شادی یا بربادی

ایک سادہ اور مذہبی فرض کی ادائیگی میں بے جا اصراف نے طبقاتی کشمکش میں اضافہ کردیا ہے۔

ایک طرف تو تقاریب میں نمود و نمائش کا پہلو نظر آتا ہے وہیں ایسی تقا ریب میں کھانے کے بے تحاشہ آئٹمز کی وجہ سے رزق کا بے دریغ زیاں ہوتا ہے۔

آجکل شادی بیاہ کا سیزن چل رہا ہے سو ہر جانب سے شادی کے دعوت نامے آرہے ہیں۔ خوبصورت اور دیدہ زیب کارڈز جن کو دیکھنے سے ہی ان کی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تو ایک عام کارڈ کی قیمت بھی 25 سے 500 تک ہی ہوگی۔ خیر جناب یہ تو شادی کے سلسلے کی پہلی ہی کڑی ہے، ذرا دیکھئے تو کہ کیا کیا خوبصورتیاں چھپی ہیں اس مذہبی و معاشرتی فریضہ کی ادایئگی میں جس کی بناء پر یہ ایک سماجی مسئلہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

عام طور پرشادی بیاہ کی تقریبات کا آغاز مہندی، مایوں کی رسم سے ہوتا ہے۔ زرد رنگ سے آراستہ خوبصورت پنڈا ل، زرد ہی پیراہن کی بہار، گویا آپ سرسوں کے کھیت میں کھڑے ہیں۔ اکثر ایسے مواقعوں پر بعض ایسی رسومات کی ادائیگی دیکھنے میں آتی ہے جو آپ کو پڑوسی ملک کے کسی سوپ سیریل کا حصہ معلوم ہوں گی، لیکن یہ اس طرح ہماری ثقافت میں رچ بس گئی ہیں کہ گویا کہ ان کے بغیر شادی کی تقریب مکمل نہیں ہوگی۔

نکاح اور ولیمہ کی تقاریب کا تو ذکر ہی کیا، خوبصورت اور دلکش آراستہ شا دی ہال، زرق برق لباس، اور پر تکلف، ولا یتی اور دیسی پکوان۔ پاکستانی، افغانی، ہندوستانی، شاہانہ، درویشانہ، اٹالین سے لے کر چائنیز تک آپ کو سب ٹیبل کی زینت بنا نظر آئیگا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ مغلیہ دستر خوان پر پہنچ گئے۔ اگر کوئی ہمارے ملک کی شادی کی تقریب دیکھ لے تو یقین مانئے ہمارے ملک کو غیر ملکی امداد ملنا بند ہو جائے، کیا اس اصراف اور دکھاوے کو کبھی معاشرتی شعور کی نگاہ سے پرکھا گیا ہے؟ جب کہ ہمارا مذہب بھی ہر موقع پر سادگی کا درس دیتا ہے، پھر کیونکر یہ اصراف اور نمود ہمارے معاشرے کا حصہ بن گے ہیں؟۔

یہ صرف ہمارے ہاں ہی موقوف نہیں بلکہ گذشتہ دنوں ایک اخباری رپورٹ پڑھنے کا انکشاف ہوا جس میں مملکت اسلامی سعودیہ عرب میں شادی اور دیگر تقریبات کے بعد ضائع ہونے والے کھانے کی مقدار کے اعداد و شمار درج تھے جو آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک امدادی پراجیکٹ کے سربراہ کے مطابق مکہ میں تقریبات کے بعد ضائع ہونے والے اضافی کھانے سے دنیا بھر میں خوراک کی قلت کا شکار 48 لاکھ بچوں کو کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔


یہ نہایت چشم کشا انکشاف ہے کہ مکہ میں عمومی طور پر کسی بھی شادی میں اتنا کھانا ضائع ہوتا ہے کہ وہ 250 افراد کو کھلایا جاسکتا ہے۔ فلاحی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال شادیوں اور دیگر تقریبات سے جمع ہونے والا کھانا 24 ہزار افراد کو فراہم کیا جاتا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کم از کم اس کھانے کو محفوظ بنا کر دوسرے ضروتمندوں تک پہنچانے کا شعور رکھنے والے افراد موجود تو ہیں جو اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی اس اجارہ داری کے باعث ایک طبقہ کو بھوک مٹانے کیلئے چند لقمے بھی میسر نہیں۔

یہ سیکھنے اور سمجھنے کا مرحلہ ہے کہ اب ان باتوں سے ہوشیار ہوا جائے، ایک سادہ اور مذہبی فرض کی ادائیگی میں بے جا اصراف نے طبقاتی کشمکش میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف تو ان تقاریب میں نمود و نمائش کا پہلو نظر آتا ہے وہیں ایسی تقا ریب میں کھانے کے بے تحاشہ آئٹمز کی وجہ سے رزق کا بے دریغ زیاں ہوتا ہے۔ ہمیں ایک نظر اس جانب بھی دیکھنا چاہئیے کہ جہاں ایک طرف ہمارے ملک میں انسان بھوک، اور قلت غذا کا شکار ہیں تو دوسری طرف یہ صورتحال ہے۔ اب ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے تا کہ جو رقم ہم لا حاصل بناوٹ اور دکھاوے کی نذر کرتے ہیں اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اسے اپنی قوم کی فلاح پر خرچ کریں تو انسانیت کے ساتھ یقیناً قوم کا بھی بھلا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story