پاکستانی سیاست اور حافظ شیرازی

خوبصورت نام والے ہمارے پڑوسی ملک ایران کے سربراہ جناب ڈاکٹر حسن روحانی پاکستان تشریف لے آئے

Abdulqhasan@hotmail.com

خوبصورت نام والے ہمارے پڑوسی ملک ایران کے سربراہ جناب ڈاکٹر حسن روحانی پاکستان تشریف لے آئے۔ موسم بہار کے آغاز پر ان کی آمد ایک بڑا ہی خوشگوار اور مبارک موقع ہے، دونوں ملکوں کی فارسی اور اردو زبانیں اس قدر قریب ہیں کہ کچھ پہلے تک تو پڑھا لکھا وہ ہوتا تھا جو فارسی بھی لکھتا بولتا تھا یا سمجھتا ضرور تھا اور ہمارے تو قومی شاعر کا نصف کلام فارسی میں ہے اور غالبؔ جیسے مشرقی شاعر کا بہترین کلام بھی ان کی زبان اور پسند کے مطابق فارسی میں ہے۔ اب جب بہار کا موسم آ چکا ہے تو فارسی کا ایک بہاریہ شعر یاد آ رہا ہے

اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد

اس وقت کس کو اتنا ہوش ہے جو باغباں سے یہ پوچھے کہ بتا بلبل نے گل (پھول) سے کیا کہا پھول نے کیا سنا اور پھر باد صباء نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ خواجہ شیراز کا یہ شعر جس طرح کسی ایرانی کے دل و دماغ میں دھوم مچاتا اور کسی شیرازی کی دنیا کو تہہ و بالا کرتا ہوا ہم پاکستانیوں تک پہنچا ہے اسی طرح یہ اور ایسے دوسرے لاتعداد اشعار ہیں۔

جس کے بارے میں فیصلہ کرنا سخت مشکل ہے کہ شاعر نے ایران کے کسی گل گشت میں بیٹھ کر یہ شعر کہا یا پاکستان کے کسی مرغزار میں۔ آج کی بات جانے دیجیے کہ ہم ایک ثقافتی جہالت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ کچھ ہی پہلے تک پڑھے لکھے گھروں میں دیوان حافظ موجود ہوتا تھا جس کے شعروں سے کسی مشکل میں فال نکالی جاتی تھی۔


جیسے ایک بار جب پاکستانی سیاست کا ایک مشکل مرحلہ درپیش تھا اور مسلم لیگ کے دو بڑے سرکردہ لیڈر اتفاق سے ایک ہی شہر میں اپنے دوست چوہدری الطاف کے ہاں مقیم تھے اور سوال یہ درپیش تھا کہ حکومت کے خلاف مہم مزید تیز کرنے کے لیے بڑا جلوس نکالا جائے یا نہیں جو گجرات سے راولپنڈی تک طوفان مچا دے۔ بہت بحث و تمحیص کے بعد دیوان حافظ نے ان لیڈروں کا مسئلہ حل کیا کیونکہ دونوں لیڈر مزید سیاسی ہنگاموں سے بچنا چاہتے تھے بہانہ تلاش کرنا تھا۔

میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور خان قیوم خان نے میزبان چوہدری الطاف حسین سے کہا کہ دیوان حافظ لاؤ فال نکالتے ہیں۔ انھوں نے کتابوں والی الماری کھولی اور دیوان حافظ نکال کر ان دونوں لیڈروں کے سامنے رکھ دیا۔ خان صاحب نے اپنے ساتھی دولتانہ صاحب کی اجازت سے فال نکالنے کے لیے دیوان کھولا اور بسم اللہ کر کے جو صفحہ سامنے آیا اور جو شعر سب سے نمایاں تھا وہ انھوں نے پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ تم ایک کمزور سی چڑیا ہو اور ایک نسل در نسل کے توانا شکاری پرندے کی زد میں ہو اب خود سوچ لو۔ اس وارننگ پر شعر ختم ہوا۔ دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کی طرف خوش ہو کر دیکھا اور پھر ایک لاہور دوسرا پشاور روانہ ہو گیا۔

یعنی خواجہ شیراز نے ہمارے ایک مشکل سیاسی مرحلے پر ہمارا یہ مسئلہ حل کر دیا۔ دونوں لیڈر جو مزید سیاسی جنگ سے فرار چاہتے تھے دیوان حافظ کا بہانہ بنا کر اور اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کے سامنے سرخرو ہو کر گھرو گھر روانہ ہو گئے۔ یوں خواجہ شیراز نے ہماری داد رسی کر دی۔ مگر یہ زمانہ تو پھر بھی کسی حد تک فارسی زبان سے شناسائی کا زمانہ تھا اور گھروں میں دیوان حافظ بھی موجود رہتا تھا جس سے فال نکالنا ہر ایک کو معلوم تھا اور خواجہ شیراز کی یہ کرامت ایران کی طرح ہندوستان پاکستان میں بھی جاری تھی۔

اقبال کو یہ سب معلوم تھا چنانچہ انھوں نے فارسی زبان میں اپنے شاعرانہ کمال کا مظاہرہ کیا جو تاثیر ان کے فارسی کلام میں ہے وہ اردو میں نہیں۔ ان کی دلوں میں اترنے والی شاعری فارسی میں ہے۔ ایران میں اقبال کہ 'اقبال لاہوری' کے نام سے معروف ہیں۔ ایرانی صدر کی تشریف آوری سے شاہ ایران کا لاہور کا دورہ یاد آتا ہے جو غالباً ان کی تخت نشینی کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔

ایک رعنا جوان بادشاہ تھا جو کھلی گاڑی میں جب مال روڈ سے گزر رہا تھا ایک شاہانہ انداز اور شاہانہ استقبال کے ساتھ تو پورا لاہور اس کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ یہ پہلا مسلمان غیر ملکی بڑا لیڈر تھا جو پاکستان کے دورے پر آیا تھا۔ شہر لاہور کو اس سے زیادہ خوش کبھی شاید ہی دیکھا گیا ہو اس کے برسوں بعد چینی رہنماؤں کا بھی لاہور میں اتنا ہی استقبال ہوا کسی اور مہمان کا اس قدر پر جوش استقبال نہیں دیکھا گیا تھا۔
Load Next Story