پاک امریکا اقتصادی روابط مضبوط بنانے کی ضرورت
افغانستان میں قیام امن کے لیے موجودہ افغان حکومت اور طالبان کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا ہو گی
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں گہرائی پیدا کرنے بالخصوص اقتصادی روابط کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔
جمعرات کو ایوان وزیراعظم میں پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈیوڈ ہیل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ان کے امریکا کے گزشتہ دورہ کے دوران طے پانے والے اہم فیصلوں سے دوطرفہ تعلقات کو آگے لے جانے میں نئی قوت ملی ہے، پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کی نشاندہی اور ڈائیلاگ کے چھ ورکنگ گروپس کے تحت نئے اہداف کا تعین کرنے میں معاون رہا ہے، وہ اس ماہ کے آخر میں جوہری سلامتی سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے دورہ امریکا کے دوران صدر اوباما کے ساتھ دوطرفہ امور پر مفید تبادلہ خیال کے منتظر ہیں۔
افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی سے پاکستان کا اہم مفاد وابستہ ہے اور وہ افغان قیادت میں امن عمل کے ذریعے مفاہمت کے فروغ کے لیے مخلصانہ اور مسلسل کاوشیں بروئے کار لا رہا ہے۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے افغانستان میں امن کی بحالی میں پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ چار فریقی عمل سمیت دیگر اقدامات افغانستان میں قیام امن کے لیے نمایاں طور پر مفید ثابت ہوں گے، پرامن افغانستان پورے خطے کے مفاد میں ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی کاوشوں سے بہت مدد ملے گی۔
وزیراعظم نے امریکا سے اقتصادی تعلقات مضبوط کرنے کی جو بات کی ہے وہ خوش آیند ہے۔ پاکستان امریکا کی جنگی مہارت اور ٹیکنالوجی سے کافی حد تک فائدہ اٹھا رہا ہے اب اگر تزویراتی صلاحیت کے حصول کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات مزید گہرے ہوتے ہیں تو اس سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ امریکا ایک بہت بڑی اور خوشحال مارکیٹ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان نے امریکا کی مارکیٹ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیے کیا تیاریاں کی ہیں اور کیا معاشی و صنعتی پالیسی اپنائی ہے۔ کیا اس کی صنعتیں اس قابل ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر امریکی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ کیا پاکستانی مال اپنی کوالٹی اور قیمت کے لحاظ سے چین اور یورپی مصنوعات کا مقابلہ کر پائے گا جو پہلے ہی امریکی مارکیٹ میں چھائے ہوئے اور کسی دوسرے کی راہ میں مسلسل حائل ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ نئی صنعتوں کا قیام تو رہا ایک طرف توانائی کے بحران اور خام مال کی قیمتیں بڑھنے سے پاکستان میں پہلے ہی صنعتی یونٹس کی ایک مخصوص تعداد بند ہو چکی ہے اور جو صنعتیں چل رہی ہیں وہ بھی مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ ان صنعتوں میں نصب مشینری بھی پرانی ٹیکنالوجی پر چل رہی ہیں جو یورپی معیار کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ ٹیکسٹائل صنعت جس میں پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی صنعتوں میں ہوتا تھا آج مشکلات کا شکار ہو کر عالمی مسابقت کی دوڑ میں ہانپ رہی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے باوجود پاکستان ابھی تک یورپی مارکیٹ میں اپنی مناسب جگہ نہیں بنا سکا اور اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس نقصان کا ازالہ کرنے اور یورپی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کے لیے ابھی تک کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی جب کہ چین اور بھارت یورپی مارکیٹ میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ پانی کی کمی کے سبب کپاس کی پیداوار مقررہ ہدف سے بھی بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اس کی پیداوار میں نمایاں کمی آنے کا نقصان ٹیکسٹائل اور اس سے متعلقہ صنعتوں کو پہنچے گا۔ پانی کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جس سے زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آتی چلی جا رہی ہے۔
زیرزمین پانی کی سطح بھی کافی حد تک نیچے جانے سے آنے والے دنوں میں شہروں میں بھی پانی کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔ جہاں تک افغانستان میں امن و استحکام کا تعلق ہے تو پاکستان اس کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے اس نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور اب بھی وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کو بخوبی ادراک ہے کہ پرامن افغانستان نہ صرف اس کے بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے چین' امریکا اور پاکستان خصوصی طور پر کاوشیں کر رہے ہیں۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے موجودہ افغان حکومت اور طالبان کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ پاکستان امریکا کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں اور امریکا بہت سے شعبوں میں اس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔تجارتی میدان میں دونوں ممالک کے تعلقات اتنے زیادہ مضبوط نہیں،اقتصادیات کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں یہ تعلقات اس وقت ہی مضبوط ہوں گے جب پاکستان معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہو گا۔
جمعرات کو ایوان وزیراعظم میں پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈیوڈ ہیل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ان کے امریکا کے گزشتہ دورہ کے دوران طے پانے والے اہم فیصلوں سے دوطرفہ تعلقات کو آگے لے جانے میں نئی قوت ملی ہے، پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کی نشاندہی اور ڈائیلاگ کے چھ ورکنگ گروپس کے تحت نئے اہداف کا تعین کرنے میں معاون رہا ہے، وہ اس ماہ کے آخر میں جوہری سلامتی سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے دورہ امریکا کے دوران صدر اوباما کے ساتھ دوطرفہ امور پر مفید تبادلہ خیال کے منتظر ہیں۔
افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی سے پاکستان کا اہم مفاد وابستہ ہے اور وہ افغان قیادت میں امن عمل کے ذریعے مفاہمت کے فروغ کے لیے مخلصانہ اور مسلسل کاوشیں بروئے کار لا رہا ہے۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے افغانستان میں امن کی بحالی میں پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ چار فریقی عمل سمیت دیگر اقدامات افغانستان میں قیام امن کے لیے نمایاں طور پر مفید ثابت ہوں گے، پرامن افغانستان پورے خطے کے مفاد میں ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی کاوشوں سے بہت مدد ملے گی۔
وزیراعظم نے امریکا سے اقتصادی تعلقات مضبوط کرنے کی جو بات کی ہے وہ خوش آیند ہے۔ پاکستان امریکا کی جنگی مہارت اور ٹیکنالوجی سے کافی حد تک فائدہ اٹھا رہا ہے اب اگر تزویراتی صلاحیت کے حصول کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات مزید گہرے ہوتے ہیں تو اس سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ امریکا ایک بہت بڑی اور خوشحال مارکیٹ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان نے امریکا کی مارکیٹ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیے کیا تیاریاں کی ہیں اور کیا معاشی و صنعتی پالیسی اپنائی ہے۔ کیا اس کی صنعتیں اس قابل ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر امریکی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ کیا پاکستانی مال اپنی کوالٹی اور قیمت کے لحاظ سے چین اور یورپی مصنوعات کا مقابلہ کر پائے گا جو پہلے ہی امریکی مارکیٹ میں چھائے ہوئے اور کسی دوسرے کی راہ میں مسلسل حائل ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ نئی صنعتوں کا قیام تو رہا ایک طرف توانائی کے بحران اور خام مال کی قیمتیں بڑھنے سے پاکستان میں پہلے ہی صنعتی یونٹس کی ایک مخصوص تعداد بند ہو چکی ہے اور جو صنعتیں چل رہی ہیں وہ بھی مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ ان صنعتوں میں نصب مشینری بھی پرانی ٹیکنالوجی پر چل رہی ہیں جو یورپی معیار کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ ٹیکسٹائل صنعت جس میں پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی صنعتوں میں ہوتا تھا آج مشکلات کا شکار ہو کر عالمی مسابقت کی دوڑ میں ہانپ رہی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے باوجود پاکستان ابھی تک یورپی مارکیٹ میں اپنی مناسب جگہ نہیں بنا سکا اور اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس نقصان کا ازالہ کرنے اور یورپی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کے لیے ابھی تک کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی جب کہ چین اور بھارت یورپی مارکیٹ میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ پانی کی کمی کے سبب کپاس کی پیداوار مقررہ ہدف سے بھی بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اس کی پیداوار میں نمایاں کمی آنے کا نقصان ٹیکسٹائل اور اس سے متعلقہ صنعتوں کو پہنچے گا۔ پانی کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جس سے زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آتی چلی جا رہی ہے۔
زیرزمین پانی کی سطح بھی کافی حد تک نیچے جانے سے آنے والے دنوں میں شہروں میں بھی پانی کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔ جہاں تک افغانستان میں امن و استحکام کا تعلق ہے تو پاکستان اس کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے اس نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور اب بھی وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کو بخوبی ادراک ہے کہ پرامن افغانستان نہ صرف اس کے بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے چین' امریکا اور پاکستان خصوصی طور پر کاوشیں کر رہے ہیں۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے موجودہ افغان حکومت اور طالبان کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ پاکستان امریکا کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں اور امریکا بہت سے شعبوں میں اس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔تجارتی میدان میں دونوں ممالک کے تعلقات اتنے زیادہ مضبوط نہیں،اقتصادیات کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں یہ تعلقات اس وقت ہی مضبوط ہوں گے جب پاکستان معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہو گا۔