پولیس کے ناکوں سے ای سی ایل تک
قانون نافذ کرنے والے ادارے چیکنگ اور اسنیپ چیکنگ کے لیے ناکے لگاتے ہیں
قانون نافذ کرنے والے ادارے چیکنگ اور اسنیپ چیکنگ کے لیے ناکے لگاتے ہیں، جس کا مقصد مجرموں کو پکڑنا ہوتا ہے، ایک افسر چالان کاٹنے کی ذمے داری ادا کرتا ہے، دو تین کانسٹیبل گاڑیوں کو روکنے کا کام انجام دیتے ہیں اور ایک سپاہی ملزمان سے مذاکرات کے لیے مختص ہوتا ہے۔
سڑک پر موٹر سائیکلوں، کاروں، ویگنوں، کوچوں کا سیلاب بہتا رہتا ہے، جن جوانوں کی ڈیوٹی گاڑیاں روکنے کی ہوتی ہے وہ اپنی مرضی سے جس بائیک کار یا ویگن کو چاہتے ہیں ہاتھ دکھا کر روک دیتے ہیں، جن کو روکا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی جرم کا لازمی مرتکب نکلتا ہے اور اسے مذاکراتی جوان یا حوالدار سے مذاکرات کرنا پڑتے ہیں اور یہ مذاکرات بڑے پراسرار ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں جیبوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ملزم اور قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں کا تبادلہ ہوتا ہے، اگر مذاکرات کامیاب ہوں تو ملزم بری ہو کر چلا جاتا ہے، اگر مذاکرات کسی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں تو ملزم کو افسر کی طرف ریفر کیا جاتا ہے اور افسر چالان کاٹتا ہے۔
کہا جاتا ہے چالان کی دو بکس ہوتی ہیں ایک اصلی، ایک نقلی، یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے۔ دو بکس الگ الگ کیوں ہوتی ہیں، ان ناکوں کے سامنے سے ہزاروں گاڑیاں گزر جاتی ہیں، جن میں بڑے بڑے مجرم ہو سکتے ہیں لیکن رکتا وہی ہے جس کو دیکھ کر سپاہی ہاتھ کے اشارے سے روک دے،یہ سپاہی کا اختیار ہوتا ہے۔
آج سیاسی پارٹیاں واویلا کر رہی ہیں کہ ایک قابل گردن زنی مجرم ای سی ایل کا سخت ترین ناکہ توڑ کر نکل گیا، کچھ کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات ہوئے، مذاکرات کامیاب ہوئے۔ ملزم کے سر سے ای سی ایل کا پھندا ہٹا دیا گیا اور وہ بیرونی ملک چلا گیا۔ سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنا ایک پرانی روایت ہے۔
ملزم آرٹیکل 6 کا اسیر تھا اور آرٹیکل 6 کا راستہ پھانسی گھاٹ پر جا کر رکتا ہے، اس ملزم کے بچ نکلنے پر وہ پارٹیاں زیادہ سینہ کوبی کر رہی ہیں جن کے کئی اعلیٰ نسل کے رہنما بچ کر نکل گئے ہیں اور بیمار ہیں، علاج جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے شفا ملتے ہی واپس آ جائیں گے۔ مشرف بھی بیمار ہے اور بیماری وہی ہے جن میں فراری مبتلا ہیں۔ مشرف نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ شفا حاصل ہوتے ہی ایک دن کی تاخیر کے بغیر وطن واپس آ جائیں گے۔ اس حوالے سے حمایت علی شاعر کا مصرع: ''وطن کی مٹی گواہ رہنا'' گنگنایا جا رہا ہے۔
ہمارے ملک کی نیم سیاسی تاریخ میں آرٹیکل 6 کے چار غدار رہے ہیں، پہلا نمبر ایوب خان، دوسرا ذیلی نمبر یحییٰ خان، تیسرا دھانسو نمبر ضیا الحق، چوتھا منکسر المزاج لیکن سب سے زیادہ خطرناک نمبر پرویز مشرف کا ہے۔ یہ سب آئین توڑنے کے مرتکب کہلاتے ہیں، آئین ملک کی ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے۔ 1973ء کا آئین زیادہ مقدس اس لیے مانا جاتا ہے کہ یہ متفقہ آئین ہے، یعنی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکابرین نے اس پر دستخط کیے، اس آئین کی تخلیق کا سہرا مرحوم یا مقتول ذوالفقار علی بھٹو کے سر باندھا جاتا ہے۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں الیکشن کرائے مخالف سیاسی رہنماؤں نے الزام لگایا کہ بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کرائی غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی انتخابات جیت چکی تھی، اگر دھاندلی ہوئی بھی تھی تو وہ چند سیٹوں پر ہوئی تھی، جن کا بھٹو کی جیت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا لیکن حزب اختلاف کے سامنے سوال محض دھاندلی کا نہیں تھا بلکہ سوال ''جمہوریت کی آبرو'' کا تھا، سو ملک کی نو جمہوریت پسند جماعتوں نے بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ جمہوری تحریک ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
اسے ہم اتفاق نہیں بلکہ حسن اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ امریکا بھی ہر قیمت پر سرکش بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا چاہتا تھا اور اسی حسن اتفاق سے 9 ستاروں کی تحریک امریکی چاند کی مرضی سے مناسبت رکھتی تھی۔ یوں تحریک تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھنے لگی۔ چونکہ بات جمہوریت کی آبرو کی تھی، اس لیے 9 جمہوری ستاروں نے مصالحت کی ہر کوشش کو ٹھکرا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ آخر میں مذاکرات کامیابی کے قریب پہنچ گئے تھے کہ ضیا الحق نے دھڑام سے انٹری دی اور جمہوریت اور اس کے سرپرست نو ستاروں کا کھیل ختم ہو گیا۔
جمہوریت کی گاڑی رک گئی، ضیا الحق نے بھٹو کی جگہ لے لی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ضیاالحق آسمانی سلطانی کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھے سو انھوں نے ایک مجوزہ قتل میں بھٹو کو ملوث کر دیا اور عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بھٹو کو سزائے موت سنا دی اور بے حد محتاط اور خوف زدہ ضیا الحق نے بلاتاخیر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔
بھٹو نہیں جمہوریت پھانسی پر چڑھ گئی۔اس پورے جمہوری افسانے کا کلائیمکس یہ ہے کہ جمہوریت کی سربلندی کے لیے تاریخی تحریک چلانے والے اکابرین ضیا الحق کی حکومت کا حصہ بن گئے اور نئی شیروانیاں پہن کر گلشن کا کاروبار شروع کر دیا۔ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جب یہ جمہوریت کش کارنامہ اسلام آباد کی مقدس سرزمین پر انجام دیا جا رہا تھا اس وقت پرویز مشرف اسلام آباد کی زمین پر نہیں بلکہ ہوائی جہاز میں تھے۔ آرٹیکل 6 نہ زمین دیکھتا ہے نہ آسمان، وہ اپنی خلاف ورزی کو دیکھتا ہے.
سو پرویز مشرف اس کے پنجے میں آ گئے ہیں۔ صرف مسئلہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا نہیں بلکہ اکبر بگٹی کے قتل کا ہے اور لال مسجد کیس کا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اصل مسئلہ جمہوریت کی آن اور سیاست کی شان کا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے صرف آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے ایک ملزم بلکہ مجرم کا ذکر کیا ہے۔ اس طرف بڑھنے سے پہلے ہم عوام ایک سوال کا جواب چاہتے ہیں۔ وہ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا اصل قاتل ضیا الحق تھا یا اس کی حکومت میں شامل ہونے والے سیاست دان تھے؟
جنرل ایوب خان نے جمہوری حکومت کو قتل کیا، اصل قاتل ایوب خان تھا یا اس کی خدمت میں کنونشن لیگ پیش کر کے اس کی حکومت کو مضبوط بنانے والے اور اس کی حکومت کا حصہ بننے والے تھے؟ 1999ء میں پرویز مشرف نے جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
جو لوگ اس بغاوت پر مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، کیا وہ جمہوریت کے چیمپئن تھے؟ جن لوگوں نے پرویز مشرف کو مسلم لیگ (ق) کا تحفہ دیا اور اس کی حکومت میں شامل ہوئے، وہ جمہوریت کے دوست تھے یا جمہوریت کے دشمن؟ وہ فوجی جنرل جنھوں نے منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا، عوام ان کے دور کو کیوں یاد کرتے ہیں اور 16 روپے کلو آٹے کا موازنہ پچاس روپے کلو آٹے سے کیوں کرتے ہیں۔
چار فوجی جنرلوں نے حکومتوں کے تختے الٹے ان جنرلوں کے خلاف کرپشن کے کیس کیوں نہیں بنائے گئے۔ جمہوری حکمرانوں کے خلاف کرپشن بلکہ اربوں کی کرپشن کے کیسز کیوں چل رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ کچھ گروہوں نے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا ہے یہ گروہ کون ہیں؟ مشرف کو انٹرپول کے ذریعے واپس لایئے تا کہ جمہوریت کا بول بالا ہو۔