہیں۔
عالمی رپورٹس کے مطابق کیوبا چاہتا ہے کہ امریکا اُس پر عائد پابندیاں بھی ختم کرے، تاکہ اسے معاشی بحرانوں سے نکلنے میں مدد ملے۔ صدر اوباما نے بھی اپنے اس دورے کو تاریخی اور اہم قرار دیا ہے۔ دسمبر2014ء میں امریکا اور کیوبا کے درمیان ہونے والا سمجھوتا دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب پہلا قدم قرار دیا جارہا تھا، جسے اب اوباما کے دورے نے مزید جلا بخشی ہے اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر دونوں ممالک نے نیک نیتی سے قدم بڑھائے تو باہمی تعلقات بہت اچھے ہوسکتے ہیں لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔
اوباما کے ہوانا پہنچنے سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان 50 سال بعد براہ راست ڈاک کا رابطہ قائم بھی ہو گیا۔ کیوبا کی ایک خاتون نے امریکی صدر کو کیوبا میں اپنے گھر مدعو کیا تھا، جس کا جواب انھیں صدر کی جانب سے مل گیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق 76 سالہ الینا یرزا نے اوباما کو 18فروری میں ایک خط لکھا تھا، جس میں انھیں اپنے گھر ''ایک پیالی کیوبن کافی'' پینے کے لیے بلایا تھا۔ اوباما نے خاتون کو جوابی خط میں لکھا کہ ''یہ خط دونوں ممالک کے درمیان روشن مستقبل کے ایک نئے باب کی یاد دہانی کراتا ہے۔'' دوسری جانب مختلف حلقے اوباما کے دورے کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔
اوباما کے آنے سے قبل ہوانا میں حکومت مخالف ایک گروپ 'لیڈیز اِن وائٹ' کی درجنوں ارکان کو پولیس نے حراست میں لے لیا جنھیں بعد ازاں رہا کردیا گیا ، یہ خواتین اوباما کے دورے کو امریکی سازش سے تعبیر کرکے اس کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ50 برسوں سے جاری سرد جنگ کے باعث کسی بھی امریکی صدر یا امریکی شہری کے لیے کیوبا کی سرزمین پر قدم رکھنا ناقابل تصور تھا، امریکا کے تعلقات کیوبا کے ساتھ اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب 1961ء میں فیڈل کاسترو کے انقلاب کے بعد کمیونزم کے مغرب میں پھیل جانے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، سماجی، معاشی رابطے نہ ہونے کے برابر تھے اور کیوبا کی قیادت امریکا کو اپنا دشمن نمبر ایک گردانتی تھی تو دوسری طرف وائٹ ہاؤس کے مکین بھی کیوبا کے خلاف اقدامات سے نہیں چوکتے تھے۔
کیوبا امریکیوں کے لیے اور امریکا کیوبا کے باشندوں کے لیے نوگوایریا بنا ہوا تھا اور دونوں ممالک کے سربراہ بھی کسی طرح اپنے رویوں میں لچک لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے، جس کا نتیجہ امریکی عوام نے کم اور کیوبا کے لوگوں نے زیادہ بھگتا اور اُن کا ملک ترقی کی دوڑ اور عالمی تعلقات کے میدان میں کافی پیچھے رہ گیا اور کیوبا سے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی بہت آگے نکل گئے۔ امریکا سے کشیدگی حالات کو انتہائی سنگین سطح پر لے گئی، جس پر شاید دونوں ملکوں کے راہ نماؤں کو پشیمانی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اب کیوبا میں بھی سوچ بدل رہی ہے اور امریکا میں بھی سنجیدہ حلقے دشمنی کی باتوں کے بجائے دوستی اور مفاہمت کی فضا کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہیں۔
اوباما کا شان دار استقبال، مہمان نوازی، خیرمقدم اور امریکی اداروں کا کیوبا میں سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ، سب اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن ابھی اختلافات کی آگ بجھی نہیں ہے ۔ ابھی بہت سے معاملات پر بات کرنی ہوگی۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اوباما نے یہ دورہ اپنے دور اقتدار کے آخری مہینوں میں کیا ہے ۔
لوگ تو یہ امید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ اوباما اس دورے میں کیوبا کے سابق لیڈر فیڈل کاسترو سے بھی ملاقات کریں گے، یہ سطور لکھے جانے تک ایسا نہیں ہوا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ 2016 کی ایک بہت بڑی خبر ہوگی۔ یہ کسی خواب سے کم نہیں ہوگا کہ رائل کاسترو اور اوباما کی طرح اوباما اور فیڈل کاسترو بھی ایک جگہ بیٹھ کر میڈیا سے گفتگو کریں اور آپس کے اختلافات ختم کرنے کی بات دہرائیں، لیکن ایسا ہوتا ہے یا نہیں، اس کا پتا زیر مضمون پڑھنے سے قبل چل جائے گا۔
کچھ ماہ بعد ہی (شاید نئے سال کے اوائل میں) وائٹ ہاؤس میں نیا امریکی صدر آجائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اوباما کے بعد وائٹ ہاؤس کا نیا مہمان بھی کیوبا کی طرف اسی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے یا نہیں۔ واشنگٹن اور ہوانا کے اچھے تعلقات خطے کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہوں گے۔ خاص طور پر کیوبا کے عوام کو اوباما کے اس دورے سے بہت امیدیں وابستہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اب محاذ آرائی اور کشیدگی کا خاتمہ ہو، اوباما کیوبا سے کیا لے کر واپس لوٹتے ہیں، اس کا فیصلہ دونوں ملکوں کے آئندہ دنوں میں تعلقات کریں گے لیکن دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی کوشش کرنی ہوگی کہ تقریباً ایک صدی سے کچھ عرصہ کم تک چلنے والی کشیدہ صورت حال ختم ہوجائے۔
وہ بااثر ملک جن کی بات امریکا بھی سنتا ہے، اگر نیک نیتی سے کیوبا اور امریکا کے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے تو نتائج یقینی طور پر خوش گوار نکلیں گے۔ ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک سے وابستہ ہے، کہیں سماجی معاملات ہیں تو کہیں تجارتی اور معاشی مفادات ہوتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان موجود کشیدگی کو بڑھنے سے روکا جائے یا کشیدگی کو ختم کیا جائے تو یہ مجموعی طور پر پوری دنیا کے لیے انتہائی مثبت ثابت ہوگا۔
عالمی سطح پر امن کے لیے اور مختلف علاقوں میں جاری جنگ و جدل کے ماحول کو مزید علاقوں تک پھیلنے سے روکنے کے لیے عالمی تنازعات کو گفت و شنید اور مذاکرات سے حل کرنا بہت ضروری ہے۔ شاید اسی سوچ کے ساتھ اوباما نے کیوبا کا سفر اختیار کیا، کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے، تو ممکن ہے کہ اوباما کے اس دورے سے امن کو کام یابی ملے اور دنیا ایک اور بڑی محاذآرائی سے چھٹکارا حاصل کرلے۔