نئی جماعت امکانات و خدشات پہلا حصہ

اگر ان حلقوں کے ذہن میں پرویز مشرف کا خاکہ ہے، تو اس کا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا


Muqtida Mansoor March 28, 2016
[email protected]

سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ایم کیو ایم کے دیگر 8 منحرفین نے بالآخر 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقعے پر نئی جماعت کا اعلان کر دیا، مگر ساتھ ہی کئی سوالات بھی پیدا ہو گئے ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ان پر بحث ضروری ہو گئی ہے۔

اول، موجودہ معروضی حالات میں جب ملک کے شہریوں میں فرقہ وارانہ، لسانی اور صوبائی تقسیم گہری ہو رہی ہے، صرف ایک جماعت کے منحرفین، جو مخصوص لسانی شناخت رکھتے ہیں، آیا ملک کے دیگر حصوں میں قبولیت حاصل کر سکیں گے؟ دوئم، کیا یہ جماعت ایم کیو ایم (حقیقی) کا نیا نرم (Soft) چہرہ تو نہیں ہے؟ سوئم، کہیں اس جماعت کی تشکیل کے پس پشت ریاستی منتظمہ کی کراچی کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنے کی کئی دہائیوں سے جاری خواہش تو نہیں ہے؟

ان سوالات کے جوابات تک پہنچنے کے لیے پاکستانی سیاست میں ریاستی مقتدرہ کے کردار اور کراچی کے بارے میں اس کے خیالات اور تصورات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لیکن پہلے کچھ آرا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ''ابھی تو فلم شروع ہوئی ہے'' اگلے مناظر کا انتظار کیجیے، کیونکہ بہت کچھ سامنے آنے والا ہے۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ کہانی کا اصل کردار نہ تو مصطفیٰ کمال ہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کے الگ ہونے والے دیگر منحرفین۔ بلکہ یہ کھیل کسی اور کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔

اگر ان حلقوں کے ذہن میں پرویز مشرف کا خاکہ ہے، تو اس کا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ درست ہے کہ اربن سندھ کی اردو بولنے والی کمیونٹی ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے، مگر ہمارے خیال میں یہ کمیونٹی انھیں الطاف حسین کے حلیف کے طور پر قبول کر سکتی ہے، حریف کے طور پر نہیں۔

اگر ان حلقوں کا خیال ہے کہ مصطفیٰ کمال کی جماعت کو جسٹس (ر) افتخار چوہدری کی جماعت میں ضم کرانا ہے۔ تو بھی اتنا لمبا چوڑا کھٹراگ پھیلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افتخار چوہدری کے لیے اربن سندھ میں پسندیدگی کے کوئی جذبات نہیں پائے جاتے۔ اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جنرل ضیا الحق کے دور سے صوبائی اور لسانی تقسیم زیادہ گہری ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ہر صوبے میں اپنی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈر کی قیادت میں قائم جماعت کو قبولیت دینے کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔

پنجاب ہی کی مثال کو لیجیے، جب سے انھیں میاں نواز شریف کے متبادل کے طور پر عمران خان نظر آئے ہیں، پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو گھن لگ گیا ہے۔ کیونکہ اب اہل پنجاب کو کسی بھٹو کی ضرورت نہیں ہے۔ سندھ میں عام سندھی پیپلز پارٹی کی ناقص ترین کارکردگی کے باوجود اس کے ساتھ اس لیے چمٹا ہوا ہے کہ اسے اتنی پوٹینشل کا متبادل نظر نہیں آ رہا۔ اربن سندھ کی اردو بولنے والی کمیونٹی بھی اب کسی غیر مہاجر کو اپنے اوپر مسلط کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم کے منحرفین، جو مہاجر سیاست کی طرف آنے پر آمادہ بھی نہیں ہیں، انھیں خاطر خواہ Response ملنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اب اگر اس پوری سیاسی صورتحال کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی اربن سندھ میں نئے سیاسی سیٹ اپ کے لیے بے چینی کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلے کی پہلی مثال 1954ء میں بننے والا جگتو فرنٹ (United Front) ہے۔ جس نے بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی 309 میں سے 223 نشستیں حاصل کیں، تو مغربی پاکستان میں بیٹھی مقتدر اشرافیہ کے کان کھڑے ہو گئے۔

اس نے اس وقت دو کلیدی فیصلے کیے۔ اول، بنگالیوں کی عددی اکثریت کو کم کرنے کی خاطر پیریٹی کا اصول وضع کیا۔ جس کے لیے مغربی حصے کے چاروں صوبوں کی انفرادی تاریخی اور سیاسی حیثیت ختم کر کے ون یونٹ تشکیل دیا گیا۔ دوئم، سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ اور حسب منشا گروپ تشکیل دے کر ان کی نظریاتی اساس کو کمزور کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔ جس نے ایوب خان کے آمرانہ دور میں مزید تقویت پائی اور یہ سلسلہ ہر آنے والے دور میں طویل ہوتا چلا گیا۔

پیریٹی کا نظریہ اور ون یونٹ کا قیام پاکستان کے آئینی تصور پر کند چھری سے حملہ تھا۔ کیونکہ پاکستان 1946ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوا تھا، جب مسلم اکثریتی صوبوں کی لیجسلیٹو اسمبلیوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا (سوائے خیبر پختونخوا)۔ یوں ان صوبوں کی جانب سے اپنی آزادی کو شیئر کرنے کے نتیجے میں یہ ملک ایک وفاق کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ اس سلسلے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بنگالی صرف عددی طور پر اکثریت میں تھے، نہ تو ریاستی منتظمہ میں ان کی اکثریت تھی اور نہ ہی مسلح افواج میں ان کا خاطر خواہ حصہ تھا۔

لیکن اس کے باوجود مغربی پاکستان میں بیٹھی حکمران اشرافیہ ان سے خوفزدہ تھی اور کسی نہ کسی بہانے ان کے خلاف سازشوں کے جال بنتی رہتی تھی۔ اگر بعض عالمی سروے پر نظر ڈالیں تو 1966ء میں عوامی لیگ کی سابقہ مشرقی پاکستان میں مقبولیت 35 فیصد سے بھی کم تھی۔ حالانکہ 1954ء کے انتخابات میں اس نے 143 نشستیں حاصل کی تھیں، مگر جب ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمان پر اگرتلہ سازش کا الزام عائد کیا اور مقدمہ چلائے بغیر انھیں جیل میں ڈالا تو اس جماعت کی مقبولیت آسمان تک جا پہنچی۔

پھر وہی روایتی حماقتیں، یعنی جنوری 1969ء میں گول میز کانفرنس کے موقعے پر جب ایوب خان نے سیاسی دباؤ میں آ کر اگرتلہ سازش کیس واپس لے لیا اور شیخ مجیب الرحمان کو نہ صرف گول میز کانفرنس میں مدعو کیا، بلکہ ایوان صدر میں ان کا استقبال بھی کیا۔ اس دوہری بلکہ منافقانہ پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ 1970ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لیے قومی اسمبلی کی 162 میں سے 160 نشستیں عوامی لیگ نے حاصل کر لیں۔ دو نشستوں میں سے ایک راجہ تری دیو رائے کو ان کے چکمہ قبیلے کی وجہ سے ملی، جب کہ دوسری نشست پر نورالامین مرحوم شیخ مجیب کی سخاوت کے باعث کامیاب ہو سکے۔

اب ذرا کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنائے جانے کے بعد اس کے مرکنٹائل کردار میں وسعت آنا شروع ہوئی اور مڈل کلاس کلچر جو پہلے شہر کی پارسی، ہندو، مسیحی آبادی تک محدود تھا اور بہت کم مسلمان اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے، اس میں بھی وسعت آنا شروع ہوئی۔ شہر میں مڈل کلاس سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا آغاز ہوا، تو بعض اہم سہولیات کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج بھی شروع ہوئے۔ اس دوران کراچی کے طلبا نے غیر مساویانہ نظام تعلیم اور فیسوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف تحریک شروع کی۔

8 جنوری 1953ء کو طلبا کے اس جلوس پر فائرنگ کی گئی، جو وفاقی وزیر تعلیم سے ملنے جا رہا تھا، جس کے نتیجے میں ایک راہ گیر سمیت 8 نوجوان شہید ہوئے۔ اس کے بعد طلبا کی یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ حکمران طبقہ نے اس صورتحال کو سمجھنے اور اس سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے بجائے اسے حکومت کے خلاف سازش اور اس کا ذمے دار ہجرت کر کے آنے والی کمیونٹی کو ٹھہرایا۔

اس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان (بعد میں خود ساختہ فیلڈ مارشل) نے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو تین مشورے دیے۔ اول، ملک کا دارالحکومت کراچی سے منتقل کر دیا جائے۔ دوئم، ہجرت کر کے آنے والی تنخواہ دار مڈل کلاس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کراچی میں ان کی عددی اکثریت اور سیاسی قوت کو توڑنے کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے لوگوں کو کراچی لا کر آباد کیا جائے۔

سوئم، سندھ کے قدیمی باشندوں (سندھیوں اور بلوچوں) کے ساتھ ہجرت کر کے آنے والوں کے سیاسی و سماجی تعلقات قائم نہ ہونے دیے جائیں۔ اس وقت تو ان تجاویز پر عمل نہیں ہو سکا۔ مگر جب 1958ء میں ایوب خان خود اقتدار پر قابض ہوئے، تو انھوں نے اپنی ان تینوں تجاویز پر عمل شروع کر دیا۔ دارالحکومت اسلام آباد لے گئے۔ کراچی کی Demography کو تبدیل کرنے اور ہجرت کر کے آنے والوں کی سیاسی قوت کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے تربیلا ڈیم کے متاثرین کو کراچی میں آباد کیا۔ اس کے علاوہ ہر پکی بستی کے اطراف ایک کچی بستی بسانے کا سلسلہ شروع کیا، جب کہ مقامی سندھیوں اور اردو بولنے والوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے کراچی کے سندھی میڈیم اسکول بند کر دیے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں