کبھی سوچا
ہم صبح سویرے اپنے آرا م دہ بستر پر ایک گہری نیند سے بیدار ہوتے ہیں،
ہم صبح سویرے اپنے آرا م دہ بستر پر ایک گہری نیند سے بیدار ہوتے ہیں، کبھی رات دیر تک جاگتے رہنے کی وجہ سے صبح دیر تک سستی سے پڑے ہوئے اورکبھی، '' الصلوۃ خیر من النوم'' کی آواز سے۔ کچھ خوش قسمت ہمیشہ اسی آواز پر جاگتے ہیں اور اپنے دن کا آغاز اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جنھیں لگتا ہے کہ ان کے پاس ایسا ہے ہی کیا کہ جس پر وہ اللہ کا شکر ادا کریں، وہ لاکھوں لوگوں سے کمتر اور غریب ہیں، ان کے پاس کچھ بھی تو نہیں ہے! کوئی شخص اپنے حال میں خوش نہیں ہوتا، اسے اپنا آپ سب سے کم مایہ اور دوسرے خود سے بہت بہتر لگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔
ہمارے وہ سارے حکمران بھی خود کو کم مایہ سمجھتے ہیں جو اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے، اب بھی اسی ملک سے لوٹے ہوئے پیسے سے بیرون ملک میں بیٹھ کر عیاشیاں کرتے اور اپنی اگلی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ،'' ایک بار دیکھا ہے، بار بار دیکھنے کی ہوس ہے'' کے مصداق وہ ایک بار پھر ہمیں لوٹ کھسوٹ کر بھاگنا چاہتے ہیں۔
ہمیں لگتا ہے کہ وہ عیاشی کر رہے ہیں مگر ان کے حال اللہ ہی جانتا ہے، آپ میں سے کسی کو اگر اتفاق ہو یہ جاننے کا کہ ان سب کی ذہنی اور جسمانی حالت کیا ہے تو آپ کو ان پر تاسف ہو گا اور آپ ان سے ضرور سوال کریں گے کہ اتنی دولت کا وہ کریں گے کیا آخر؟ جسے نہ کوئی ساتھ لے کر جا سکتا ہے، نہ اسے کھا سکتا ہے، نہ اسے سہولت سے استعمال کر سکتا ہے، نہ اس سے بنائے ہوئے محل کسی کو جنت میں فراہم کر دیے جائیں گے۔
ہمارے موجودہ حکمرانوں کے معدے ماشااللہ کچھ زیادہ مضبوط ہیں اور ہر طرح کا '' کھایا پیا '' ہضم کر لیتے ہیں ورنہ جو لوٹ کر باہر بیٹھے ہیں ان سب کے بارے میں تو یہی شنید ہے کہ وہ طرح طرح کی بیماریوں کے باعث کچھ کھا پی بھی نہیں سکتے، اپنے اپنے ٹھکانوں پر وہ لوگوں سے چھپ کر بھی رہتے ہیں۔ جب آپ اپنی کمائی سے کھا نہیں سکتے، اپنا پہنا اوڑھا کسی کو دکھا نہیں سکتے، اپنی جمع پونجی کو جائز اور حلال قرار نہیں دے سکتے، جن لوگوں کے خون چوس کر آپ نے یہ انبار جمع کر رکھے ہیں ان کی بد دعائیں سب سے بڑا زاد راہ بن جاتی ہیں آپ کے لیے...
کل ہی کسی نے ایک ای میل بھیجی جسے میں آپ سے شئیر کرتی ہوں ۔
''اگر قارون کو بتا دیا جائے کہ آپ کی جیب میں رکھا اے ٹی ایم کارڈ اس کے خزانوں کی ان چابیوں سے زیادہ فوائد کا حامل ہے، جنھیں اس وقت کے طاقت ور ترین انسان بھی اٹھانے سے عاجز تھے، تو قارون پر کیا بیتے گی؟
اگر کسریٰ کو بتایا جائے کہ آپ کے گھر کی بیٹھک میں رکھا صوفہ اس کے تخت سے کہیں زیادہ آرام دہ ہے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟
اگر قیصر روم کو بتا دیا جائے کہ اس کے غلام شتر مرغ کے پروں سے بنے پنکھوں سے اسے جیسی اور جتنی ہوا پہنچایا کرتے تھے، آپ کے گھر کا درمیانہ درجے کا سپلٹ اے سی اس سے ہزار گنا زیادہ ٹھنڈی ہوا دیتا ہے تو اس پر کیا بیتے گی؟
ہرقل خاص مٹی کی صراحی سے ٹھنڈا پانی لے کر پیتا تھا تو دنیا اس کی آسائش پر حسد کیا کرتی تھی، اگر اسے آپ کے گھر کا کولر دکھا دیا جائے تو وہ کیا سوچے گا؟
خلیفہ منصور کے غلام اس کے لیے ٹھنڈے اور گرم پانی کو ملا کر غسل کا اہتمام کرتے تھے اور یہ اس دور میں بہت بڑی عیاشی تھی، اگر وہ آپ کو جا کوزی میں یا شاور میں غسل کی سہولت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھے تو اس کا کیا عالم ہو؟
اونٹوں پر سوار ہو کر حج کے لیے گھر سے نکلتے تھے اور مہینوں میں پہنچتے تھے اور آج آپ جہاز میں سوار ہو کر چند گھنٹوں میں مکہ پہنچ سکتے ہیں۔
مان لیجیے کہ آپ بادشاہوں جیسی راحت میں ہی نہیں رہ رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بادشاہ آپ جیسی راحت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، مگر کیا کیجیے کہ آپ سے جب بھی ملیں آپ اپنے نصیب سے نالاں ہی نظر آتے ہیں، ایسا کیوں ہے کہ جتنی راحتیں اور آسانیاں بڑھ رہی ہیں اتنا ہی آپ کا سینہ تنگ ہوتا جا رہا ہے اور آپ اللہ کی ان نعمتوں کا کم کم شکر ادا کرتے ہیں، جن کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا!''
یہ صرف ایک پیغام تھا جسے میں نے آپ سے شیئر کیا، حالانکہ تاریخ لکھتے وقت مورخین کچھ نہ کچھ رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور اس وقت کے بادشاہوں اور شہنشاہوں کی عیاشی کا مقابلہ آج کے حالات کے تناظر میں نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے عوام بھی اسی دور کے ہونے چاہئیں۔ میں تو اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی حیثیت میں بادشاہ ہے، جو ذی شعور ہے، اچھے برے کی پہچان رکھتا ہے، دل و دماغ رکھتا ہے، ہر وہ شخص جو کسی سے بھیک نہیں مانگتا اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ لیتا ہے، جس کا کوئی دشمن نہیں ، جس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے اور جسے کوئی نا قابل علاج بیماری نہیں ہے۔
اگر آپ کے تن پر کافی لباس ہے، پرانا ہے یا نیا، مہنگا ہے یا کم قیمت... اگر آپ کو رات گزارنے کے لیے چھت میسر ہے چاہے وہ چھت کچی ہو، اگر آپ کو سونے سے پہلے ایک وقت کا کھانا بھی نصیب ہو گیا ،خواہ وہ دال تھی، سبزی یا گوشت، جس میں حرام کی آمیزش نہ تھی اور جس کسی نے بھی کمایا، اپنی محنت سے کمایا تھا ، آپ کسی بری عادت میں مبتلا نہیں نہ ہی نشے کی لت ہے، آپ دوسروں کی عزت کرتے ہیں اور ان سے عزت کرواتے ہیں، آپ کا خاندان ہے، پیارے پیارے رشتے ہیں اور آپ کے پاس اپنے گھر کے ان لوگوں کے پاس گزارنے کو وقت ہے جو آپ سے اور جن سے آپ کو پیار ہے... آپ کے پاس ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد جیسی نعمتیں ہیں تو آپ دنیا کے سب سے بڑے امیر ہیں، بادشاہ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میںایک ہی ہوتا ہے، ہم میں سے ہر شخص بادشاہ نہیں ہو سکتا۔
ہماری سوچ کے دائرے سے بھی باہر ہے کہ ہم پر اللہ کے کیا کیا احسانات ہیں، اس کی کن کن نعمتوں کا ہمیں ادراک تک نہیں۔ جن چیزوں کو ہم بے حد معمولی اور معمول سمجھتے ہیں، سانس لینا... تازہ ہوا کا معمولی کاوش سے اور بلا کسی ارادہ کے، کسی آٹو میٹک مشین کی طرح، چند سیکنڈ میں یہ ایک سانس ہمارے جسم کے اندر اپنا کام کرتی ہے اور کیمیاوی عمل کا حصہ بن جاتی ہے، اسی سانس کو ہم بغیر کسی اختیاری کوشش کے، آٹو میٹک طریقے سے باہرنکالتے ہیں۔
اس سانس کا ہمارے جسم میں جانا، اور اسی کا جسم سے باہر نکلنا ، اس قدر اہم ہے کہ اس پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے، چلنا، بولنا، دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا، محسوس کرنا، چھونا، سوچنا، کام کرنا، کسی بات کو بیان کرنا، تکلیف اور خوشی کو ظاہر کرنے کی قابلیت، احساسات کا اظہار ... بخدا ایک طویل فہرست ہے کہ ہمیں اللہ نے کیا کیا صلاحیتیں نعمتوں کی صورت دے رکھی ہیں اور ہم ان کا نہ شمار کرپاتے ہیں نہ شکر، بس ایک کام ہے جو ہم دن رات کرتے ہیں، نا شکری!!
آپ کسی پر اس دنیا میں ایک ٹکے کا احسان بھی کرتے ہیں تو توقع کرتے ہیں کہ اس کا اعتراف کیا جائے، کسی کو کال بھی کریں تو آخر میں آپ کے لبوں پر شکوہ ہوتا ہے کہ میں نے فلاں کو کال کی اور اس نے شکریہ تک ادا نہیں کیا! ماں اپنے بچوں کو محبت سے کھانا بنا کر کھلاتی ہے، کھانا کھا کر بچہ ماں کا شکریہ ادا کرے تو ماں کا سیروں خون بڑھ جاتا ہے اور وہ اور بھی جذبے اور محنت سے کھانا بنانے لگتی ہے، باپ اپنے بچوں کے لیے کچھ کرے تو اسے بھی توقع ہوتی ہے کہ بچہ اس کا شکر گزار ہو... جس نے ہمیں بنایا اور ہمیں اس قابل کیا کہ ہم خود کو جانے کیا سمجھ بیٹھتے ہیں، ہماری زندگی کے کسی لمحے میں وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑتا، ہم اسے صرف آزمائش میں یاد کرتے ہیں۔ کبھی سوچا؟ کبھی سوچا کہ وہ ہم سے کس کس لمحے میں شکر کا حقدار ہے؟ آپ کو خود جواب ملے گا کہ ہر سانس کے ساتھ، ہر لمحہ اور ہر آن! اللہ ہمیں شکر کی توفیق عطا فرمائے، آمین!