دل سنبھل جائے تو…
یکم جنوری 2001ء سے ایکسپریس میں کالم لکھنا شروع کیا جو تادم تحریر جاری ہے۔
یکم جنوری 2001ء سے ایکسپریس میں کالم لکھنا شروع کیا جو تادم تحریر جاری ہے۔ کبھی ہفتے میں تین بھی لکھے، کبھی ناغہ اپنی طرف سے نہیں کیا، لیکن 4 دسمبر 2015ء کے بعد زندگی یوں بدل گئی کہ سہگل کے ایک گیت کا مکھڑا زندگی کا ترجمان بن گیا کہ ہم پہ ایسی بھی پڑے گی ہمیں معلوم نہ تھا
قارئین اور دوست احباب کے زور دینے سے کسی نہ کسی طرح سلسلہ جاری رکھا لیکن اب میں ہمت ہار بیٹھی ہوں، طبیعت بہت خراب رہنے لگی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے میرے لیے اب اس دنیا میں کوئی کشش نہیں رہ گئی۔ اسلیے قارئین سے الوداع کہتی ہوں۔ کم از کم ایک ماہ کی رخصت چاہتی ہوں۔ اپریل میں بیٹے کے پاس اسلام آباد جا رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے ماحول کی تبدیلی اور بچوں کی موجودگی میرے اندر دوبارہ لکھنے کی امنگ پیدا کر دے۔ اگر ایسا ہوا تو مئی 2016ء میں دوبارہ آپ سب سے ملاقات ہو گی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میرا آخری کالم ہو؟
پندرہ سال کے اس عرصے میں قارئین نے جو محبت دی، جو اعتماد دیا اس کا شکریہ ادا نہ کرنا بے انصافی ہو گی۔ بہت سے لوگوں کو ناراض بھی کیا، دھمکی آمیز فون کالز اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے تکلیف دہ SMS اور ای میل سے بھی واسطہ رہا لیکن کبھی ان باتوں سے دل شکنی نہیں ہوئی بلکہ ان کے مقابلے میں چاہنے والوں کی محبت بھری ای میلز اور SMS حوصلہ بڑھاتے تھے۔
بعض دفعہ ادارے کی جانب سے پورے کا پورا کالم ''ناقابل اشاعت'' کے زمرے میں آ جاتا تھا۔ وقت ہوتا تھا تو دوسرا لکھ کر بھیج دیا جاتا تھا، کبھی کبھی بہت سے الفاظ اور پیراگراف حذف کر دیے جاتے تھے لیکن میں ادارے کی مجبوری سمجھتی تھی اسی لیے ''ممنوعہ'' موضوعات کو ایک طرف رکھ کر ادب اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ زیادہ کر دی۔ آخری تازہ ترین تصنیف ''فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں''۔ اس معاشرے میں سچ کہنا اور سچ لکھنا کتنا مشکل ہے یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ''سچ'' پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں۔
ایک عجیب ماحول بنتے دیکھا، سب کی زبانیں زہر آلود۔ جیسے نیام سے نکلی تلواریں جو ہر دم خون کی پیاسی لگتی ہیں۔ عصبیت فروغ پا رہی ہے کہ سیاسی و مذہبی اقتدار کی یہ پہلی ضرورت ہے۔ ایک ملک آپ کو عطا کر دیا گیا، یہ دنیا کی بدترین ہجرت تھی جس میں صرف انسانی خون بہا، خواہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو، پارسی ہو یا عیسائی اور یہودی۔ خون کا رنگ تو سب کا ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن تعصب اور نفرت کے شعلے خون کے ایک رنگ کو مسلکوں، مذہبوں اور علاقائی بنیادوں پہ تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ نفرتوں کی پنیریاں خوب پھلتی پھولتی ہیں اور پھل بھی اچھے دیتی ہیں۔ کاش پاکستان بنانے والوں کو اس کا ادراک ہوتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ دنیا میں مذہب کے نام پر یقینا خون بہایا گیا ہے بڑی بڑی جنگیں اس کی گواہ ہیں۔ خدا جانے کیوں انسان کو درندہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ خوف آتا ہے یہ سب دیکھ کر۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ایکسپریس کے لکھے گئے میرے بعض کالموں نے خلق خدا کو فائدہ بھی پہنچایا ہے۔ کتنے ہی وہ لوگ جن کی مدد کے لیے کالم لکھے گئے آج بھی رابطے میں ہیں۔ انسان کو خدا نے اشرف المخلوقات اسی لیے تو بنایا ہے کہ وہ دوسروں کے کام آ سکے۔ زندہ بھی وہی لوگ رہ جاتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے کسی کے بغیر لالچ کے کام آئے ورنہ تو اب لوگ کسی کو بغیر کسی مطلب کے فون بھی نہیں کرتے۔ چہ جائیکہ گھر جا کر ملاقات کرنا اور خیریت معلوم کرنا اب پرانی باتیں ہو گئیں، موبائل نے زمینی فاصلے تو کم کیے لیکن دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ہم کتنے آرام سے تسلی سے فخریہ کہتے ہیں کہ مغرب میں اولڈ پیپلز ہوم آباد ہو رہے ہیں اور ہمارے ہاں خاندانی نظام بڑا مضبوط ہے لیکن ذرا سوچیے کہ بیشک وہاں اولڈ پیپلز ہوم آباد ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ وہاں سینئر سٹیزن کے لیے ایک فون کال پر ان کی ضرورت اور مرضی کے مطابق رہائش، کھانا پینا، اخبار، لانڈری سب کچھ فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی کمزور بینائی کی وجہ سے اخبار پڑھ نہیں سکتا تو مختلف اداروں کے اور اولڈ ہوم کے رضا کار انھیں اخبار پڑھ کر بھی سناتے ہیں۔ وہی فلاحی ریاستیں ہیں جہاں لوگوں کو بنیادی سہولتیں، علاج معالجہ مفت یا کم قیمت میں فراہم کیا جائے۔ ہمارے ہاں صرف زبانی دعوے ہیں وہ الیکشن جیتنے کے لیے اور اپنا اقتدار دیر تک قائم رکھنے کے لیے۔
کیا یہ ملک اسی لیے بنا تھا کہ ہم قوم کے بجائے گروہ بن جائیں؟ بنیادی تعلیم سے محروم معاشرہ اور کیا کریگا؟ جہاں سرداری نظام اسکول اور کالج قائم نہ ہونے دے کہ ان کے غلام کہیں ان کے سامنے سر اٹھا کے نہ کھڑے ہو جائیں جہاں وڈیرہ اور جاگیردار ڈاکوؤں، اغوا کاروں اور منشیات فروشوں کی صف میں شامل ہو کر اسمبلیوں میں جا پہنچتے ہوں، اس معاشرے میں مجرم پیدا نہیں ہونگے تو اور کون ہونگے؟ لیکن اس اندھیرے میں چند روشنی کی کرنیں بھی نظر آتی ہیں جو بلاتخصیص مذہب و ملت انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ لاوارث بچوں کو والدین عطا کر رہی ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلا رہی ہیں اور ... اور سب سے زیادہ لائق تحسین ہیں وہ لوگ جو ضرورت مندوں کو خون دے کر ان کی زندگیاں بچا رہے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے ان نوجوانوں کو دیکھ کر جو کسی سانحے یا حادثے کے بعد خون دینے اسپتال پہنچ جاتے ہیں۔
بہرحال پریشانیاں پھر بھی کم نہیں ہوتیں۔ جی تو بہت چاہ رہا ہے کہ بہت سی باتیں کروں، کچھ پرانی یادیں تازہ کروں لیکن جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ دل جیسے دنیا سے اٹھ گیا ہو، ایک شخص کے جانے کے بعد دنیا ہی ختم ہو جائے گی، ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ جی چاہتا ہے دوبارہ جی اٹھوں، خوش رہوں۔ ہو سکتا ہے اسلام آباد میں اپنے بچوں کے چہرے دیکھ کر دل کو شاید قرار آ جائے۔ وہ بھی میرے لیے پریشان ہیں، مجھے بہت پیار کرتے ہیں اور جو چلا گیا اس کی کمی محسوس کرتے ہیں دعا کیجیے کہ دل کو قرار آ جائے، دل سنبھل جائے تو انشا اللہ مئی میں دوبارہ ملاقات ضرور ہو گی۔ فی الحال مجھے واقعی آرام کی ضرورت ہے۔ کون سا آرام؟ شاید ابدی سکون؟