گرمی کی لہر

گرمی میں لوگوں کو پانی اور دیگر مشروبات کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے

گزشتہ سال گرمی کی لہر کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے باعث امسال شہری بڑی تشویش سے گرمی کی آمد کو دیکھ رہے ہیں۔ کیا اس مرتبہ ہم ان اثرات کو روک پائیں گے؟ بے شک گرمی کی لہرکے نقصان دہ اثرات کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ تیاری کرنا ہوگی۔ ریڈیو اور ٹی وی کی مدد سے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے آگاہ کیا جائے۔ سماجی اور طبی دیکھ بھال کے نیٹ ورکس کو فعال کیا جائے اور لوگوں کو گرمی سے بچاؤکے بارے میں مشورے دیے جائیں۔

گرمی میں لوگوں کو پانی اور دیگر مشروبات کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے، پیاس لگنے کا انتظار نہ کریں، جو لوگ گرمی میں زیادہ جسمانی مشقت والا کام کرتے ہیں تو انھیں ایک ایک گھنٹے بعد دو سے چار گلاس پانی یا کوئی ٹھنڈا مشروب پینا چاہیے۔ جو لوگ کسی بیماری کی وجہ سے زیر علاج ہیں، انھیں اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے کہ انھیں دن بھر میں کتنا پانی پینا چاہیے۔

ایسے مشروبات استعمال مت کریں جن میں کیفین یا بہت زیادہ چینی ملی ہو کیونکہ ان کی وجہ سے جسم سے پانی کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ ٹھنڈا مشروب بھی نہ پئیں کیونکہ اس سے معدے میں بل پڑسکتے ہیں۔ پسینہ بہنے سے جسم سے نمکیات نکل جاتے ہیں، ان کی کمی کو پورا کرنا ضروری ہے۔ گرمی میں ہلکے رنگوں کے ، ہلکے پھلکے، ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں۔ کوشش کریں دھوپ میں باہر نہ نکلیں۔ ضروری کام کے لیے صبح یا شام کو نکلیں۔

گرمی کی لہر سے ننھے منے بچوں، بوڑھوں، موٹاپے کا شکار لوگوں، شدید جسمانی مشقت کرنے والوں اور بیمار لوگوں کے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔دھوپ میں باہر نکلنے کی صورت میں بعض لوگوں کی جلد کی رنگت سرخ پڑ جاتی ہے اور انھیں درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ کبھی کبھی جسم پر آبلے بھی نمودار ہوجاتے ہیں اور بخار اور سردرد بھی ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں صابن سے نہانا ضروری ہے تاکہ چکنائی سے بند ہونے والے مسامات کھل جائیں اور جسم قدرتی طور پر ٹھنڈا ہوجائے۔ گرمی کی وجہ سے بعض لوگوں کے پیٹ اور ٹانگوں کے پٹھوں میں تکلیف دہ کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان پٹھوں کو دبانا یا ہلکی سی مالش کرنا مفید رہتا ہے۔ اس صورت میں گھونٹ گھونٹ کرکے پانی پیتے رہیں۔

کچھ لوگوں کو دھوپ میں باہر نکلنے کی صورت میں بہت زیادہ پسینہ آتا ہے، کمزوری محسوس ہوتی ہے، جسم ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے اور رنگت پیلی پڑ جاتی ہے، نبض آہستہ چلنے لگتی ہے اور بعض لوگ بے ہوش بھی ہوجاتے ہیں، یا الٹیاں کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کسی ٹھنڈی جگہ لٹا دیا جائے۔ٹھنڈی اور گیلی پٹیاں رکھی جائیں ایسی جگہ لے جائیں جہاں پنکھا چل رہا ہو۔

عام طور پرگرمی کی وجہ سے لوگوں کو ہیٹ اسٹروک ہوجاتا ہے ، اس میں جسمانی درجہ حرارت 106 تک پہنچ جاتا ہے، جلد گرم اور خشک ہوجاتی ہے۔ نبض تیز چلنے لگتی ہے اور مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔ عام طور پر اس حالت میں پسینہ نہیں آتا۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہوتی ہے جس میں مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے گزشتہ سال ہماری طرح ہندوستان میں بھی گرمی کی وجہ سے کئی اموات ہوئی تھیں اور تب آندھرا پردیش کی حکومت نے مرنے والوں کے خاندانوں کو ایک لاکھ روپیہ فی خاندان کے حساب سے امداد دی تھی۔ بس اسٹاپس اور ریلوے اسٹیشن پر پینے کا پانی فراہم کیا گیا اور جسم میں پانی کی کمی کو دور کرنے والے نمکیات اور ٹیکے کے ذریعے جسم میں سیال مادہ داخل کرنے کے انتظامات کیے تھے۔ ہنگامی طبی امداد کے مراکز قائم کیے گئے تھے اور میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائی گئی تھی۔


گزشتہ گرمیوں ایئرکنڈیشنرز کی خریداری کے لیے دکانوں پر رش بڑھ گیا تھا۔ کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان برقیاتی آلات کے استعمال سے ماحولیاتی گرمی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہی حال ٹرانسپورٹ کا ہے۔ حکومت آج تک اپنے شہریوں کے لیے ایک پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بناسکی اور بڑے شہروں میں ہر شہری آمد ورفت کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک کار خریدنے کے چکر میں رہتا ہے اور یہ کوئی نہیں سوچتا کہ سڑکوں پر جتنی زیادہ گاڑیاں چلیں گی ماحولیاتی آلودگی اور گرمی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ اگر حکومت اپنے شہریوں کو ہلاکت سے بچانا چاہتی ہے تو ایک اچھا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بنانا اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔

گرمی کی شدت کو کم کرنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور پارک بنائیں۔ بقول مرحوم کاؤس جی پارک شہر کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں لیکن بلڈر مافیا پارکوں پر ناجائز قبضے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کراچی کے ساحلوں پر تمریر جنگلات گرمی سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ تھے لیکن بلڈر مافیا نے وہ درخت کاٹ دیے ہیں۔ پورے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنادیا ہے۔ ڈربوں جیسے فلیٹوں میں لوگ رہنے پر مجبور ہیں۔ اونچی چھتوں والے ہوا دار مکان بنائے جائیں فلیٹس یا مکانات ہوا کے رخ پر بنائے جائیں جنھیں ویسٹ اوپن کہا جاتا ہے۔

گرمی کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے کراچی میں پانی کی خاطر خواہ فراہمی بھی ضروری ہے۔ اس وقت کراچی کو 1080 ملین گیلن پانی کی فراہمی کی ضرورت ہے جب کہ ہر تین سال بعد آبادی میں اضافے کی وجہ سے 100 ملین گیلن اضافی پانی درکار ہوتا ہے۔ اس وقت کراچی کو اپنی ضروریات سے 500 ملین گیلن کم پانی مل رہا ہے۔

گرمی میں اضافے کا دنیا بھر کو سامنا ہے۔ گلشیئرز پگھل رہے ہیں۔ یورپ میں جہاں گرمی نہیں پڑتی تھی اب وہاں گرمی پڑنے لگی ہے۔ کہیں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے تو کہیں سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں موسموں کی شدت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ شہر کنکریٹ کے جنگل بن جاتے ہیں اور حرارت بڑھ جاتی ہے۔

گزشتہ برس شدید ترین گرمی کے تجربے کے پیش نظر حکومت کو عوامی جگہوں پر سائے اور پینے کے پانی کی فراہمی کا انتظام کرنا چاہیے۔ پی ایم اے اور ماحولیات پر کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ کراچی میں شادی کے ایئرکنڈیشنڈ بینکوئٹ ہالز میں گرمی کی لہر سے متاثرہ افراد کو منتقل کیا جائے۔

جون میں رمضان بھی آرہے ہیں اور گزشتہ گرمی میں بھی اکثر روزہ دار گرمی کی لہر کی ہلاکت خیزی کا نشانہ بنے تھے۔ اس مرتبہ کوشش کریں کہ دھوپ میں باہر نہ نکلیں۔ مگر روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں، ٹھیلے والوں اور ایسے دیگر لوگوں کا کیا ہوگا جو باہر نہ نکلیں تو ان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔ گرمی سے بچ گئے تو فاقہ کشی اور غربت سے مرجائیں گے۔ غربت سے بچانا بھی اتنا ہی ضروری ہے اور یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ سب کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرے۔
Load Next Story