کرپشن کی نشاندہی
’خاموش اکثریت‘ کی زندگی کا معیار اور زیادہ دگرگوں ہو گیا ہے
'خاموش اکثریت' کی زندگی کا معیار اور زیادہ دگرگوں ہو گیا ہے جب کہ چند مراعات یافتہ لوگوں کی دولت میں ناقابل بیان اضافہ ہو گیا ہے۔ امیر غریب کا تفاوت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جب کہ قوم کے غریب غرباء کی تعداد 23% سے بڑھ کر 40% سے متجاوز ہو گئی ہے اور متوسط طبقہ سرے سے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ 60 سالوں میں قومی خزانے کی بے محابا لوٹ کھسوٹ نے، جس میں گزشتہ ایک دہائی میں اور بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، قوم کے غم و غصے کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ جب کہ احتساب کا محض ڈھونگ ہی رچایا جا رہا ہے جو عوام کی انتہائی تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ ایک طرف قومی قرضہ جات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ قومی خزانے کی لوٹ مار ہے۔ یہ قرضہ نہ صرف ہمارے بچوں کو بلکہ بچوں کے بچوں کے سر پر بھی چڑھ گیا ہے۔ اگر بے محابہ لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب نہ کیا گیا تو ملک کا اقتصادی مستقبل بالکل تاریک ہو جائے گا۔
غیر قانونی دولت کی بھاری مقدار نے ایک خصوصی اشرافیہ کا طبقہ پیدا کر دیا ہے جس کے سماجی روابط بہت وسیع ہیں۔ یہ لوگ آپس میں شادیاں کر کے سیاسی اور کاروباری رشتے داریاں بنا کر اپنا خصوصی حلقہ پیدا کر لیتے ہیں، جہاں تک عام لوگوں کی کوئی رسائی ہی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ان کو کسی قسم کے احتساب کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ باری باری اقتدار میں آتے ہیں اور یہ اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کے یا ان کے سیاسی دوستوں کے خلاف کوئی انکوائری بھی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے خلاف ملنے والے شواہد کو از خود مسخ کر دیتے ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے معاملے میں دیکھا جارہا ہے۔ اعلیٰ فوجی افسروں کے کلب کے بعد اب سیاستدانوں کا بھی کلب وجود میں آ چکا ہے۔
پاکستان میں جو اقتدار میں ہوتے ہیں ان کی ذمے داریوں میں ان لوگوں کا تحفظ کرنا بھی شامل ہوتا ہے جو اقتدار سے باہر ہیں تا کہ جب ان کی باری آئے تو وہ بھی ان کا تحفظ کر سکیں۔ ذاتی مفادات میں مراعات یافتہ اشرافیہ کی کرپشن کو تحفظ دے کر اسے باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دیدی گئی ہے۔ جو لوگ اچھی گورننس قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے حالات کو پٹڑی پر چڑھانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دلدل میں دھنسی ہوئی گاڑی نکالنے کی کوشش کی جائے جس میں ایسی کوشش کرنیوالے کو خود زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
جن لوگوں کے پاس اثرورسوخ ہوتا ہے وہ بآسانی قانون کو توڑ دیتے ہیں یا اس میں ایسی لچک پیدا کر دیتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہو۔ احتساب صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے اگر اس کو ٹھوس اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور کسی شخص کے اثرورسوخ اور اس کے اعلیٰ روابط کا لحاظ رکھے بغیر عدل و انصاف کا ترازو متوازن رکھا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عدل و انصاف کا ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے جس پر عوام بھی کڑی نگاہ رکھتے ہیں لیکن اگر ذاتی مفادات غلبہ حاصل کر لیں تو پھر تفتیش کاروں کو ہدف بنا لیا جاتا ہے جن کو اپنی ملازمتوں کے چھن جانے کا خطرہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات ان کی زندگی ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
ایسی صورت میں وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کر سکتے۔ غیر قانونی کاروبار، ناجائز دولت اور سیاستدانوں، بیورو کریٹس، اور فوجی حکام کے ساتھ تعلقات کی موجودگی میں احتساب کا عمل خود بخود سست روی کا شکار ہو جاتا ہے یا اس کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ملٹی نیشنل مجرمانہ گروہ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار کے نام پر اپنی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں کو تحفظ دیتے ہیں۔
اسلام نے قانون کے سامنے سب افراد کی برابری پر زور دیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی عملی شکل کہیں نظر نہیں آتی۔ قانون نافذ کرنے والے ایک سینئر دوست کا کہنا ہے ''زبان سے یہ کہہ دینا آسان ہے کہ سب کے ساتھ برابر کا انصاف ہونا چاہیے لیکن اس پر عملدرآمد کرانا بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔'' معاشرہ اور مذہب دونوں کا تقاضا سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کا ہوتا ہے جب کہ اس کی ذمے داری ان افراد پر ہوتی ہے جن کے ذمے معاشرے میں قانون و انصاف کے نفاذ کے فرائض ہوتے ہیں۔
ان کی ذمے داری میں احتساب کی حیثیت زندگی کی ٹھوس حقیقت کی طرح ہوتی ہے نہ کہ محض ایک افسانہ۔ حقیقی جمہوریت (بشرطیکہ وہ نام نہاد یا جعلی جمہوریت نہ ہو) صاف شفاف ہوتی ہے جس کو عوام کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل ہوتا ہے جب کہ جعلی جمہوریت یا آمریت کو حاصل نہیں ہوتا۔
نظریۂ ضرورت سے بچنا بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے بالخصوص جب حالات ایسے موڑ پر پہنچ جائیں جن میں کسی خطرناک صورتحال سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہ ہو حتیٰ کہ ریاست کا وجود خطرہ میں پڑ جائے۔ دوسری طرف ہمارے فوجی جو ان گزشتہ ایک دہائی سے جاری ملک دشمنی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ہیں۔
وطن عزیز کی سلامتی کو واضح طور پر خطرہ درپیش ہے اور اس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔ لہٰذا پاک فوج کسی صورت میں اس خطرے سے چشم پوشی نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ مجرمانہ حکمرانی زیادہ دیر تک برداشت کر سکتی ہے۔ (1) کیا ہم جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر آئینی ذمے داریوں کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو نظر انداز کر دیں؟ (2) یا یہ کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدعنوان عناصر سے ملک کو بچا لیا جائے۔
تاریخ فرانس کے مطابق نپولین کی بغاوت کے موقع پر مادام ڈی اسٹالی نے کہا تھا ''جب قومی نمایندگی کی اخلاقی طاقت تباہ ہو جائے تو اس صورت میں 500 اراکین پر مشتمل ایک قانون ساز ادارے کی حیثیت فوج کے نزدیک 500 افراد کے ایک ہجوم سے بڑھ اور کچھ نہیں ہوتی جو اتنی ہی تعداد میں فوجیوں کی بٹالین سے کہیں کم تر پرجوش اور منظم ہوتا ہے۔'' جیسا کہ چوہدری شجاعت نے کہا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے صرف دو ٹرکوں اور ایک فوجی جیپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
فوج کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا کردار بہت مختصر اور محدود ہوتا ہے۔ نہ یہ کہ وہ 90 دن میں الیکشن کا کہہ کر 11 سال تک حکومت پر بیٹھے رہیں۔ چونکہ دنیا بھر کی فوجوں کو حکومت کرنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی لہٰذا اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ملک کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ خود اس مسئلے کا حصہ بن جاتی ہیں جس کو حل کرنے کے لیے وہ حکومت میں آتی ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ وہ ملک کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیتے ہیں بلکہ پبلک کی نگاہوں میں فوجی وردی کی قدروقیمت میں کمی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ مشرف میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی ذمے داری قبول کریں۔ تمام فوجیوں کو حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ آئین کی حفاظت کریں گے خواہ اس کے لیے انھیں جان کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اگر ان کی نیت نیک ہے اور مقصد خالص ہے تو ایسی صورت میں ان کو کسی خوف اور ڈر کی کیا ضرورت ہے۔ اگر مکمل یقین ہے کہ انھوں نے آئین سے ماورا جو قدم اٹھایا وہ حالات کا تقاضا تھا۔
اگر اقتدار پر قبضہ کے بعد وہ اپنے اختیارات کو اپنے اقتدار کی طوالت اور اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کے لیے استعمال نہیں کرتے اور اگر ان کے تمام اقدامات نیک نیتی کی بنیاد پر اٹھائے گئے جن میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی تو ایسی صورت میں انھیں تمام مضمرات کا جرأت اور بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے اور اپنی کارگزاری کا بوجھ کسی اور پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ کیا جنرل مشرف کے معاملے میں یہ عمل خود غرضی پر مبنی نہیں تھا جو انھوں نے کارگل کے معاملے میں خود کو برطرفی سے بچانے کے لیے کیا؟
جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں کی سرگرمیوں کو نظرانداز کیا، وہ ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ ہم نے کارگل میں شہید ہونے والوں کو اپنے فوجی تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ آپ ان کی موجودہ پرتعیش زندگیوں کا ان شہداء سے موازنہ کریںجو کارگل کی برف پوش اور طوفانی ہواؤں کی زد میں آنیوالی ڈھلوانوں کی بے نام قبروں میں دفن ہو گئے۔کوئی شخص اپنی انفرادی حیثیت میں مقدس نہیں ہوتا البتہ فوج ایک ادارے کے طور پر یقیناً مقدس ہے۔ کارگل کے مسئلہ پر اس کے ذمے داروں سے سابقہ تعلقات کی بنیاد پر احتساب کو نظر انداز کرنا یقیناً کرپشن ہے۔ لہٰذا ان کرپٹ افراد کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔
گزشتہ 60 سالوں میں قومی خزانے کی بے محابا لوٹ کھسوٹ نے، جس میں گزشتہ ایک دہائی میں اور بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، قوم کے غم و غصے کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ جب کہ احتساب کا محض ڈھونگ ہی رچایا جا رہا ہے جو عوام کی انتہائی تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ ایک طرف قومی قرضہ جات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ قومی خزانے کی لوٹ مار ہے۔ یہ قرضہ نہ صرف ہمارے بچوں کو بلکہ بچوں کے بچوں کے سر پر بھی چڑھ گیا ہے۔ اگر بے محابہ لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب نہ کیا گیا تو ملک کا اقتصادی مستقبل بالکل تاریک ہو جائے گا۔
غیر قانونی دولت کی بھاری مقدار نے ایک خصوصی اشرافیہ کا طبقہ پیدا کر دیا ہے جس کے سماجی روابط بہت وسیع ہیں۔ یہ لوگ آپس میں شادیاں کر کے سیاسی اور کاروباری رشتے داریاں بنا کر اپنا خصوصی حلقہ پیدا کر لیتے ہیں، جہاں تک عام لوگوں کی کوئی رسائی ہی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ان کو کسی قسم کے احتساب کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ باری باری اقتدار میں آتے ہیں اور یہ اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کے یا ان کے سیاسی دوستوں کے خلاف کوئی انکوائری بھی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے خلاف ملنے والے شواہد کو از خود مسخ کر دیتے ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے معاملے میں دیکھا جارہا ہے۔ اعلیٰ فوجی افسروں کے کلب کے بعد اب سیاستدانوں کا بھی کلب وجود میں آ چکا ہے۔
پاکستان میں جو اقتدار میں ہوتے ہیں ان کی ذمے داریوں میں ان لوگوں کا تحفظ کرنا بھی شامل ہوتا ہے جو اقتدار سے باہر ہیں تا کہ جب ان کی باری آئے تو وہ بھی ان کا تحفظ کر سکیں۔ ذاتی مفادات میں مراعات یافتہ اشرافیہ کی کرپشن کو تحفظ دے کر اسے باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دیدی گئی ہے۔ جو لوگ اچھی گورننس قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے حالات کو پٹڑی پر چڑھانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دلدل میں دھنسی ہوئی گاڑی نکالنے کی کوشش کی جائے جس میں ایسی کوشش کرنیوالے کو خود زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
جن لوگوں کے پاس اثرورسوخ ہوتا ہے وہ بآسانی قانون کو توڑ دیتے ہیں یا اس میں ایسی لچک پیدا کر دیتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہو۔ احتساب صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے اگر اس کو ٹھوس اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور کسی شخص کے اثرورسوخ اور اس کے اعلیٰ روابط کا لحاظ رکھے بغیر عدل و انصاف کا ترازو متوازن رکھا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عدل و انصاف کا ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے جس پر عوام بھی کڑی نگاہ رکھتے ہیں لیکن اگر ذاتی مفادات غلبہ حاصل کر لیں تو پھر تفتیش کاروں کو ہدف بنا لیا جاتا ہے جن کو اپنی ملازمتوں کے چھن جانے کا خطرہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات ان کی زندگی ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
ایسی صورت میں وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کر سکتے۔ غیر قانونی کاروبار، ناجائز دولت اور سیاستدانوں، بیورو کریٹس، اور فوجی حکام کے ساتھ تعلقات کی موجودگی میں احتساب کا عمل خود بخود سست روی کا شکار ہو جاتا ہے یا اس کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ملٹی نیشنل مجرمانہ گروہ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار کے نام پر اپنی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں کو تحفظ دیتے ہیں۔
اسلام نے قانون کے سامنے سب افراد کی برابری پر زور دیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی عملی شکل کہیں نظر نہیں آتی۔ قانون نافذ کرنے والے ایک سینئر دوست کا کہنا ہے ''زبان سے یہ کہہ دینا آسان ہے کہ سب کے ساتھ برابر کا انصاف ہونا چاہیے لیکن اس پر عملدرآمد کرانا بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔'' معاشرہ اور مذہب دونوں کا تقاضا سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کا ہوتا ہے جب کہ اس کی ذمے داری ان افراد پر ہوتی ہے جن کے ذمے معاشرے میں قانون و انصاف کے نفاذ کے فرائض ہوتے ہیں۔
ان کی ذمے داری میں احتساب کی حیثیت زندگی کی ٹھوس حقیقت کی طرح ہوتی ہے نہ کہ محض ایک افسانہ۔ حقیقی جمہوریت (بشرطیکہ وہ نام نہاد یا جعلی جمہوریت نہ ہو) صاف شفاف ہوتی ہے جس کو عوام کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل ہوتا ہے جب کہ جعلی جمہوریت یا آمریت کو حاصل نہیں ہوتا۔
نظریۂ ضرورت سے بچنا بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے بالخصوص جب حالات ایسے موڑ پر پہنچ جائیں جن میں کسی خطرناک صورتحال سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہ ہو حتیٰ کہ ریاست کا وجود خطرہ میں پڑ جائے۔ دوسری طرف ہمارے فوجی جو ان گزشتہ ایک دہائی سے جاری ملک دشمنی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ہیں۔
وطن عزیز کی سلامتی کو واضح طور پر خطرہ درپیش ہے اور اس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔ لہٰذا پاک فوج کسی صورت میں اس خطرے سے چشم پوشی نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ مجرمانہ حکمرانی زیادہ دیر تک برداشت کر سکتی ہے۔ (1) کیا ہم جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر آئینی ذمے داریوں کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو نظر انداز کر دیں؟ (2) یا یہ کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدعنوان عناصر سے ملک کو بچا لیا جائے۔
تاریخ فرانس کے مطابق نپولین کی بغاوت کے موقع پر مادام ڈی اسٹالی نے کہا تھا ''جب قومی نمایندگی کی اخلاقی طاقت تباہ ہو جائے تو اس صورت میں 500 اراکین پر مشتمل ایک قانون ساز ادارے کی حیثیت فوج کے نزدیک 500 افراد کے ایک ہجوم سے بڑھ اور کچھ نہیں ہوتی جو اتنی ہی تعداد میں فوجیوں کی بٹالین سے کہیں کم تر پرجوش اور منظم ہوتا ہے۔'' جیسا کہ چوہدری شجاعت نے کہا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے صرف دو ٹرکوں اور ایک فوجی جیپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
فوج کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا کردار بہت مختصر اور محدود ہوتا ہے۔ نہ یہ کہ وہ 90 دن میں الیکشن کا کہہ کر 11 سال تک حکومت پر بیٹھے رہیں۔ چونکہ دنیا بھر کی فوجوں کو حکومت کرنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی لہٰذا اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ملک کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ خود اس مسئلے کا حصہ بن جاتی ہیں جس کو حل کرنے کے لیے وہ حکومت میں آتی ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ وہ ملک کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیتے ہیں بلکہ پبلک کی نگاہوں میں فوجی وردی کی قدروقیمت میں کمی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ مشرف میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی ذمے داری قبول کریں۔ تمام فوجیوں کو حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ آئین کی حفاظت کریں گے خواہ اس کے لیے انھیں جان کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اگر ان کی نیت نیک ہے اور مقصد خالص ہے تو ایسی صورت میں ان کو کسی خوف اور ڈر کی کیا ضرورت ہے۔ اگر مکمل یقین ہے کہ انھوں نے آئین سے ماورا جو قدم اٹھایا وہ حالات کا تقاضا تھا۔
اگر اقتدار پر قبضہ کے بعد وہ اپنے اختیارات کو اپنے اقتدار کی طوالت اور اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کے لیے استعمال نہیں کرتے اور اگر ان کے تمام اقدامات نیک نیتی کی بنیاد پر اٹھائے گئے جن میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی تو ایسی صورت میں انھیں تمام مضمرات کا جرأت اور بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے اور اپنی کارگزاری کا بوجھ کسی اور پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ کیا جنرل مشرف کے معاملے میں یہ عمل خود غرضی پر مبنی نہیں تھا جو انھوں نے کارگل کے معاملے میں خود کو برطرفی سے بچانے کے لیے کیا؟
جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں کی سرگرمیوں کو نظرانداز کیا، وہ ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ ہم نے کارگل میں شہید ہونے والوں کو اپنے فوجی تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ آپ ان کی موجودہ پرتعیش زندگیوں کا ان شہداء سے موازنہ کریںجو کارگل کی برف پوش اور طوفانی ہواؤں کی زد میں آنیوالی ڈھلوانوں کی بے نام قبروں میں دفن ہو گئے۔کوئی شخص اپنی انفرادی حیثیت میں مقدس نہیں ہوتا البتہ فوج ایک ادارے کے طور پر یقیناً مقدس ہے۔ کارگل کے مسئلہ پر اس کے ذمے داروں سے سابقہ تعلقات کی بنیاد پر احتساب کو نظر انداز کرنا یقیناً کرپشن ہے۔ لہٰذا ان کرپٹ افراد کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔